آئیے، جنگ، جنگ کھیلیں؟

آیئے، جنگ جنگ کھیلیں۔ پاکستانیوں سے زیادہ جنگ کو کون جانتا ہو گا؟ لیکن پاکستان پر زیادہ تر جنگ مسلط کی گئی، انہوں نے بلا وجہ کسی سے جنگ نہیں چھیڑی۔ایک آدھ استشنا تو ہو سکتا ہے۔آج کل کچھ تجزیہ کار، جنہیں کوئی تازہ حیران کرنے والا ٹاپک نہیں مل رہا، اسرائیل، بھارت کی پاکستان پر جنگ کی کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔ کہ ایران کے بعد اب پاکستان کی باری ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اسرائیل ، ایران سے زیادہ پاکستان سے خوف زدہ ہے کیونکہ پاکستان کے پاس نہ صرف ایٹم بم ہیں بلکہ ان کو ارسال کرنیکے وسائل بھی ہیں۔ اسی لیے اسرئیل ، جس کا ایمان ہے کہ ہمارے دشمن کا دشمن ہمارا دوست ہے، بھارت کے ساتھ ایک عرصہ سے در پردہ تعلقات بنا رہا ہے۔مقصد یہی ہے کہ ایک دن وہ بھارت کو پاکستان سے لڑوا کر پاکستان کے ایٹمی ذخیروں کو تباہ و برباد کر دے گا، اور اس کو اور بھارت دونوں کو اس خطرے سے نجات مل جائے گی لیکن یہ اتنا آ سان کام نہیںکیونکہ اگر پاکستان کو پتہ چل گیا کہ اس کے ایٹمی اثاثوں پرحملے ہونے والے ہیں تو وہ کسی چیز کا خیال کیے بغیر ان کو بھارت پر تو داغ ہی دے گا۔حقیقت میں ایسا کرے گا یا نہیں، اس بات کا امکان ہی ان دو نوں کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنےسے روکے گا۔زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ بھارت اس قسم کا حملہ نہیں کرے گا جس کے جواب میں اس پر ایٹمی حملہ ہونے کا شائبہ بھی ہو۔
لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ ایسا ہونے جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیوں اپنے آپ کو تسلیم کروانے پر تلا ہے؟ اس کی کونسی تجارت پاکستان کے ساتھ رکی ہوئی ہے؟ یا اس کے باشندے پاکستان آنے کے لیے تڑپ رہے ہیں؟کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر پاکستان میں ان کا سفارت خانہ کھل گیا تو انہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثے ڈھونڈنے میں ٰ آسانی ہو جائے گی، اس لیے نہیں کہ وہ اپنے جاسوس استعمال کریں گے، اگرچہ وہ تو ہو گا ہی۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اپنے بندے کچھ رقم کی خاطر انہیں سب کچھ بتائیں گے؟
جنگ کے اصل شوقین تو امریکن ہیں ۔ پچھلے دو سو سال میں شاید ہی کوئی لمبا وقفہ گذرا ہو جب امریکن کسی نہ کسی جنگ میں نہ الجھے ہوئے ہوں۔ یہ ایک قدرتی فعل ہے۔ جب آپ ایک عظیم الشان جنگی سامان بنانے والی صنعت کو پروان چڑھائیں گے تو جنگ کاماحول تو بن ہی جائے گا۔ وہ ایسے کہ جنگی سامان بیچنے والی کمپنیوں کو اپنے حصہ داران کو منافع دکھانا ہوتا ہے، ورنہ کوئی ان کے حصص خریدے گا ہی نہیں۔ اور اگر جنگ نہیں ہو گی تو کمپنی منافع کیسے کمائے گی؟ یہ کمپنیاں کوئی چھوٹی موٹی کمپنیاں نہیں۔ چلیے ایک کمپنی کی مثال لے لیں۔ جیسے لاک ہییڈمارٹن کارپوریشن ۔ اس کمپنی کے 1990 میںانکے حصص کی قیمت دس ڈالر سے ذرا زیادہ تھی۔ بیس سال سے کم عرصہ میں اس کے حصص کی قیمت دس گنا ہو گئی۔ اور آئیندہ 25 سالوں میں، اس کے حصص کی قیمت چھ سو ڈالر کے لگ بھگ پہنچ گئی۔ اس وقت ایک حصہ کی قیمت چار سو چونسٹھ ڈالر ہے ۔ لاک ہییڈ مارٹن، کا کاروبار ساری دنیا میں ہے۔ یہ فضائی آلات،ٹیکنالوجی سسٹم، بناتی ہے۔ ان میں میزلز، ، جنگی جہاز، اسلحہ بارود، اور ڈرون سب شامل ہیں۔ اس کمپنی کی کل مالیت 108 بلین ڈالر بتائی گئی ہے۔اس کمپنی کی داغ بیل 1910 میں رکھی گئی ۔ ایسی کئی کمپنیاں ہیں جو محض جنگی سامان بناتی ہیں یا شہری اور فوجی دونوں قسم کا۔ جیسے بوئنگ ۔
