ہفتہ وار کالمز

 غریبوں، نو جوانوں کا مددگار، راشد صدیقی

ربیعہ نےہنر مند فاؤنڈیشن سے بیوٹیشن کی تربیت مکمل کر لی تھی، اور پھر اسے ایک اچھے بیوٹی پارلرمیں ملازمت مل گئی۔ اس کی آمدن سے اس کے گھر والوں کو سہارا مل گیا۔
ربیعہ کا باپ ،نایاب نقوی ٹانگوں سے معذور تھالیکن اس کے باوجود کسی درزی کی دوکان پرملازمت کرکے روزی کماتا تھا جس سے اس کاگھر چلتا تھا۔ اسے بھی کسی نے ہنر مند فاؤنڈیشن کا بتایا تھا۔’’اب وہ ہنر مند کے دو شاگردوں کو بھی تربیت دے رہا ہوں جس کا اُسے معاوضہ ملے گا۔‘‘
نسرین بی بی آج بڑی خوش ہے کہ اس کی بیٹی نے ہنر مند میں سلائی کڑھائی کا تربیتی کورس مکمل کیا۔ اور ہنر مند کی اعانت سے میرے دوبچے بھی دو سو روپے روزآنہ کمانے لگ پڑے ہیں۔ طلاق کے سانحہ کے بعد میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میں چھوٹے بچوں کے ساتھ باعزت زندگی جی سکوں گی جو میری امنگوں کے مطابق ہو گی۔ ہنر مند نے میری مدد کی اور سب ممکن ہو گیا۔
ہنر مند فاؤنڈیشن کیا ہے؟ اسے کس نے بنایا اورلاہور میںیہ ادارہ کیسے غریبوں اور نو جوانوں کی مدد کر رہا ہے؟ان صاحب کا نام ہے راشد احمد صدیقی ۔ راشد، حیدرآباد( دکن )کے ایک متمول گھرانے میںپیدا ہوئے۔ وہیں پر ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ 1964میں خاندان نے پاکستان میں ہجرت کی اور کراچی کو اپنا نیا وطن بنایا۔باقی مہاجرین کی طرح پاکستان کے ابتدائی دن صبر آزما تھے۔ ان کے والد بینک میںکام کرتے تھے۔اور والدہ ہائوس بلڈنگ کارپوریشن میں ریجنل مینیجر تھیں ۔ راشد نے ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کراچی سے حاصل کیاور1971 میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ راشدبچپن سے ہی کسی نہ کسی کاروبار میں دلچسپی لیتے تھے۔اور اس میں کامیاب بھی ہوتے تھے۔انہوں نے گھر میں مرغیاں پالنے کا فارم بنایا۔ پھر انہوں ایک گھر کی تعمیر میں حصہ لیا، بطور پلمبر کام کیا، ایک آہنی میز بنائی جس پر صنعتی نمائش میں انعام بھی ملا۔ اور ایک ہائوسنگ سوسائٹی کی تعمیر میں حصہ لیا۔ راشد نو جوانی میں ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا گُر جان چکے تھے۔ اسی دھن میں انہوں نے 1972 میں نیو یارک آگئے۔ دوران طالب علمی یہاں صفائی کرنے کا کام کیا، سٹیشنری کی دوکان کا سامان لانے لے جانے کا کام کیا، اوراسی سال ٹورانٹو، کینیڈاچلے گئے۔ وہاں جا کر اسفالٹ کا ٹینکر چلایا۔ ایک یہودی کے ریسٹورانٹ میں باورچی کا کام کیا۔ پھر اخبا ررسانی کا کام بھی کیا، انہوں نے 1976 میں یونیورسٹی آف واٹرلو سے مکینیکل انجینئر کی ڈگری حاصل کی۔ 1982 میں آٹو میکینک کی ٹریننگ لی۔ لیکن ان کی طبعیت میں ٹھہرائو نہیں تھا۔ کسی ایک پیشہ کے ساتھ جڑے رہنے کے بجائے کاروباری دنیا کا ہرذائقہ کینیڈا میں لیتے رہے۔ 1981 میں ان کی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا جب انہوں نے نقل مکانی کی اور امریکہ کے شہر شکاگو چلے گئے۔وہاں پٹرول پمپ بھی چلایا، اور گروسری سٹور بھی۔غالباً دنیا کا کوئی کام نہیں ہے جس کا تجربہ راشد کو نہیں ہوا۔ شادی کے لیے حیدرآباد دکن گئے اور پھر واپس آ گئے۔ان کے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ دونوں اپنے گھروں میں آباد ہیں۔
