ہفتہ وار کالمز

ظہران ممدانی اور اسلامو فوبیا!

سوا آٹھ ملین لوگوں کے شہر نیویارک کی اکثریت نے اگر ایک نوجوان مسلمان کو فراخدلی سے ووٹ دیئے ہیں تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ اس شہر میں غیر متعصب اور کشادہ دل لوگوں کی کمی نہیںہے۔ چوبیس جون کو ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت نے کئی نامی گرامی امیدواروں کو نظر انداز کر کے ظہران ممدانی کو نومبر میں ہونیوالے الیکشن کے لیے اپنی پارٹی کا امیدوار منتخب کیا۔ تینتیس سالہ ظہران ممدانی کی اس غیر متوقع کامیابی نے امریکی سیاست میں اتنی ہلچل مچائی ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کے کئی لیڈروں کے علاوہ صدر ٹرمپ بھی تلوار سونت کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ صدر امریکہ پرانے نیو یارکر ہونے کے باوجود اپنے آبائی شہر کی سیاست میں مداخلت نہیں کرتے مگر امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں ایک مسلمان کی اتنی بڑی انتخابی کامیابی انکے لیے ناقابل برداشت تھی۔ صدر ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ اگر یہ درست ہے کہ ظہران ممدانی غیر قانونی طریقے سے امریکہ آیا ہے تو وہ انہیں گرفتار کر کے ڈیپورٹ کر دیں گے۔ اپنی خوش خلقی اور انسان دوستی کی وجہ سے پہچانے جانے والے ظہران ممدانی نے چیں بہ جبیں ہوے بغیر کہا کہ وہ نیویارک کو واشنگٹن کے مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف ایک مضبوط قلعہ بنائیں گے۔ صدر ٹرمپ نیو یارک سے لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن کو ڈیپورٹ کرنا چاہتے ہیں اور اس مہم جوئی کے لیے انہیں اس شہر کے مئیر کی حمایت درکار ہے۔ ممدانی اپنی انتخابی مہم میں کہہ چکے ہیں کہ وہ پولیس کو تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
صدر ٹرمپ کے سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلیمان سے قریبی روابط ہیں ۔ چند ماہ پہلے جب وہ ریاض گئے تو شہزادہ سلیمان نے دفاعی ساز و سامان اور جدید ٹیکنالوجی خریدنے کے لیے 600 بلین ڈالرز کے معاہدوں پر دستخط کئے۔ گذشتہ ماہ پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ امریکی صدر نے وائٹ ہائوس میں ایک طویل ملاقات کی۔ان صدارتی ذمہ داریوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صدر ٹرمپ مسلمانوں کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔اپنی پہلی مدت صدارت میں انہوں نے بہ یک جنبش قلم یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ بنادیا تھا۔ اسکے فو راً بعد انہوں نے شام کی سرحد پر واقع گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کر لیا تھا۔ چند ماہ پہلے وہ غزہ سے فلسطینیوں کو بیدخل کرکے اسے ایک سیاحتی مقام بنانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ گذشتہ ماہ انہوں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر بنکر بسٹر بم گرا کر پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ مسلمانوں سے انکی عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ براک اوباما کے بارے میں وہ کئی برسوں تک یہ کہتے رہے کہ وہ کینیا کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور امریکی ریاست ہوائی سے جعلی پاسپورٹ بنا کر انہوں نے امریکی شہریت حا صل کی ہے۔
ظہران ممدانی 1992میں یوگنڈا میں پیدا ہوئے تھے اور وہ سات سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ نیویارک آئے تھے۔ انکے والد محمود ممدانی کافی عرصہ پہلے بھارت سے نقل مکانی کر کے یوگنڈا گئے تھے۔ وہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے جہدو جہد کرتے رہے ہیں۔ انکی والدہ میرا نائر ایک مشہور فلمساز ہیں۔ ظہران ممدانی اگر نیویارک کے مئیر منتخب ہو جاتے ہیں تو صدر ٹرمپ ان کے لیے مسائل پیدا کرتے رہیں گے۔ صدر امریکہ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا ہے کہ وہ ظہران ممدانی کی کامیابی کی صورت میں نیو یارک کے فیڈرل فنڈزفریز کر دیں گے۔ یہ حیرانی کی بات اس لیے نہیں کہ امریکہ میں اسلامو فوبیا کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ یہ اسلام دشمنی ستمبر 2001 میں نیویارک کے Twin Towersپر حملوں کے بعد کئی برسوں تک عروج پر رہی تھی ۔ پھر رفتہ رفتہ اسمیں کمی آتی رہی۔ اب ڈیمو کریٹک پارٹی کے پرائمری انتخابات میں ظہران ممدانی کی کامیابی کے بعد اس نفرت میں پھر اُبال آ گیا ہے۔ اسے باسی کڑی اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ امریکی سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ صدر ٹرمپ کی ایک قریبی دوست Laura Loomer جن کے بارے میں مشہور میڈیا شخصیت Bill Maher نے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی گرل فرینڈ ہیں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ظہران ممدانی مئیر منتخب ہونے کے بعد نیو یارک میں شرعی قوانین نافذ کریں گے۔ ان سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوے نیو یارک میں ظہران ممدانی کے مخالفین نے الیکشن سے پہلے انکی ایسی تصاویر تقسیم کی تھیں جن میں انکی داڑھی کو گھنا اور طویل بنا کر دکھایا گیا تھا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ آئے روز اسرائیل غزہ میں سکول اور اسپتال تباہ کرتا رہتا ہے۔ اسے پوچھنے والا کوئی بھی نہیں مگر نیویارک کے صحافی ظہران ممدانی سے ہر روز پوچھتے ہیں کہ وہ مئیر بننے کے بعد یہودیوں کی حفاظت کے لیے کیاکریں گے۔ ان صحافیوں نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کیا کریں گے۔ اسلامو فوبیا امریکی سیاست کی ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا بر سر عام اظہار ایک نارمل رویہ ہے۔ صدر ٹرمپ کے چیف آف سٹاف Stephen Millerبہ ببانگ دہل کہہ چکے ہیں کہ The only good Muslim is a dead Muslim. اسلامو فوبیا کی اس زہریلی فضا کے باوجود اگر ظہران ممدانی نیویارک کے مئیر منتخب ہو جاتے ہیں تو اسکی وجہ وہ نوجوان ووٹرز ہوں گے جنہوں نے فرسودہ خیالات اور مذہبی وابستگیوں سے بلند ہو کر ظہران ممدانی کی انسان دوستی اور اعلیٰ انسانی صفات پر صدق دل سے یقین کیا ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button