امریکن کمپنیاں، باقی کمپنیوں کی طرح، اگر بہت بڑے حجم کی ہوں، تو ان کا محور سیاستدان ہوتے ہیں، جو بجٹ بناتے ہیں۔ اس لیے وہ کمپنیاں سیاستدانوں کو حسب ضرورت نوازتی رہتی ہیں تا کہ بوقت ضروت کام آویں۔ دوسری طرف ان کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں ان خطوں پر نظر رکھیں جہاں اگر جنگ ہو تو ان کا مال فروخت ہو۔ اگر تو امریکہ کے مفادات بھی ان میں شامل ہوں تو پوں بارہ۔ اب حال ہی کی مثال دیکھ لیں کہ اسرائیل نے اپنی فضائی برتری سے ایران کو کافی نقصان پہنچایا، ایران کے پاس فضائی مزاحمت کے لیے تقریباً کچھ بھی نہیں تھا۔ ایران پر بہت دیر سے امریکہ نے پابندیاں لگا رکھی تھیں، جن کی وجہ سے وہ امریکہ سے راکٹ، جنگی جہاز اور اس قسم کا سامان نہیں خرید سکا تھا، حالانکہ ایران کے پاس پیسے تھے۔ لیکن امریکہ کی مجبوری تھی کہ ایران کو غیر محفوظ ہی رکھتا۔ ورنہ ان کمپنیوں کی کوشش تو ہوتی ہے کہ اپنا سامان بیچیں، لینے والا کوئی بھی ہو۔ادھر اسرائیل کو امریکہ بلینز ڈ الر کی امداد دیتا ہے جس سے وہ امریکی کمپنیوں سیگولہ بارود خرید کر غزہ کے فلسطینیوں پر مارتے ہیں۔ تو امریکہ کا پیسہ امریکہ میں رہتا ہے اور اسرئیل کا کوئی خرچ ہی نہیں ہوتا۔ البتہ فلسطینی ، خصوصاًبچے اور عورتیں بس کیڑے مکوڑوں کی طرح لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔
امریکی سیاستدانوں کو خوش کرنے میں کئی فائدے ہیں۔ بجٹ کے وقت وہ فوجی اخراجات پر زیادہ بحث نہیں کرتے۔ یہ کمپنیاں اس لیے فوجی کمانڈرز کو بھی خوش رکھتی ہیں، کیونکہ وہ اکیلی ہی نہیں اس کاروبار میں۔ اور بھی کئی کھلاڑی ہیں۔ امریکہ میں24 کمپنیاں تو اسلحہ سازی کا کام کرتی ہیں ۔ اور بہت سی ایسی ہیں جن کا بڑا حصہ تو شہریوں کی ضروریات پر کام کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ دفاعی ضروریات بھی پوری کرتی ہیں، جیسے کمپیوٹر سے متعلق سازو سامان اور خدمات۔ جب جنگ ہو تو حکومت کس بھی کمپنی کو دفاعی ضرورت میں حصہ لینے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اگر دفاع کا شعبہ ان کے لیے بہت منافع بخش ہو تو وہ خوشی خوشی اس میں شامل ہو جاتی ہیں۔
امریکی کمپنیوں کو عالمی سطح پر مقابلہ بھی در پیش ہے۔ خاص طور پر یورپ کے ممالک جیسے فرانس، جرمنی، انگلینڈ، اٹلی وغیرہ۔ اب تو ان میں مشرقی یورپ کی سابقہ سویت یونین کی ریاستیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو ان کمپنیوں کے نمائندے آپ کے ارد گرد گھومتے پھریں گے۔ان کی پہلی کوشش تو ہو گی کے آپ کی کسی نہ کسی کے ساتھ جنگ ٹھہر جائے۔اگر بھارت اور پاکستان کی ٹھنی رہتی ہے تو اس کی پشت میں بھی ان کمپنیوں کا اثر و رسوخ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھارت کو دیکھیں کہ اس نے فرانس سے اس کے سب سے خطرناک اور مہنگے جنگی طیارے رافیل خریدے کہ اس کو پاکستان کے مقابلے میں برتری ہو۔ لیکن اللہ کا کرنا کیا ہوا، کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستانی ہوا بازوں نے، چین کی مہیا کردہ میزائلوں سے دو رافیل مار گرائے، جو کہ ایک انہونی بات سمجھی جاتی تھی۔اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہتھیار ہونا ایک بات ہے اس کا بر وقت اور صحیح استعمال اور بات۔ اس مختصر سی نمائشی جنگ میں بھارت اور پاکستان نے اپنے خطرناک ہتھیار استعمال کر لیے۔ اور یوں سمجھئے کہ ہتھیاروں کی نمائش کا ایک حقیقی مقابلہ کر ڈالا۔اس میں پاکستانی ہوا باز جیت گئے۔