2012 میں جب ہمارے مہربان اور شفیق دوست راشد احمد صدیقی نے امریکہ سے پاکستان جا کر ہنر مند کے نام سے ادارہ بنانے کی داغ بیل ڈالی، تو اس کے پیچھے ایک درد مند دل اور غریبوں،نو جوانوں میں ہنر مندی کی تربیت کی شدید ضرورت کا احساس تھا۔ انہوں نے پاکستان اور امریکہ دونوں میں ایک رفاہی ادارہ رجسٹر کروایا، جس کا مقصد اعلیٰ ان نوجوانوں کی ہنر مندی میں تربیت کرنا تھا جو خط غربت کے نیچے تھے۔ تب سے 2018 تک چھ سالوں میں ان کی ادارے نے سینکڑوں غریب نو جوانوں کو کسی نہ کسی ہنر کی تربیت دی۔
پاکستان میں نہ غریبوں کی کمی ہے اور نہ نوجوانوں کی۔اگر کمی ہے تو ان نوجو انوں کی حالت سنوارنے کی کوشش کرنا۔ ایک حالیہ خبر کے مطابق پاکستان میں غریبوں کی تعداد 45فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، تقریباً دس کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے آچکے ہیں۔ اور نو جوانوں کی تعداد، سن 2033 کی مردم شماری کے مطابق، 15سے 29 سال کی عمر کے کے جوانوں کی تعداد چھ کروڑ سے اوپر تھی۔ ان میں تین کروڑ سے اوپر لڑکے تھے اور باقی لڑکیاں۔ان چھ کروڑ نوجوانوں میں جو خو ش قسمت ہیں انہوں نے مڈل یا میٹرک کی تعلیم حاصل کی ہو گی، اور تھوڑی سی تعداد کالج کی تعلیم حاصل کر چکے ہوں گے یا کر رہے ہوں گے۔بد قسمتی تو یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام نوجوانوں کو جب فارغ التحصیل کرتا ہے تو ان کے پاس کوئی ایسا ہنر نہیں ہوتا جس سے وہ لیبر مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے استعمال کر سکیں۔ ہمارا تعلیمی نظام انگریزوں کے زمانے میں بنایا گیا تھا اور اس زمانے میں انگریزوں کو کلرکوں کی ضرورت ہوتی تھی، یا چپڑاسیوں کی۔ اس لیے تعلیمی نظام ایسے ہی نو جوان تیار کرتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ، تعلیمی نظام میں کرپشن داخل ہو گئی اور تعلیمی معیار قربان ہوتا گیا۔اب جو نوجوان میٹرک پاس کر کے نکلتے ہیں، ان میں کلرک بننے کی اہلیت بھی نہیں ہوتی۔ہمارے تعلیمی نظام نے کبھی نوجوانوں کو کوئی ایسا ہنر دینے کی کوشش نہیں کی جس سے انہیں ملازمت مل سکے یا وہ خود اپنا کوئی کاروبار کر سکیں۔
پاکستان میں اس کمی کا احساس کافی عرصہ سے تھا۔ 60کی دہائی میں، سویڈش حکومت نے پاکستان میں اعلیٰ درجہ کے انسٹیٹیوٹ بنائے جن میں نو جوانوں کو بجلی، پلمبنگ، کارپینٹری اور تعمیرات وغیرہ کی تربیت دینے کا انتظام کیا تھا۔ مغربی پاکستان میںدو انسٹیٹیوٹ تھے۔اور ان میں ایک محدود تعداد کو داخلہ مل سکتا تھا۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک تھا۔ اس میں تعمیرات کا کام بڑی سرعت کے ساتھ شروع کیا گیا جب ہنر مند افراد کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ صرف تعمیرات ہی نہیں، ملک میں ٹرانسپورٹ میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ ہر شعبہ میں ہنر مند افراد کی ضرورت نظر آنے لگی۔ حکومت نے اپنی نگرانی میں کچھ ادارے بنانے شروع کیے جنہوں نے ووکیشنل اورفنی تربیت دینے والے اداروں کو امداد دینا شروع کی۔ ان حکومتی اداروں میں TAVETA پنجاب کا نام سر فہرست ہے۔اس کے بعد , ,OPF, ,SDC,PVTC,NAVTTC, ہیں، ایک رفاہی ادارہ ، نور کے نام سے ایک بڑے پیمانے پر فعال ہے۔ان کے علاوہ اور بھی ہیں۔
