ترقی کا کوئی فارمولا

عوام پر، تجارتی اداروں پر بے تحاشا ٹیکس اور 40روپے فی کلو چینی کرنے کے بعد بھی وزارت ِ خزانہ مطمئن ہونے کی بجائے پریشان ہو گئی ہے وہ SOE,sکے دیوالیہ ہونے کے خدشات لئے بیٹھی ہے ہم تو سمجھ رہے تھے کہ چلو خزانے پر قرضوں کا بوجھ بڑھا ہے تو حکومت ایسے منصوبے ایسے پراجیکٹ متعارف کرائی گئی جس کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر ہو سکتا ہے کہ اچھے پڑیں !مگر یہاں تو کنگا ہی اُلٹی بہنے لگی ہے خزانے کے ترجمان اب بتا رہے ہیں کہ ریاست کے ملکیتی ادارے ریڈ زون میں داخل ہو چکے ہیں حیرت اس بات پر ہے کہ یہ مذکورہ ادارے ایک دن میں تو ریڈ زون میں داخل نہیں ہوئے تنزلی کی جانب یہ سفر اگر شاہانہ مزاج افسران جو ان اداروں کے منصب ِ بالا پر تمام مراعات کے ساتھ براجمان ہیں تو ان کی نظروں کے سامنے ان کی سرپرستی میں یہ ادارے ریڈ زون میںکیسے داخل ہوئے ہیں ان سے حکومت کیوں نہیں پوچھتی؟ کہ ریاست کے ملکیتی اداروں کو بے توجہی کی نذرکرنے کے پیچھے کیا عزائم کارفرما تھے ؟حکومت کا اداروں کی تنزلی پر فوری ایکشن و تحقیق ناگزیر ہے کیونکہ اگر ان ادارتی شخصیات کی نظریں داخلی کنٹرول پر ہوتی اور گورننس سٹرکچرز اور رسک مینجمنٹ کو بہتر بنانے کی اہلیت ہوتی تو آج وزارت ِ خزانہ کی غلام گردشوں میں معاشی اندھیرے پھیلنے کی خبریں آندھیوں کی مانند نہ پھیل رہی ہوتیں ۔موثر نگرانی کی بات اپنی جگہ مگر اہلیت کا عمل دخل کسی ادارے کی ترقی و کامیابی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اہلیت کی قحط سالی سے ان واقعات کا جنم ہوتا ہے جن میں مالی غلط بیانیاں ،لاگت میں اضافے اور فراڈ و بد عنوانیاں یہ ساری بیماریاں پیدا ہونے میں دیر نہیں کرتیں اورریاستی ادارے اگر بغیر کسی نگرانی کے ان دیکھے راستوں پر رواں ہوں تو حادثات کا خطرہ یقینی ہو جاتا ہے اور وہی ہوا جس کا اظہار قیامت سر پر آنے کے بعد وزارت ِ خزانہ نے کیا۔اللہ پاک نے قیامت کاوقت تو نہیں بتایا مگر اُس کی نشانیوں سے آگاہ ضرور کیا ہے تا کہ لوگ توبہ کادروازہ بند ہونے سے پہلے اپنی عاقبت سنوار لیں مگر یہاں تو زندگی بسر کرنے کا کوئی دینی یا دنیاوی فارمولا بتایا ہی نہیں گیا جو اچھی باتیں معلوم ہیں اُن پر عمل نہیں ہوتا پھر حرص و لالچ کے مفادات موت بھی فراموش کر دیتے ہیں تو بندہ بیچارہ دوسرے کے گھر گرا کر اپنے مفاد ہی بچا سکتا ہے بس !!! ایسے معاشرے میں ان باتوں کا ہونا انہونی نہیں ہوتا ۔اداروں کہ ممکنہ تباہی پر وزارت ِ خزانہ کی دستاویز کے مطابق سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سرکاری اداروں کا الٹمین زیڈ سکور اوسط 0.29فیصد ہے جو مالی بحران اور دیوالیہ پن کا واضح اشارہ ہے رانا غلام قادر مزید بتاتے ہیں کہ یہ مذکورہ سکور اس بات کی واضح نشان دہی ہے کہ کئی سرکاری ادارے ریڈ زون میں کام کر رہے ہیں جن کا دیوالیہ ہونے کا امکان ہے بلکہ قوی امکان ہے جانچ پڑتال کے اس مذکورہ فارمولے کو 1963میں نیویارک یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ایڈورڈ آئی آلٹ مین نے کسی کمپنی کے دیوالیہ پن کے امکانات کی نشاندہی کے لئے بنایا تھا جس میں لاپرواہی ،مالی بے ضا بطگیاں اور موئثر کنٹرول نہ ہونے کو بڑی وجوہات قرار دی تھیں دل ماتم کناں اس بات پر ہے کہ ان اداروں میں ترقی کی رفتار کم ہونے کو نظر انداز کرتے ہوئے کبھی اصلاحی اقدامات کی جانب کوئی مثبت قدم اُٹھایا ہی نہیں گیا جس سے نقصانات کی خلیج اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ اس سے لاعلاج خطرات کے اندیشے جنم لینے لگے ہیں کیونکہ ان ریاستی ملکیتی اداروں کے سربراہوں و دیگر ملازمین نے موئثر کنٹرول کی عدم موجودگی میں ناقص پالیسیوں کو روا رکھا ہے جس سے مالی عدم استحکام اور ان اداروں پر عوامی اعتماد کے زوال میں اضافہ ہوا ہے ایک اطلاع کے مطابق ان ریاستی ملکیتی اداروں کے ایکٹ 2023کے نفاذ کے باوجود بہت سے ڈائرکٹرزغیر فعال ہیں یعنی خانہ پری کی کئی ہے گویا ان ڈائریکٹرز حضرات کے پاس ادارہ کو چلانے کا نہ کوئی تجربہ ہے نہ مہارت نہ آزادی بلکہ کوئی بھی فیصلہ کرنا ہو کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لئے وہ ان کی دسترس سے باہر ہے یعنی انھوں نے ادارے کو برباد ہوتے صرف دیکھنا ہے کوئی احتیاطی اقدام نہیں کرنا گویا کس کس کو بتائیں گے تباہی کا سبب ہم ؟؟؟مضبوط پاکستان کے لئے بہتر معیشت و عوامی خوشحالی لازم و ملزوم ہیں لہٰذا ان اداروں کو جو معیشت کی بنیادوں کو مضبوط رکھنے کی اور دفاع پاکستان کو ناقابل ِ تسخیر بنانے کی صلاحیت رکھتیء ہیں اُن پر خصوصی توجہ بہت ضروری ہے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کو جلانا دانش مندی نہیں ہے معاشی ماہرین سے عاجزانہ التجا کہ اب ترقی کا کوئی فارمولا ایجاد کر دیں غیر ضروری اخراجات جن میں فری پٹرول ،فری بجلی و دیگر عیاشیانہ مراعات ہیں تمام سرکاری افسران سے واپس لیں اور قرضوں کی بجائے دستیاب وسائل پر اپنی ملکی معیشت کی بنیادیں استوار کریں ان مندرجہ بالا عیاشیوں سے صرف ایک مخصوص طبقہ ہی سکون پاتا ہے جب کہ عوام کی بڑی تعداد بنیادی محرومیوں کا شکار رہتی ہے میرے نزدیک ریاست کی بہتری کا بہترین فارمولہ لارڈ میکالے کے قوانین کو رد کر کے اسلامی قوانین کا عملی نفاذ ہے ۔