ہفتہ وار کالمز

ABRAHAM ACCORD

یہ سر زمین جسے ہم فلسطین کہتے ہیں اس پر کبھی یہودی قابض تھے مگر اس سرزمین پر مختلف اوقات میں یہودیوں عیسائی اور مسلمانوں کا قبضہ بھی رہا ہے، تینوں مذاہب کی اس سر زمین سے گہری مذہبی وابستگی ہے پہلے یہ علاقہ یہودیوں کے پاس تھا ابراہیم ، داؤد اور سلیمان کے حوالے ہیں یہودیوں کے پاس عیسیٰ بھی یہودی تھے مریم بھی مگر ایک نئے مذہب کا آغاز ہوا، جو عیسائیت کہلایا اسی جرم کی پاداش میں عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا، عیسیٰ کو مصلوب کرنے کے بعد بھی اس علاقے پر یہودیوں کا ہی سکہ چلتا تھا، جب رسول نے مدینے میں قیام کیا تو اسلامی تواریخ کے مطابق خیبر کے یہودیوں نے شرارتیں شروع کر دیں اور غزوہ خیبر کے بعد یہ علاقہ مسلمانوں نے فتح کر لیا، اور یہودیوں کو اس علاقے سے نکال دیا گیا، تاریخ طویل ہے یروشلم پر قبضے کے لئے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان طویل صلیبی جنگیں ہوئیں جنگیں دو سو سال تک لڑی گئیں، صلاح الدین ایوبی نے سولہ صلیبی جنگیں لڑیں اور بلا آخر 1187میں یروشلم پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، یہ قبضہ تقریباً سو سال کے بعد ہوا، ان دو سو سالہ جنگوں میں بے تحاشا خون بہایا گیا، صلاح الدین ایوبی کے بعد اس سرزمین پر 760 سال مسلمانوں کا قبضہ رہا جب سلطنت عثمانیہ صرف ساٹھ سال کے عرصے میں اپنی تین براعظموں پر حکومت کھو بیٹھی تو برطانیہ اور امریکہ نے مل کر جدید اسرائیل کی ریاست بنائی، 1948 میں بھی خون خرابہ ہوا تب سے اسرائیل دنیا کے نقشے پر موجود ہے، علاقہ رقبے کے لحاظ سے قلیل سہی مگر اسرائیل کو امریکہ اور مغرب کی غیر متزلزل حمائیت حاصل ہے، 1967 میں اسی اسرائیل نے عرب ریاستوں کو لوہے کے چنے چبوا دئے تھے اسرائیل نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا اس علاقے میں اسرائیل نے آباد کاری بھی کی، 1976 کے بعد سے اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تناؤ رہا، مگر اس کے باوجود یاسر عرفات سے ایک ڈیل کے نتیجے میں مغربی کنارے پر فلسطین کی ریاست قائم ہو گئی غزہ پر الفتح کے بعد حماس کو کنٹرول حاصل ہوا، اسی دوران ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں ہی ABRAHAM ACCORD کی بات چلی اور اس کے نتیجے میں امارات، بحرین، مراکش نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر لئے، سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے ہی والا تھا کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کر دیا اور سو سے زیادہ یہودی شہری اغوا کر لئے، اسرائیل نے اس حملے کو بہت سنجیدگی سے لیا اور اس نے غزہ کی پٹی سے تمام فلسطینیوں کو نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا، اور تقریباً دو سال کی جنگ کے دوران اسرائیل نے پورے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، کوئی INDEPENDENT MEDIA تو ہے نہیں مغربی میڈیا ہی دنیا کو بتا رہا ہے کہ غزہ کا ملبہ اٹھانے کے لئے بیس سال کا عرصہ درکار ہوگا، ہمارا خیال ہے کہ غزہ کو برباد کر دیا گیا ہے اب بڑے عرصے تک شائد یہ پٹی رہنے کے قابل نہ رہے، جب یہ پٹی رہنے کے قابل ہی نہیں رہے گی تو دو ریاستی حل بھی سرد خانے میں چلا جائیگا کل ٹرمپ اور نیتین یا ہو کی ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا ہے اب سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد مشرق وسطی کی شکل کیا ہو گی ، ABRAHAM ACCORD صدر ٹرمپ کے دماغ کی ہی اختراع تھی جس کو بائیڈن نے بھی اپنا لیا تھا اور شائد ٹرمپ کو دوسری ٹرم کے لئے اسی لئے لایا گیا کہ اس منصوبے پر تیزی سے کام شروع ہو ، پہلا مرحلہ تو اسرائیل اور امریکہ نے کامیابی سے ا سے مکمل کر لیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں لبنان، اردن، مصر میں فلسطینیوں کی آبادکاری ہو جائیگی گو کہ یہ مرحلہ آسان نہ ہوگا، غزہ کی تعمیر نو کے لئے قطر، مصر اور امارات کا نام لیا جا رہا ہے مگر ہنوز دلی دور است اس سے پہلے ABRAHAM ACCORD پر کام شروع ہوگا تقریباً تمام ہی عرب ریاستیں اسرائیل کو تسلیم کر لیں گی یہ عرب ریاستیں غزہ کا حال دیکھ چکی ہیں ان عرب ریاستوں کو اس بات سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کی حکومت نہ گرا دی جائے ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ جمہوریت کے نام پر ان کی ریاستوں میں افرا تفری پیدا کی جا سکتی ہے لہٰذا ان عرب ریاستوں کا ABRAHAM ACCORD میں آنا مشکل نہیں ہوگا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے جا ہی رہا تھا کہ سات اکتوبر ہو گیا اگر سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور سفارتی تعلقات استوار کر لئے تو پاکستان کو بھی سعودی عرب کی تقلید کرنی ہوگی اگر کچھ تامل ہوا تو پاکستان کو دو چار ارب دے کر منایا جا سکتا ہے اور ہمارے خیال میں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے سفارتی تعلقات بھی ہونے چاہیے ترکیہ کے بھی اسرائیل سے تجارتی، سیاسی، معاشی اور فوجی تعلقات ہیں ان میں ثقافتی تعلقات بھی شامل ہیں اگر مشرق وسطی میں واقعی امن کی خواہش ہے اور اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم ترک کرنے پر تیار ہے تو ABRAHAM ACCORD ایک اچھا خیال ہو سکتا ہے مگر خطہ کی صورت حال بہر حال مخدوش ہے اسرائیل عرب جنگ ہو چکی ہے، اسرائیل نے بلا اشتعال شام کی فوجی طاقت کو زمیں بوس کر دیا ہے، لبنان سے بھی کشیدگی موجود ہے، ایسی حالت میں یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ مشرق وسطی میں دیر پا امن قائم ہو سکتا ہے، اسرائیل کے ساتھ امریکہ کھڑا ہے ہم نے دیکھا کہ جب ایران نے اسرائیل کا جم کر مقابلہ کیا تو امریکہ اس کی مدد کو آیا اور اس نے ایران پر ٹام ہاک میزائیل اور B 52 BOMBER سے تین ہزار من وزنی بم بھی برسائے اور اب بھی جب کہ ٹرمپ اور نیتین یاہو کی ملاقات ہوئی ہے اس میں بھی ٹرمپ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کو ایران پر دوبارہ بمباری نہیں کرنا پڑے گی، گویا یہ میسج دیا جا رہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے لئے کچھ بھی کر گزرے گا، اور ظاہر ہے کہ دنیا میں کوئی طاقت امریکہ کی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس لئے سب ممالک طوعاً و کرہا امریکہ کی بات مان جائیں گے مگر یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل نے جب بلا اشتعال ایران پر حملہ ہوا اور بات بہت نازک ہو گئی تو روس کے ایک اہل کار نے یہ کہہ دیا تھا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار دئے جا سکتے ہیں اور شمالی کوریا میں بھی بے چینی بڑھ گئی تو ٹرمپ کو فوراً جنگ روکنی پڑی، چین بھی سخت الفاظ میں اسرائیلی حملے کی مذمت کرتا رہا اس کا مطلب یہ ہے کہ صورت حال بہت پیچیدہ ہے اور اس کو ایک رخ سے نہیں دیکھا جا سکتا ٹرمپ نے ایک بار پھر یوکرین کو ہتھیار دینے کا عندیہ دے دیا ہے اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو ABRAHAM ACCORD میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں، پاکستانی الیکٹرانک میڈیا پر اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے حامد میر کے پروگرام میں ڈاکٹر طارق فضل چودھری کہہ رہے تھے کہ دیگر ممالک اگر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر بھی لیں تب بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، سماء ٹی وی پر LIVE WITH NADEEM MALIK میں گفتگو کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ دو ریاستی حل کے بغیر پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اس کے ساتھ انہوں نے کشمیر کی آزادی کو بھی اس قضیے میں شامل کر لیا طارق فضل چودھری کی بات سے ہم یہ سمجھے کہ پاکستان میں تمام دینی جماعتیں بے لگام ہیں BLASPHEMY GANGS دندناتے پھر رہے ہیں لبیک بے مہار وحشی کی طرح لوگوں کی گردنیں اتارنے پر تیار ہے اور حکومت خاموش، وجہ یہ ہے کہ حکومت نے ان مولویوں سے ووٹ لئے ہیں اس لئے حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ابوبکر معاویہ ایک بچے کا ریپ کر کے گرفتار ہوتا ہے اور ابتسام الہی ظہیر طاقت کے بل پر اس کو چھڑا کر لے جاتا ہے سو ملک میں کچھ بھی ہوتا رہے مولوی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سزا دی جائے گی لہٰذا حکومت مولویوں کو ناراض کرکے حکومت گرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تمام دینی جماعتیں فوج کے اثاثے ہیں فوج کا ایک اشارہ ان کو ڈھیر کر سکتا ہے جہاں تک خرم دستگیر کی بات کا تعلق ہے وہ دو ریاستی حل کی شرط لگا رہے ہیں جو ان حالات میں پوری ہوتی نظر نہیں آتی اور نہ ہی کشمیر کی آزادی کو اس سے نتھی کیا جا سکتا ہے، ہمارا خیال ہے کہ سعودی عرب اگر اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر لیتا ہے تو جلد یا بدیر پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button