قارئین، آپ کو یہ تو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جس رفتار سے نو جوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، پاکستان کے کل ہنر کی تعلیم دینے والے ادارے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اگرچہ حکومت کے وسائل محدود ہیں اور ترجیحات کہیں اور، اس لیے نوجوانوں کی زیادہ تعدادبے ہنر اور کم تعلیم کے ساتھ بیکاروں کی فوج بنتی جا رہی ہے اور کئی اس شوق میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں کہ وہاں محنت مزدوری کر کے چار پیسے تو کما لیں۔ لڑکیاں تو کسی گنتی میں نہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو ویسے ہی سکول اور اعلیٰ تعلیم سے منع کیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ سلائی کڑھائی سکھائی جاتی ہے کہ غریب لڑکیاں کپڑے سی کر کچھ روزی کما سکیں۔راشد صدیقی کی کوشش یہ تھی کہ جو تربیت بھی دی جائے وہ عمدہ ہو، صرف امتحان پاس کرنا مقصد نہ ہو۔اور تربیت ایسے شعبوں میں جن میں تربیت یافتہ نوجوان مرد یا عورت کو یا ملازمت مل سکے یا وہ خود اپنا کاروبا ر بنا سکیں۔
۔ ہنرمند کا آئندہ پانچ سالوں کا منصوبہ ہے کہ ہر سال کم از کم 250افراد کی تربیت کی جائے اس میں ہر سال بیس فیصد کا اضافہ کیا جائے ۔اس طرح پانچ سال میں کُل تقریباً دس ہزار افراد کی تربیت ہوجائے۔
۔ ’’بوٹ کیمپ‘‘ کا طریق کار استعمال کر کے غریب نو جوانوںکونظم و ضبط سکھانا، اور کام کی دنیا میں کامیاب ہونے کی تیاری کرنا ، اختیار کیا گیا ۔ (امریکہ میں بوٹ کیمپ میں فوج میں داخل ہونے کے خواہشمندوں نو جوانوںکو فوجی ماحول سے متعارف کیا جاتا ہے۔) ہنرمند پروگرام میں، بوٹ کیمپ کا مقصد طالب علموں کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ تھوڑے عرصہ میں اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے قابل ہو جائیں۔
۔ مردوں اور عورتوں کو مندرجہ ذیل ہنر وں میں تربیت دی جائے:
۔ بجلی کا کام؛ پلمبر (نلکے اور پانی کے پائپ لگانا اوران کی مرمت)؛ لباس بنانا؛ بنائو سنگار ؛ لیڈیز کا پرس اور بٹوے بنانا، ؛ معمار؛ ویلڈر؛ کار کی مرمت، مستری کی تربیت؛ معلومات کی ٹیکنالوجی؛ درزی کا کام اور کپڑے بنانا؛ میک اپ ؛ مہمان نوازی اور گاہکوںے تعلقات، لکڑی کا کام اور چیزیں بنانا، شامل ہیں۔
بطور ادارے کے، ہنر مند فائونڈیشن کے مقاصد ہیں:۔ ہنر مند کو بطور ادارے کے، منظور شدہ اداروں سے منسلک کرنا؛ ۔ اس کام کا مقصد ہنر مندی کے منصوبوں کو پاکستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں تک پہنچانا۔
۔ اس ادارے کو اپنی مدد آپ کے اصولوں پر چلانا؛ ہنر مندی کی اعلیٰ تربیت کے ساتھ شخصیت کو اجاگر کرنا اور خواندگی دینا؛ اور طالب علموں کو خود ملازمت ڈھونڈنے کی صلاحیت دینا؛ اور مالی خرچ اور آمدن کا حساب رکھنا۔
کہتے ہیں کہ ہنر مند کبھی بھوکا نہیں سوتا اور کسی کو بھی ہنرسکھانے میں دو سو ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔آج تک اس پروگرام کو راشد صدیقی کے خاندان کے ارکان نے سہارا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اب اس کام کو سارے پاکستان میں پھیلانے کے لیے ہم نے وظیفہ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پاکستان میں کسی بھی جگہ سے اگر کوئی نو جوان کسی ادارے سے ٹریننگ لینا چاہتا ہے اور وہ غربت کی وجہ سے فیس نہیں بھر سکتا تو ہنرمند اس کو وظیفہ دیتا ہے جس سے اس کی فیس کا بند و بست ہو جاتا ہے۔دوسرا قابل ذکر پروگرام شاگردی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں غریب ماں باپ چھوٹے بچوں کو شاگرد بنوا دیتے ہیں۔ہنر مند ایسے بچوں کی مدد کرتا ہے اور ان کے اساتذہ کو صحیح کام سکھانے کا معاوضہ دیتا ہے۔تیسرا مقبول عام پروگرام، ریڑھی بان ہے۔ یہ پروگرام عمررسیدہ لوگوں کے لیے ہے، جو شادی شدہ ہیںاور بچوں والے ہیں۔ ان کے پاس وقت اور صلاحیت نہیںہے۔ ان کو ریڑھی بمعہ پھل سبزیوں کے دی جاتی ہے ، جس کو بیچ کر اس کے منافع سے وہ گھر چلاسکتے ہیں، اور اصل رقم سے فروخت شدہ سامان منڈی سے لا کر پھر فروخت کرکے کاروبار کو چلاتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں ہنر مند پروگرام کو کامیاب بنانے میں محترمہ شمسہ کنول کا بہت بڑا حصہ ہے۔وہ پاکستان میں اس پروگرام کی جنرل مینیجر ہیں۔ غریبوں کے بارے میں فکر مند ہونا اور اور ان کے لیے کام کرنا ان کی محنت کا سبب ہیں۔ وہ روزآنہ کام کی جانچ پڑتال کرتی ہیں اور راشد صدیقی کی معاون ہیں۔ ہنر مند کو ان کی شراکت پر فخر ہے کہ ان جیسی خاتون پاکستان میں ادارے کی نمایندہ ہیں۔
ہنر مند ادارے کا اس مقولے پر ایمان ہے کہ‘‘آپ کسی کو مچھلی دیں تو اس کی ایک دن کی خوراک کا بندو بست ہو گیا۔ لیکن اس کو اگر مچھلی پکڑنا سکھا دیں تو وہ زندگی بھر بھوکا نہیں رہے گا۔‘‘
میری ملاقات راشد سے فلوریڈا کے شہربوکا ریٹون میں ہوئی اور ایسی دوستی کہ آج تک قائم ہے۔ہم نے ملکر جا ئیدادکی خرید و فروخت کا کام کیا، بعد میں راقم نے ہنر مند ی کی اکائونٹ کیپنگ پر مشورے دیئے، لاہور میں، میڈم شمسہ سے انٹرویو کی وڈیو بنائی۔صدیقی صاحب کاتازہ ترین منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے لاہور کے نواح میں ایک اسلامی مدرسہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے نصاب میں ہنر مندی کی تعلیم بھی شامل کریں تا کہ جب ان کے طلباء فارغ التحصیل ہوں تو وہ با عزت روزگا پا سکیں یا خود کاروبار شروع کر سکیں۔ مدرسہ کی انتظامیہ کو یہ مشورہ بہت مناسب لگا اور انہوں صدیقی صاحب کو نہ صرف ورکشاپ اور دفتر بنانے کی جگہ دی ، اس کے ساتھ ہر طرح کا تعاون یقینی بنایا۔ اس اقدام سے صدیقی صاحب کو ایک ماڈل ہنر گاہ بنانے کا موقع مل گیا جس سے ، دوسرے اسلامی مدرسوں کو بھی راغب کیا جا سکے۔یاد رہے کہ پاکستان میں ایسے ہزار ہا مدرسے ہیں جہاں طالب علم صرف دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا ہنر نہیں سیکھتے جس سے انہیں مارکیٹ میں کوئی مناسب ملازمت مل سکے۔عین ممکن ہے کہ یہ سوال ان مدرسوں کے منتظمین کو بھی درپیش ہو۔ ہنر مندی کی تعلیم سے لاکھوں اسلامی تعلیم لینے والے نو جوانوں کے لیے مستقبل درخشاںہو سکتا ہے۔ صدیقی صاحب کے ماڈل پروگرام میں آئی ٹی، اور دوسرے کورسز شامل ہیں ۔ ان کی محنت اور قابلیت سے ہمیں پوری توقع ہے کہ یہ ایک قدم اسلامی مدرسوں کو اور بھی مقبول عام کر دے گا جب ہر مدرسہ اس پروگرام کو اپنا لے گا۔یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ یہ صدیقی صاحب کی، پورے پاکستان میں، نہ صرف نوجوانوں کی خدمت ہو گی بلکہ اسلام کی خدمت بھی ہو گی۔
راشدصدیقی نے پاکستان میں ہنر مند کے فروغ کے لیے، غیروں سے چندہ لینا پسند نہیں کیا اس لیے کہ اگر حساب کتاب میں کوئی کوتاہی ہو گئی تومخیر حضرات کو کیا جواب دونگا؟ وہ ہنر مند کے سارے اخراجات اپنی جیب سے یا اپنی فیملی کی مدد سے پورے کرتے ہیں۔ہمیشہ سے پابند صوم و صلوٰۃ ہیں۔وعدے کے سچے اور لین دین میں دیانت دار۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کی مجبوری اور نجی شعبہ کی بے اعتناعی، سے لاکھوں غریب نو جوانوں کی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔ اور اگر ایسا ہی رہا تو پاکستان کا مستقبل بھی روشن نہیں ہو گا۔ راشد صدیقی نے ایک دیا جلایا ہے ، ایسے سینکڑوں مخیر حضرات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی ہر تحصیل میں ہنر گاہیں ہونی چاہیئں جہاں لڑکے لڑکیوں دونوں کو خاطر خواہ تربیت مل سکے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button