ہفتہ وار کالمز

اللہ اگر توفیق نہ دے ۔۔۔۔۔۔ !

جو چور، نوسرباز، سیاست کے اٹھائی گیرے، جنہیں خود ساختہ فیلڈ (یا فیلڈ، ناکام ) مارشل عاصم منیر نے چوبیس کڑوڑ پاکستانیوں پر مسلط کیا ہے اپنی ہوسِ اقتدار کو ہوا دینے کیلئے، ان کے بزدل دلوں میں عمران خان کا خوف اتنا ہے کہ صرف اس کے نام سے ہی نہیں بلکہ اس کے بیٹوں کے نام سے بھی اتنے ڈرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ !ان سیاسی کٹھ پتلیوں کی صفوں میں بلا کی ہلچل اور بے چینی ہے، بلکہ کہیں کہیں تو لگتا ہے جیسے صفِ ماتم بچھ گئی ہو، جب سے یہ خبر اُڑی ہے کہ عمران کے بیٹے، قاسم اور سلیمان اپنے باپ سے ملنے کیلئے پاکستان آرہے ہیں !یہ خبر کہاں سے نکلی ہے کسی کو معلوم نہیں کہ عمران کے دونوں فرزند اپنے باپ سے ملاقات کیلئے پاکستان کا قصد کر رہے ہیں؟اس گتھی کا سرا اگرتلاش کیا جائے تو یہ قیاس آرائی وہاں سے شروع ہوئی ہے جو چند دن پہلے عمران کی سابقہ بیوی، جمائمہ نے ایک ٹوئٹ پیغام تحریر کیا تھا جس میں اس نے انتہائی دردمندی سے یہ کہا تھا کہ عمران کو کال کوٹھڑی میں رکھنے والے اتنے تھڑ دلے اور ظالم ہیں کہ دو تین مہینے سے اس کے دونوں بیٹوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے۔جمائمہ ظاہر ہے کہ ایک جمہوری معاشرہ کی فرد ہیں اور اس جمہوری معاشرہ میں، جسے ہمارے دو رکعت کے امام اور ملا کافروں اور بے دینوں کا معاشرہ کہتے ہیں اور طنز سے اپنے گندے، پیلے دانت نکال کر یہ داد چاہتے ہیں جیسے انہوں نے اپنے دین کا سر فخر سے بلند کردیا ہو، انسانی حقوق کا وہ احترام ہے جو ہر مہذب معاشرے میں ہونا چاہئیے!ہم اور ہمارے خود ساختہ، ہوس کے پچاری سیاسی اور عسکری گماشتے سینہ پھلا کر یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اور مسلمان معاشرہ ہے۔ لیکن میں بلا خوفِ تردید یہ کہتا ہوں کہ اسلام کی جتنی بے عزتی اور بے توقیری پاکستان میں ہوتی ہے اور ہورہی ہے وہ دنیا میں اور کہیں نہیں ہوتی۔کونسی اسلامی انسانی قدر ہے جس کی پاسداری پاکستان میں ہو رہی ہو؟
اسلام کی اساس انصاف ہے ، مساوات ہے لیکن پاکستان میں ہمارے عسکری طالع آزماؤں نے اقتدار کا وہ نظام رائج کیا ہے جس میں انصاف اور عدل اپنے عدم وجود سے نمایاں ہے۔ اور رہی حقوق انسانی کی بات تو اس کا تو پاکستان میں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایسا طبقاتی معاشرہ ہے جس میں انسانوں کو دولت اور طاقت کی بنیاد پہ تقسیم کیا جاتا ہے اور تقسیم بھی ایسی کہ غریب کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ غریب عوام تو کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت ہیں طاقتور طبقوں اور افراد کی نظر میں !تو جمائمہ نے بڑے افسوس کے ساتھ اپنے اس دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ عمران کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ذاتی دشمنی ہے۔ اور حرفِ آخر کے طور پہ یہ بھی کہا کہ ایک جمہوری معاشرہ میں یہ نہیں ہوتا !جمہوریت ہے ہی کہاں، جمائمہ بی بی۔ پاکستان میں تو مکمل فسطائیت کا دور دورہ ہے۔ عسکری طالع آزما ملک کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے اور ہر بات پہ آمنا و صدقنا کہنے والے وہ سیاسی گماشتے ہیں جن کی حیثیت اٹھائی گیروں کی سی ہے بلکہ انہیں ہمارے ایک دوست نے قصائی کی دکان کے نیچے بیٹھنے والے ان کتوں سے مشابہت دی جو اس وقت تک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں جب تک قصائی بچی ہوئی ہڈیاں ان کے آگے نہیں ڈالتا۔ جیسے ہی ہڈیاں ان کے سامنے ڈالی جاتی ہیں ایک دوسرے پہ جھپٹ پڑتے ہیں اور پھر جو آپس میں ہڈیوں کیلئے پیکار ہوتی ہے وہ سب کو معلوم ہے !تو یہ زرداری، نام کے شریف خاندان کے اٹھائی گیرے جو قصائی جرنیلوں کے سائے میں جمع ہوگئے ہیں تو صرف اسلئے کہ عمران ان کا مشترکہ دشمن ہے۔دشمن یہ سیاسی یتیم اسے یوں سمجھتے ہیں کہ اس کا مشن ان جیسے گندے انڈوں سے پاکستان کی سیاست کو پاک کرنا ہے اور یہی قدرِ ہے جو ان میں اور ان کے آقائے نامدار، عسکری طالع آزماؤں میں مشترک ہے۔ جرنیل بھی بلا کے کرپٹ اور اقتدار کے ساتھ ساتھ پیسے کے بھی اسیر ہیں۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی وہ بات یاد آتی ہے جو سونے کے حروف میں لکھنے والی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جس دن قوم کے سامنے جرنیلوں کی کرپشن آئی تو اس دن سیاستدانوں کی کرپشن بے معنی لگے گی !
کرپٹ انسان ہمیشہ بزدل ہوتا ہے۔ سو پاکستان کے طالع آزما جرنیل بھی اتنے ہی بزدل ہیں جتنے ان کے سیاسی مہرے اور گماشتے !
نہ جمائمہ نے کوئی عندیہ دیا نہ سلیمان اور قاسم کی طرف سے کسی نے یہ کہا کہ وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں یا آرہے ہیں۔لیکن غاصب جرنیل اور ان کے بٹھائے ہوئے سیاسی مہرے اس ڈر سے کانپ رہے ہیں کہ کہیں واقعی عمران کے بیٹے پاکستان آہی نہ جائیں!
ان بزدلوں کو صرف شیر، عمران، سے ہی خوف نہیں ہے بلکہ شیر کے بچوں سے بھی انہیں اتنا ہی ڈر ہے!
ان کے خمیر میں جو غلامی ہے وہ ان بزدلوں کو ڈرا رہی ہے۔ اس خبر سے یہ کائر لرز رہے ہیں کہ ایک تو عمران نے ان کی قید و بند میں رہتے ہوئے وہ عالمی شہرت پالی ہے جس کیلئے یہ ترستے رہتے ہیں۔ عاصم منیر اور اس کے فسطائی ٹولہ کا یہ خیال تھا کہ وہ عمران کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر اسے قصہء پارینہ بنادینگے لیکن ان کے شیطانی منصوبہ کے برعکس ہوا یہ کہ عمران کی قید اس کیلئے ہمہ گیر شہرت کی وجہ بن گئی۔پھر ان بزدلوں کو یہ بھی احساس ہے کہ جمائمہ کے خاندان کو برطانیہ میں وہ حیثیت حاصل ہے جس کا یہ چمار تصور بھی نہیں کرسکتے !
اور ان کی راتوں کی نیندیں حرام کرنے کیلئے تازیانہ یہ خبر بن گئی کہ قاسم اور سلیمان امریکہ جا رہے ہیں تاکہ وہاں کے مقتدر سیاسی اور سماجی حلقوں کو پاکستان میں فسطائیت کے راج کا احوال بتائیں اور اپنے باپ کی رہائی کیلئے میدان ہموار کریں !
اب یہ ہوس گزیدہ جرنیلی ٹولہ اور اس کے چھٹ بھیئے سیاسی گماشتے ٹھہرے غلاموں کے غلام تو انہیں فکر یہ ہے کہ کہیں عمران کے بیٹے امریکہ میں سیاسی حلقوں کو عمران کے حق میں نہ ہموار کرلیں۔ عاصم منیر ٹرمپ کے ساتھ جو لنچ کھاکے آیا ہے ٹرمپ جیسا بنیہ اس کے عوض پاکستان سے پائی پائی وصول کرلے گا اور وصولی نقد نہیں بلکہ جنس کی صورت میں ہوگی۔سو یہ جو نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ عمران خان کے دورِ اقتدار میں جو قبائلی علاقہ کو صوبہ خیبر پختون خواہ میں ضم کیا گیا تھا اسے ختم کیا جارہا ہے اور ختم یوں کیا جارہا ہے کہ ایک بار جب وہاں قبائلی ملک واپس مالک و مختار ہوجائیں تو ان کی کلائی مڑوڑ کے، یا ان کے منہ بھر کے، اس قیمتی معدنیات سے لبریز زمین کی نایاب معدنیات ٹرمپ کے حوالے کردی جائیں جس کا وعدہ یزید عاصم منیر ایک لنچ کے عوض کر آیا ہے !