یہ ا سلحہ ساز کمپنیاں ، جنہیں باخبر لوگ موت کے سوداگر بھی کہتے ہیں، ان کی گاہک حکومتیں ہوتی ہیں۔ ایک طرف حکومت ان سے اسلحہ خریدتی ہے اور دوسری طرف اس سے جو وہ منافع کماتی ہیں، اس پر ٹیکس لگا کر کچھ رقم واپس لے لیتی ہیں۔ اور حکومت نے اپنے لیے اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ وہ ایسے کہ یہ کمپنیاں جب سیاستدانوں کو چندہ دیتی ہیں تو اس سے ان کا ٹیکس کا بوجھ کم ہو جاتا ہے،اور پھر لینے والا اور دینے والا دونوں ہی فائدے میں رہتے ہیں۔اور موت کا کاروبار رواں دواں رہتا ہے۔ عموماً مرنے والے غریب غربا ہوتے ہیں اور زیادہ تر مسلمان۔ یہ سارے ہتھیار مسلمانوں کی تقدیر میں لکھے ہیں۔ کیا کریں۔ مسلمانوں کو جتنا ان کے اپنوں نے مارا ہے غیروں نے نہیں۔ ان کے رہبر ہی راہزن ہوتے ہیں، کسی کو کیا کہیے۔
پہلے جو ہتھیار ہوتے تھے انہیںفوجی چلاتے تھے اور ان میں سے کچھ مارے بھی جاتے تھے۔ اسی لیے اس کا علاج ڈھونڈا گیا جو مل گیا۔ اسے ڈرون کہتے ہیں۔ یہ فضائیہ ہتھیار ہیں جنہیں دور سے بیٹھ کر اڑایا جاتا ہے اور وہ جہاں انہیں بھیجا جائے، جا کر بمباری کر دیتے ہیں۔ اڑانے والا کہیں دور،آرام دہ کمرے میں بیٹھا کافی اور سگریٹ سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ بٹن دباتا ہے اور درجنوں لوگ خاکستر ہو جاتے ہیں۔یہ ہے جدید جنگی ماحول۔
جنگ کا فائدہ اگر اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہوتا ہے تو اس کا نقصان ان ملکوں کے عوام کو ہوتا ہے جو جنگ میں شامل ہوں۔ اگر اسلحہ ساز کمپنیاں دور کے ملکوں میں ہوں تو جنگ ان کو بہت موافق رہتی ہے۔جیسے آج کل یوکرائن اور روس کی جنگ جن میں اسلحہ، گولہ ، بارود امریکہ اور یوروپ کے ملکوں سے بھیجا جاتا ہے۔یہ جنگ سالوں سے چل رہی ہے، اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس لیے کہ امریکہ اور یورپ اس جنگ سے روس کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، اس پرنئے نئے ہتھیاروں کے تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ مرتے کون ہیں؟ کچھ روسی اور زیادہ یوکرائینین۔ وہ تو ایسے ہیں جیسے کیڑے مکوڑے، جیسے فلسطینی۔اس جنگ پر جو خرچ آتا ہے وہ بھی زیادہ تر اسلحہ ساز کمپنیاں لے جاتی ہیں ۔ادھر روسی عوام مرتے ہیں جنکی موت کو شہادت کا نام دیکر شاندار بنا دیا جاتا ہے۔کہ انہوں نے وطن کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔فٹے منہ تہاڈا۔
پاکستان کیوں بھارت سے ٹکراتا رہتا ہے؟ 1971 کی جنگ تو امریکہ نے کروائی اور اس کے لیے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور فوج کو استعمال کیا۔ یہ کہانی لمبی ہے، اس کو ہم کافی دن پہلے دہرا چکے ہیں۔ فوج در اصل ایک سفید ہاتھی ہے، جسے فوج کے بڑے بڑے پیار سے پالتے ہیں۔ ہر سال اس کا بجٹ بڑھایا جاتا ہے ۔ اگر یہ خوف ہو کہ قومی اسمبلی اس دفعہ زیادہ بجٹ نہیں دے گی، تو اس کے لیے بجٹ سے کچھ دیر پہلے بھارت سے جنگ چھیڑی جاتی ہے۔ اگر بھارت سے جنگ چھیڑنے کا موقع نہ بنے تو کوئی بڑا دہشت گردی کا حملہ بھی وہی کام کرتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی کوئی پیش رفت امن کی طرف ہوتی ہے ، تو کوئی نہ کوئی واقع ہو جاتا ہے۔اب تو بھارت بھی تنگ آگیا ہے اور امن کی آشا کا سوچنا بھی نہیں چاہتا۔
خیر پاکستان میں عملی مارشل لاء کا نفاذ ہو چکا ہے جو شریف فیملی اور زرداری فیملی کی مہربانی سے ہو رہا ہے۔ ان بیوقوفوں کو معلوم ہے کہ ان کی حکومتیں گرا دی جائیں گی لیکن اپنے کیئے کاکیا علاج۔ جھوٹ اور فراڈ کی حکومت کب تک چل سکتی تھی؟ان خاندانوں نے ملک میں کرپشن کو پروان چڑھایا تا کہ نوکر شاہی ان کا ساتھ دے۔ فوج کو خوش رکھا اور ان کی ہر بات مانی تو، یہ تو ہونا ہی تھا۔ ویسے بھی بقول شخصے فوج جو بھی کرتی ہے ملک کے مفاد میں کرتی ہے۔ ہم یہی کہیں گے۔
پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ!