ہفتہ وار کالمز

بدقماشی

ٹھیک دوہفتے کے بعد ہم پاکستان کی اٹھترویں سالگرہ منا رہے ہوں گے یہ ملک کبھی صرف پاکستان تھا پھر جمہوریہ پاکستان بنا، ہم تئیس مارچ کو یوم جمہوریہ مناتے تھے ۔73 کا آئین بنا تو یہ ملک بھٹو کےفضل و کرم سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گیا۔ ہم نے تئیس مارچ کو یوم جمہوریہ منانا بند کردیا ہم تئیس مارچ کویوم پاکستان منانے لگے یہ فرمان ایک آمر کا تھا آمر چلا گیا مگر کسی بھی سیاسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یوم پاکستان کو دوبارہ یوم جمہوریہ بنادے حالانکہ ہر سیاسی حکومت جمہوریت کی بات کرتی رہی کبھی ہمت پڑی تو منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے سول سپر میسی کی بات کرلی، یہ باتیں صرف انتخابی مہم کے دوران کی جاتی ہے اس کے بعد کس کی مجال کہ وہ ظل سبحانی سے پوچھ لے کہ حضور آپ نے سول سپر میسی کی بات کی تھی کہاں تک پیش رفت ہوئی اگر کچھ رکاوٹیں ہیں تو کم از کم تئیس مارچ کو یوم جمہوریہ منانے کا اعلان کردیں، رعایا میں اتنی ہمت کہاں سے آئے اورمیڈیا یہ سوال کیوں کرے،میڈیا میںملازمت کرنے والے سارے صحافی میڈیا ہائوس کے ابرو کے منتظر رہتے ہیں ۔ الفاظ کا چنائو بھی میڈیا مالکان کی مرضی سے ہوتا ہے لہٰذا جب سیاست دانوں پرمیڈیا نے دبائو بڑھانا ہوتا ہے تو وہ سیاست دانوں کے پچھلے کلپ نکالتے ہیں اور سیاست دانوںکے منہ پر مارتے ہیں حالانکہ رسم یو ں ہے کہ یہ بتایا جائے کہ قوم کی یادداشت بہت خراب ہے ۔ قوم کا حافظہ خراب نہیں بلکہ میڈیا مالکان کی نیت خراب ہوتی ہے ، کبھی یہ بھی کہا جاتا تھا کہ پاکستان کا میڈیا UNDER WORLD ہے اس لئے رائو رشید نے لکھا تھا کہ پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار تین (ج) ہیں۔ جنرلز، ججز اور جرنلسٹس ۔صحافی خبر دیتا ہے اگر صحافی کو کوئی خبر ملی بھی تو یہ فیصلہ میڈیا ہائوس کوکرنا تھا کہ نشر ہوگی یا نہیں۔اگر نشر ہوگی تو اس کا رخ کیا ہوگا میڈیا ہمیشہ ہی فوج کے زیر اثر رہا، جنرلز کے بارے میں اگر کوئی خبر لگی بھی تو وہ بھی جنرلز کے اشارے پر ہی لگی۔ اگر یہ خبر لگی کہ مری کی پہاڑیوں کے اوپر ہیلی کاپٹر گھنٹوں ہوا میں جامد رہتاہے جب کہ جنرل یحییٰ نور جہاں اورزینت کے ساتھ داد عیش دے رہا ہوتا تھا تو یہ بھی جنرلز کی مرضی سے خبر لگتی تھی ۔بھٹو کی بلیک کوئین کے ساتھ معاشقے کی بات بھی کسی اشارے پر ہی دی گئی۔مگر اس میڈیا کو سقوط ڈھاکہ کی خبر نہیں ہوئی یہ خبر چھپی تو بھی ایک انڈین اخبار کے حوالے سے ہی جب اس نے جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی تصویر شائع کردی یا پھر اس سانحے پر بی بی سی نے تفصیل جاری کردی۔ ڈاکٹر قدیر کے معاملے پر بھی میڈیا خاموش رہا اسی میڈیا نے ڈاکٹر قدیر کورسوا کیا، میں کالج کےزمانے سے ہی جنگ اخبار کے دفتر جایا کرتا تھا وہیں میری ملاقات جناب شفیع عقیل اورانعام درانی سے ہوئی،شفیع عقیل مجھ پر بہت مہر بان تھے ان کے آفس میں بیٹھ کر بہت نایاب کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ان کی رہنمائی بھی حاصل رہی ۔مجسمہ سازی، خطاطی اورFRENCH LITERATURE اور مصوری کی شدبد بھی جناب شفیع عقیل سے ملی، انعام درانی سے نیاز بھی اسی جنگ کے دفتر میں حاصل ہوا،حسن سوز اوراظہرنفیس سے بھی گاہے بگاہے ملاقات ہو جاتی تھی ۔ ایک دن حسن سوز کے آفس میں بیٹھا تھا کہ خبر آئی کہ جنگ اخبار کوئٹہ سے بھی شائع ہوگا میرے منہ سے نکل گیا یہ سب کاروبار ہے اس دن سے اخبار جنگ میں میرا دخلہ بند ہوگیا پھر یہی خبرجنگ اخبار میں چھپی میںجنگ کوئٹہ اچھا کاروبار کر رہا ہے ۔ جنگ نے نیویارک سے بھی اخبارنکالنا چاہا مگر نیویارک میں پہلے ہی دس اخبارشائع ہو رہے تھے اورمفت بانٹے جاتے تھے یہ منافع بخش نہ تھا مگر دوسری طرف لندن ایڈیشن شائع ہو رہا تھا ایک موقع پر میر شکیل الرحمان نے بھی کہا تھا کہ اخبار میرا دھندہ ہے، پھر ادبی فضا کو مسموم کرنے کے لئے بیشمارڈائجسٹ نکلنا شروع ہوگئے یہ بھی منافع بخش کاروبار تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس کاروبارنے نوجوانوں کوتباہ کیا تو غلط نہ ہوگا، ادبی پرچوں کی مانگ کم ہوگئی اوربہت بڑے بڑے پرچے بند ہونا شروع ہوگئے احمد ندیم قاسمی کا فنون بھی بند ہوا ،شمس الرحمان فاروقی کو بھی اپنا بہت مؤقر رسالہ بند کرنا پڑا، یہ بہت بڑا نقصان تھا نوجوان علمی اورادبی محاکموں اورمباحث سے دور ہوگئے کاروبارے کے پردے میں ان سے THOUGH PROVOKING MATERIAL چھین لیا گیا ۔ ملکی مفاد اورنقصان کے درمیان کو ئی فرق رہا نہیں۔ سوشل میڈیا سوچ کی سطح کو کمترین سطح پر لے آیا اب اگر شاندانہ گلزار یہ کہیں کہ ہمیں پاکستان نہیں عمران چاہیےتو ان کے اس خیال کی بھی پذیرائی ہوتی ہے اوراس خیال کے چاہنے والوں کو کوئی دلیل نہیں بھاتی۔ اس سطح تک آتے آتے عشرے لگے ہیں یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا اس کے لئے بہت ضروری تھاکہ نظام تعلیم رجعت پسندانہ رکھا جائے ، اسکول سسٹم برباد کیاجائے اورلوگ اس بات پر مجبور ہوجائیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول کے بجائے مدرسوںمیں بھیجیں یا بہت مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں ، وہ جوعوام کی پہنچ سے باہرہوں۔
کسی قوم کی تباہی کے لئے ضروری ہے کہ اس سے سوچنے کی صلاحیت چھین لی جائے اور شخصیت پرستی کیلئے راہ ہموار کی جائے ، اس کام کی ابتدااسوقت ہوئی جب میڈیانےکسی طالح آزماکو قوم کانجات دہندکہنا شروع کیا ۔ ایوب خان، بھٹو،جنرل ضیاء الحق ،جنرل مشرف اورپھرعمران خان سب کے سب قوم کے نجات دہندہ تھے ،یا نجات دہندہ وہ ٹھہرے جوعلم ،عقل اورشعور کے دشمن تھے ،وڈیروں ،جاگیر داروں اورسرمایہ داروں کی بات کیوں نہ کی جائے یہ قوم کویرغمال بنانے آئے تھے۔ پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کے وسط تک تعلیم،صحت اورمفاد عامہ کا کوئی معیار تھا جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تعلیم ، صحت، مفاد عامہ اورامن عامہ میں دیمک لگنا شروع ہوگئی ان تینوں شعبوںمیں جو انحطاط آیا وہ اسی دور میں آیا کچھ صحافیوں کی رائے ہے کہ نواز کو تین بار وزیراعظم بننے کا موقع ملا اوران کو تینوں بارDEPOSE کیا گیا ۔ بے نظیر نے بھی اپنی مدت پوری نہیں کی اس کی وجہ فوج کادبائو تھافوج کی بار بار ان کو رخصت کرتی رہی ،بادی النظر میں یہ درست نظر آتا ہے مگر ایسی صورت میں ANTI ESTABLISHMENT MOVMENT کا جواز بنتا ہےجو نہیںچلی یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ نواز اوربینظیر نے فوج کے ساتھ مل کر بھی حکومت چلائی اس وقت بھی نواز اورزرداری ایک ARRANGMENT کے تحت ہی حکومت کر رہے ہیں ان کو فوج کی آشیرواد حاصل ہے اس میں میڈیا کاکردار بڑا اہم تھا مگر وہ کردار نظر نہیںآیا،میڈیا نے اس صورتحال پر آوازنہیں اٹھائی ۔جہاں عدلیہ نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا وہاں میڈیا بھی مارشل لاء کے صدقے واری جاتا رہا اوراس کو اس کارخیر کامعاوضہ بھی ملتارہا۔ خود سوچئیے کہ پاکستان کا وہ کون سا صحافی ہے جس نے ایجنسیوں کے ساتھ کام نہیں کیا آج بھی کئی صحافی اپنے پرومو میںاس بات کااقرار کرتے ہیں کہ انہوں نے ایجنسیوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ یہ صحافی جھوٹ بولتے ہیںفیک نیوز پھیلاتے ہیں اورحکومتوںکے لئے پریشانیاںپیدا کرتے ہیںحال ہی میںجنگ کےاعزازسید یہ خبر دے کرملک سے باہر چلے گئے کہ زرداری کو صدارت سے ہٹائے جانےکی بات چل رہی ہے اوربہت سے شریر صحافیوں نے اس کا یہ مطلب نکال لیاکہ زرداری کونکالا جائے گا اورفیلڈ مارشل عاصم منیرصدارت کاعہدہ سنبھالیں گے ۔ مجھے نہیںمعلوم کہ ادارے نے اعزاز سید سے خبر کی تصدیق چاہی یانہیں مگر مجھے اس بات کا یقین ہے کہ ادارہ اعزاز سید کے ساتھ کھڑا ہے۔سیاستدانوں کاکردار بہت گھنائونا رہاہے مگر میڈیا کا کردار انتہائی غلیظ رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوفیک نیوز کے موجد ہیں اورپیکا قوانین کو بہت سفاک کہتے ہیں اورمادرپدر آزادی چاہتے ہیں،یہ ایک مافیا ہے جو پاکستان کی جڑوںکوکھوکھلاکر رہاہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button