تو عمران کے بیٹوں کی پاکستان آمد کے خلاف گماشتے اور مہرے حرکت میں آگئے ہیں۔وہ بدبودار رانا ثناء جس کا منہ جب کھلتا ہے تو غلاظتوں کے بھبھکے ہی نکلتے ہیں اس نے دھمکیاں دینی شروع کردی ہیں کہ عمران کے بیٹوں کو پاکستان میں گرفتار کرکے انہیں بھی باپ کی طرح سلاخوں کے پیچھے بند کردیا جائے گا !اس کے ساتھ ساتھ نام کے شریف اور ان کے کرائے کے گماشتے طعنے دے رہے ہیں کہ عمران تو موروثی سیاست کے خلاف تھا اب کیوں اس کی پارٹی بھی موروثی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے !عمران نے سچ ہی کہا تھا کہ ایک تو یہ کم پڑھے لکھے ہیں۔ دوسرے یہ سیکھنے یا پڑھ لکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے!کوشش کیسے کریں، برادر عمران۔ دیکھو میاں، پڑھنے لکھنے کی توفیق بھی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ بدبخت اس سعادت سے محروم ہیں!
اللہ اگر توفیق نہ دے
انسان کے بس کی بات نہیں!
تو یہ بساطِ سیاست کے مہرے، یہ کم ظرف چھٹ بھیئےصرف اس کے مستحق ہیں کہ جو ان کے آگے ہڈی ڈال دے یہ اسی کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ بصیرت کا تو ان میں نام و نشان بھی نہیں ہے اور علم کی جو کمی ہے وہ تو منہ سے بولتی ہے۔یہ موروثی سیاست کو بھی اپنی جاگیر یوں سمجھتے ہیں کہ موروثیت ان کی ناقص عقل میں صرف اور صرف آپس میں بانٹ کے کھانے کا نام ہے۔ اس کے آگے ان کی کج فہمی انہیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ موروثی سیاست کوئی گالی نہیں ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے اگر ایک لیڈر یا قائد کے رشتے دار قابل ہوں، پڑھے لکھے ہوں، بصیرت رکھتے ہوں تو ایک قائد کا ورثہ اس کے خون کے رشتوں سے بہتر اور کسے منتقل ہوسکتا ہے ؟ہماری اپنی قومی تاریخ میں قائدِ اعظم کے بعد ان کی لائق ہمشیرہ نے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا پرچم اٹھا یا تھا لیکن ان کے خلاف دھاندلی کرکے انہیں بیدخل کرنے والا اور ملک کو ، قائد کے پاکستان کو دولخت کرنے کی راہ ہموار کرنے والا وہ عسکری طالع آزما، ایوب تھا، جس نے پاکستان میں جمہوریت کی بیخ کنی کا آغاز کیا اور آج اسی کی روایت پر چلنے والا عسکری اٹھائی گیرہ، عاصم منیر، بھی ملک میں فسطائیت کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے !
پاکستانی قوم کی یہ بد نصیبی اس وقت تک رہے گی جب تک عوام کا یہ شعور بیدار نہیں ہوجاتا کہ ان کی تقدیر بدلنے اور انہیں فسطائی ٹولہ کے جبر و استبداد سے نجات دلوانے کیلئے آسمان سے فرشتے نہیں آئینگے!ان کی نجات ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ان کی نجات ان کے جاگنے سے منسوب ہے اور انہیں یہ شعور بھی ہونا چاہئے کہ ان کی قیادت کیلئے قدرت نے جو رہنما انہیں بخشا ہے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس گھڑی کا منتظر ہے جب اس کی سوئی ہوئی قوم اپنے خواب غفلت سے جاگ اٹھے گی اور ان غاصبوں کے چنگل سے خود کو اور اپنے رہنما کو آزاد کروانے کیلئے سر سے کفن باندھ کے میدان میں نکل آئے گی !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button