ہفتہ وار کالمز

پاکستان دشمن، بھارت نواز ملت فروش !

یہ سطور ایسے وقت لکھی جارہی ہیں جب ملت اسلامیہ یومِ عاشور پہ سید الشہداء، شہیدِ کربلا اور محسنِ اسلام سیدنا حسین اور ان کے عظیم المرتبت اہلِ بیتِ رسول کی بے مثال قربانی پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کرچکی ہے اور شامِ غریباں پر رات کا اندھیرا غالب آچکا ہے !
سید الشہداء اپنے سر کی قربانی دیکر اپنے نانا کے دین پر سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ ان کے سرِ مبارک کے نیزے پر آنے کے بعد کسی یزید کو یہ جراءت نہیں ہوئی کہ وہ دینِ اسلام کو اپنی یزیدیت کے تابع کرسکے!
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو مملکت اسلام کے نام پر قائم ہوئی تھی اور جس کا بنانے والا حسینی حریت کے جذبہ سے سرشار تھا اس پر پچھلے تین برس سے ایک یزیدی ٹولہ کا قبضہ ہے اور تسلط اتنا ہمہ گیر ہے کہ اس کی فسطائیت نے ملک اور قوم کے جذبہء آزادی کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ قوم کا محبوب لیڈر،وہ رہنما جسے قوم کی غالب اکثریت کی تائید و حمایت حاصل ہے، یزیدیوں کی قید میں ہے اور قید بھی ایسی کہ جس میں انسانیت اور انسانی حقوق کی بنیادی اقدار بھی بد مست یزیدی جرنیلوں کے بوٹوں تلے بے رحمی سے پامال کی جارہی ہیں!
ویسے تو پاکستان کی بدنصیب تاریخ پر طاغوت کے نقیب جرنیلوں کی نحوست کا سایہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اس نحوست کی عمر سات دہائیوں پر محیط ہے اور ایک صفت جو عسکری طالع آزماؤں میں قدرِ مشترک ہے وہ سامراج کی غلامی ہے!
لیکن آج کے فسطائی عسکری اور طاغوتی ٹولہ، جس کی سربراہی وقت کے یزید، خود ساختہ "فیلڈ مارشل” عاصم منیرکو حاصل ہے وہ نہ صرف یزیدی شعار میں اپنے پیشروؤں کو میلوں پیچھے چھوڑ گیا ہے بلکہ سامراج کی غلامی اور پیروی میں بھی وہ اپنے سے پہلے آنے والے طالع آزماؤں کو مات دے چکا ہے !
اس یزید وقت کی گذشتہ ماہ یزیدیت کے عالمی مرکز میں جو پذیرائی ہوئی ا س نے اس چھٹ بھیے کے ہوش و حواس ہی گم کردئیے ہیں۔ عالمی یزید ایک بیوپاری ہے، آسان زبان میں وہ ایسا بنیاہے جو ہر سودے میں دو پیسے کا فائدہ دیکھتا اور تلاش کرتا ہے۔ اسے کامل گمان تھا، اور اس کا گمان عاصم منیر، جسے پاکستانی سوشل میڈیا حافجی کے نام سے یاد کرتا ہے، نے یقین میں بدل دیا کہ کم ظرف کو اگر اس کی اوقات سے بڑھ کر سراہا جائے تو وہ پھر آپ کا غلام ہوجاتا ہےاور ہر وہ کام کرنے کیلئے آمادہ ہوتا ہے جو آپ اس سے چاہتے ہیں۔
تو یہی ہوا کہ چھٹ بھیے کو عالمی یزید نے لنچ پر مدعو کرلیا اور کم ظرف یہ سمجھا کہ اس کو وہ عزت و احترام مل گیا جو، بقول پاکستان کے مقبوضہ نیوز میڈیا پر اپنے ضمیر کھلے عام بیچنے والے تجزیہ کاروں اور بڑے بڑے نامی اینکرز کے، اس سے پہلے کسی پاکستانی سپہ سالار کو نصیب نہیں ہوا تھا۔
ہمارے جرنیلِ بطورِ خاص ایسی غلامانہ ذہنیت رکھتے ہیں کہ امریکی صدر سے ان کی ملاقات ان کے نزدیک جنت کا پروانہ مل جانے والی بات ہے اور اگر وہائٹ ہاؤس ان کی پذیرائی میں کھانا بھی کھلادے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے!
لیکن پاکستانی یزیدوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ امریکی ثقافت میں، جو تمام تر تجارتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے، فری یا مفت لنچ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پھر اگر ٹرمپ جیسا بنیامیزبان ہو تو یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ وہ ہر لقمہ کی بھرپور قیمت وصول کرے گا۔ اور ہوا بھی یہی۔
ہمارے جرنیلوں کا جو نقیب ادارہ ہے، یعنی رسوائے زمانہ آئی ایس پی آر، وہ ہر سیاسی معاملہ یا پیش رفت میں ہر سیاسی پارٹی یا ترجمان سے بازی لیجانے کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے لیکن عاصم منیر سے لنچ کی کیا قیمت وصول کی گئی اس ضمن میں وہ پر اسرار طور پہ خاموش ہے۔ اور یہ خاموشی کوئی حادثاتی نہیں بلکہ ارادی ہے۔ بقول شخصے جرنیلوں کے ترجمان نے چپ کا روزہ رکھ لیا ہے تاکہ کوئی بھید نہ پاسکے۔ لیکن بھید پانےوالے کسی نہ کسی طرح بھید پا ہی لیتے ہیں !
پاکستانی یزید سے ایک تو یہ مطالبہ کیا گیا، اور یہ اندر کی بات بتانے والا راوی ثقہ اور معتبر ہے، کہ صیہونی ریاست، جو گذشتہ اکیس مہینے سے غزہ کے مظلوموں کے خون کی ہولی کھیلتی رہی ہے اور سوائے ایران اور یمن کے حوثیوں کے کسی مسلمان ملت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان مظلوموں کی حمایت میں انگلی بھی ہلاسکے، کو جلد سے جلد تسلیم کرلیا جائے تاکہ عالمی یزید کے امن کا نوبل پرائز جیتنے کیلئے ایک اور سنگِ میل پار کیا جاسکے!
اندر کی اطلاع یہ ہے کہ پاکستانی یزید اس کیلئے ہمہ تن تیار ہے۔ اس کا پورا یزیدی ٹولہ تیار ہے بلکہ اس خواہش کا اظہار تو وہ رذیل قمر باجوہ کرچکا ہے جس نے عمران کے انکار کے بعد عالمی یزید کی مدد سے اس کی جمہوری حکومت کو ختم کرنے کی سازش کا جال بچھایا۔
اور دو مطالبات جو قابلِ ذکر ہیں یہ تھے کہ چین سے دوری اور بھارت سے قربت بڑھائی جائے تاکہ عالمی یزید کی چین دشمنی کو تقویت ملے اور بھارت کو اس کے مقابلہ پر لانے کی مہم کی بھی حوصلہ افزائی ہو!
اب ان کاموں کیلے بڑے آقا کے غلام ہمہ تن مصروف ہوگئے ہیں بلکہ، بقول شخصے، اس ایجنڈا کی تکمیل کیلئے جٹ گئے ہیں!
ظاہر ہے کہ عالمی یزید کے برسوں کے وفادار عسکری غلام اپنے آقائے نامدار کا یہ منصوبہ پایہء تکمیل کو تنِ تنہا تو نہیں پہنچاسکتے۔ تو مدد کیلئے وہی سیاسی چھٹ بھیے اور گماشتے استعمال ہونگے جن کو اقتدار دیکر بے بس قوم پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہ سیاسی مہرے بھی اپنے تئیں ہر خدمت کیلئے حاضر ہیں اسلئے کہ اقتدار ان کی لونڈی ہے اس وقت تک جب تک سیاں بھئے کوتوال ان پر مہربان ہیں۔ پھر عسکری طالع آزماؤں کیلئے سہولت یہ ہے، جو یقینا” باعثِ تسکین ہوگی ، کہ یہ سیاسی گماشتے ہز ماسٹرز وائس ہیں۔ یہ اتنے بے ضمیر ہیں کہ گلی کے کتے کی طرح جو بھی ان کے آگے ہڈی ڈال دے یہ اس کے حق میں بھونکنے لگتے ہیں!
سو سیاسی گماشتوں نے اپنے وردی پوش آقاؤں کی شہ پر بیان بازی شروع کردی ہے۔ وہ مثل تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ جس کا کھائے اُس کا گائے۔ تو یہ مہرے جو بساطِ اقتدار پر بٹھائے گئے ہیں وہی گا رہے ہیں جو ان کے آقا ان سے چاہتے ہیں۔
خواجہ آصف کا تو ذکر ہی کہ ان کی شہرت تو اسی حوالے سے ہے کہ وہ جب منہ کھولتے ہیں توسننے والے کا عالم یہی ہوتا ہے کہ
؎کلامِ میر سمجھے اور زبانِ شیفتہ سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے!
لیکن اور تو اور بلاول بھٹو نے بھی یزیدیوں کی بولی بولنی شروع کردی ہے۔موصوف کے متعلق یہ تو دنیا کو معلوم ہے ، اور بخوبی معلوم ہے، کہ وہ آج تک اپنے باپ کے سائے سے نکل نہیں سکے اور باپ تو ڈکیت کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتا ہے، اس کی کرپشن کے قصے مغرب کے اسکولوں میں بچوں کو پڑھائے جاتے ہیںکہ تیسری دنیاکے رہنما کس کردار کے حامل ہیں اور اپنے ملکوں کو کیسے کیسے لوٹتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن ڈکیت باپ بہت عرصہ سے اپنے بیٹے کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنانے کا خواب بھی تو دیکھتا آیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کام ان کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا جو پاکستان کے اصل مالک ہیں اور اسے اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔
تو اس پس منظر میں بلاول کا یہ بیان سمجھ میں آجاتا ہے ، جو موسوف نے پاک-بھارت تعلقات کے ضمن میں دیا کہ اگر بھارت شواہد پیش کرے تو ان افراد کو جنہیں مودی سرکار پاکستانی دہشت گرد کہتی ہے بھارت سرکار کے حوالے کیا جاسکتا ہے!
ویسے تو ان کے خاندان کی بھارت نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن پاکستان کے وزیرِ اعظم بننے کی خواہش رکھنے والے سیاسی گماشتے کا یہ بیان اور اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ خدا نہ کرے اگر وہ بہ فیضِ یزید پاکستانی قوم پر مسلط کردئیے گئے تو ملک کو وہ کس سمت میں لیکے جائینگے! مختصر جملہ یہ ہوگا کہ وہ بھارت کی گود میں پاکستان کو ڈال دینگے کہ جو چاہے کرے، جو مزاجِ یار میں آئے۔ ڈکیت زرداری کا یہ سپوت سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرے گا۔
وہ کہاوت کتنی درست ہے کہ پتا پر پوت نسل پر گھوڑا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا!
پاکستان کا المیہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا پاکستان بنانے والے نے تو اپنی زندگی ختم کردی اس مقصد کیلئے کہ ہندو کی متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ مسلمان ایک وطن میں نہیں رہ سکتے۔ لیکن آج، پاکستان کے قیام کے 78 برس بعد عالم یہ ہے کہ ملک پر وہ یزیدی عسکری قابض ہیں جنہیں ان کی اوقات بابائے قوم نے پاکستان بننے کے بعد دکھادی تھی لیکن وہ ایسے ملک دشمن ہیں کہ اپنی ہوس کیلئے انہوں نے پہلے تو قائدِ اعظم کے پاکستان کو دو لخت کیا اور آج وہ اور ان کے سیاسی مہرے، سامراجی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے پاکستانی قوم کی غیرت اور حمیت کا سودا کرنے کیلئے ہمہ تن آمادہ ہیں۔
پاکستان بنانے والے میں حسینیت کا جذبہء حریت بدرجہء اتم تھا۔ وہی جذبۂ عسکری یزیدوں کے معتوب عمران خان میں بھی زندہ و تابندہ تھا اور ہے، اور اسی جذبہء حریت اور خودداری کی پاداش میں وہ عسکری یزیدوں کی قید میں پابندِ سلاسل ہے!
پاکستانی یزیدی مطمئن ہیں کہ انہیں عالمی یزید سے پروانہ مل گیا ہے کہ وہ اپنے مقبوضہ پاکستان کے ساتھ جو کرنا چاہیں کریں بشرطیکہ وہ اس کا منشور پورا کرتے رہیں۔ اور اس حکم کو بجالانے میں پاکستان کا یزیدی ٹولہ اپنے آقا کے فرمان کی مکمل پیروی کر رہا ہے۔
ہم جیسے حسینیوں کا الم یہ ہے کہ آج سید الشہداء کی عالمگیر اور آفاقی قربانی کو یاد کرتے ہوئے ہمارے دل سے یہ قلق نہیں جاتا کہ اس پاکستان کا یہ سامراج کے غلام یزیدی کیا حشر کر رہے ہیں جو حسینِ مظلوم کے جذبہء حریت کو اپنے لئے مشعلِ راہ بناکر وجود میں آیا تھا۔
سید الشہداء، حریت کے قافلہ سالار، سیدنا حسین کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ہم ماتم کناں بھی ہیں کہ ہم نے بابائے قوم کے پاکستان کو حسینیت کے منشورِ آزادی اور سرفرازیء حق سے کتنا دور کردیا ہے !
اپنے لہو سے کھینچی وہ شبیر نے لکیر
باطل کو حق سے تا بہ ابد کردیا جدا
باطل کے دل میں سینکڑوں اغراض کے صنم
حق کا بس ایک قبلہ و کعبہ ہے، اک خدا!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button