صُحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں !

گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں بی اے کی کلاس کے ہمارے استاد پروفیسر عصمت اللہ خان نے اُردو پڑھاتے ہوئے ہماری اس طرح سے تربیت کی ، کہ ہمیں یہ وہم ہونے لگا تھا کہ سب کے سب بڑے عقلمند ، سمجھدار اور اُردو کے مضمون میں بڑے لائق فائق طالب علم ہیں ۔وہ ہماری نالائقیوں پر ہمارا تماشا بنانے کی بجائے ہمیں اس طور سمجھاتے تھے کہ ان کے کہے بغیر ہمیں اپنی کوتاہی کا خود ہی اندازہ ہو جاتا۔جو اعتماد انہوں نے ارزاں کیا ، وہ یہ تھا کہ طالب علم کلاس میں ہر بات اور ہر سوال کر سکتے تھے۔ایک بار میں نے اپنی اس الجھن کا ذکر کیا کہ بی-اے کی اُردو کی کتاب میں اقبال کی نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں کیوں شامل کی گئی ہے ۔اس کے عوض کوئی اور طویل نظم بھی شامل کی جا سکتی تھی۔پروفیسر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا کہ کیوں بھئی اس نظم میں کیا مسٔلہ ہے۔ارے یہ نظم شاہکار ہے شاہکار ۔جی جی وہ تو ہے لیکن سر بی اے سطح کے طالبعلموں کی مائیں حیات ہوتی ہیں ۔وہ یہ پڑھتے ہوئے دکھی ہو جاتے ہیں۔ان کا جواب صرف ایک اُداس مسکراہٹ تھی ۔ میں نے اپنی کتاب میں اس نظم والے صفحے اسٹیپلر کی پن سے بند کر رکھے تھے ۔ایک دوست کے پوچھنے پر کہا تھا کہ ہاں اگر امتحان میں اس نظم پر سوال آ گیا تو میں کسی دوسرے سوال پر توجہ کر لوں گا۔پھر ایک وقت آیا کہ یہ نظم میرے مطالعے کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔
ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانی تقدیر ہے
پردۂ مجبوری و بےچارگی تدبیر ہے
آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں!
سال 2011کے دس محرم کے روز ، صبح کے وقت میری پیاری امی جان فیصل آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں .میں اسلام آباد میں تھا ،چھٹی کا دن تھا، ناشتہ کر رہا تھا کہ فون پر اطلاع ملی کہ ان کی طبیعت بہت خراب ہے ، ہم انہیں ہسپتال لے کر جا رہے ہیں . دل سے فوراً دعا نکلی کہ یا اللہ میری امی جان کو اپنی امان میں رکھنا،اے میرے مالک میری ماں کو مکمل صحت عطا فرما ۔ لیکن فون سن کر مجھے ایک جھرجھری سی آ گئی تھی۔ میں نے بلند آواز میں سب کو متوجہ کیا کہ سب تیار ہو جائیں ،ہم ابھی فیصل آباد جارہے ہیں ۔ میری شکل اور انداز دیکھ کر بیگم نے نہایت گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا کیا ہوا ؟ خیر تو ہے ؟ میں نے آہستہ سے کہا کہ امی جی کی طبیعت ٹھیک نہیں ،ہسپتال لے جارہے ہیں۔اس نے تسلی دی کہ پریشان نہ ہوں اللہ خیر کرے گا۔وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔میں نے آمین کہا۔ فون ایک بار پھر بجا ، میرے چھوٹے بہنوئی نے کہا کہ بھائی جان آپ آ جائیں اور فون بند کر دیا۔ پھر سب کچھ رک سا گیا ،میں نے اپنے وائس چانسلر کو میسج کیا کہ میں فیصل آباد جا رہا ہوں ،والدہ کی طبیعت اچھی نہیں ہے ،اور پھر تیز رفتار ڈرایئونگ کرتے ہوئے فیصل آباد کی طرف روانہ ہو گیا۔میرے آنسو جاری تھے،بیگم اور بچے مجھے حوصلہ دے رہے تھے اور میں انہیں سمجھا رہا تھا کہ پریشان نہ ہوں۔ اسی اثناء میں وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر سانگی صاحب کا فون آیا کہ آپ کے گھر ڈرائیور اور گاڑی بھیجی ہے آپ کہاں ہیں؟ میں نے کہا کہ میں کلر کہار کے آس پاس ہوں ،شکریہ ۔کہنے لگے کہ آپ کو اس وقت خود گاڑی ڈرائیو نہیں کرنی چاہئیے۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بس آپ دعا کریں ۔بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں فیصل آباد کے ریجنل ڈائریکٹر نے فون پر اطلاع دے دی تھی کہ کامران کی والدہ وفات پا گئی ہیں ۔
پھر میں تھا ، گریہ خاموش تھا اور تیزی سے پیچھے سرکتا ہوا راستہ ۔ فیصل آباد سے پھر فون آنے لگے ، کہاں پہنچے ؟ پہلی بار یہ فون میری امی جان کے نہیں تھے ۔بیگم اور بچے بتاتے رہے ۔پھر ہم پہنچ گئے۔ ہمیشہ میرا انتظار کرنے والی ماں خاموش تھیں ، ہمیشہ میری راہ تکنے والی آنکھیں بند نظر آئیں۔ان کے گرد خواتین کا ہجوم تھا ۔میں آگے بڑھا ،مجھے راستہ دیا گیا ، میری ماں سامنے خاموش لیٹی تھیں۔پہلی بار انہوں نے اٹھ کر میرا ماتھا نہیں چوما، یہ کام میں نے کیا۔میں ان کے پاس بیٹھ گیا، اس وقت صرف میرے آنسو میرا ساتھ دے رہے تھے ۔مجھے لگا کہ میں ان کا دوپٹہ پکڑ کر ان کے پاس بیٹھا ہوا ہوں ، اور باتیں کیے جا رہا ہوں ۔مجھے لگا کہ میں گلے میں اسکول بیگ ڈالے اپنی ماں کے ہاتھ زور سے پکڑ کر کلاس میں بیٹھا ہوا ہوں۔ مجھے لگا کہ وہ صبح کے وقت رحل میں قرآن مجید رکھ کر پڑھ رہی ہیں ،اور میں پاس بیٹھا انہیں دیکھ بھی رہا ہوں اور سن بھی رہا ہوں۔وہ اس عمل کو سبق پڑھنا کہتی تھیں۔مجھے لگا کہ وہ مجھےصاف ستھرے کپڑے پہنا کر ،میرے بال بنا رہی ہیں ، وہ ہمیشہ سرمے کی سلائی سے ایک تل میرے چہرے پر کہیں نہ کہیں ضرور لگا دیتیں تھیں ،تاکہ بچے کو نظر نہ لگے۔مجھے لگا کہ میں گھر کے لان میں گھاس پر چلتے ہوئے کتاب پڑھ رہا ہوں اور وہ میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ، ہاتھ میں پکڑی پلیٹ میں سے سیب کے ٹکڑے میرے منہ میں ڈالتی جاتی ہیں۔مجھے نظر آیا کہ سبھی گھر والے میرے ایم اے اُردو کرنے کے فیصلے سے مایوس ہو کر کہہ رہے تھے کہ ایسا نہ کرو ۔کیا کرو گے لڑکیوں والا ایم اے کر کے ؟زیادہ سے زیادہ اسکول ٹیچر بن جاؤ گے ، یہ وہ بھی نہیں بن سکتا( ایک آواز آتی) اسے بی ایڈ کرنے سے چڑ ہے اس کا دماغ بالکل خراب ہو چکا ہے پتہ نہیں کون سی کتابیں پڑھ لی ہیں اس نے۔میں کہتا تھا میں پروفیسر بنوں گا۔میری امی جان میرا ساتھ دیتیں اور کہتیں یہ سچ کہتا ہے ،یہ پروفیسر بنے گا۔ ذرا دیکھو تو یہ تو ابھی بھی پروفیسر لگ رہا ہے ۔پھر سارے بہن بھائی یہ کہہ کر خود کو تسلی دے لیتے کہ امی جان اسے لاڈ پیار میں بگاڑ رہی ہیں ،پتہ نہیں ماؤں کو چھوٹے بچے بگاڑ کر کیا مزا آتا ہے ۔مثلا مجھے یاد ہے کہ صرف مجھے فیشن کے مطابق بڑے بال رکھنے اور لمبے کالر والی فیشن ایبل شرٹس پہنے کی اجازت تھی ۔بڑے بھائیوں کو یہ اجازت نہیں تھی وہ یونیفارم ،بلیو بلیزر کے کوٹ ٹائی کے علاوہ سادا رنگ کے لباس پہنتے ، انہیں بڑے بال رکھنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔خیر والدین کی وفات کے بعد سبھوں نے حساب کتاب برابر کر لیئے ۔اب سوچتا ہوں کہ آٹھ بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر کے بچے کو اس قسم کی مزاحمت کی سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔مجھے یاد آیا کہ میری ماں نے مجھے کبھی بھی کسی بات پر ڈانٹ نہیں پلائی ، غصہ نہیں کیا۔مجھے صرف ان کا پیار یاد ہے۔اسلام آباد جانے کے بعد ان کا دعاؤں بھرا فون آتا۔ میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت اور طاقتور انسان سمجھتا۔ وہ جب جب اسلام آباد تشریف لاتیں، ہمارا گھر نظم و ضبط کا پابند ہو جاتا۔گویا ہم سب مہذب سے انسان بن جاتے ،سونے جاگنے ، اور کھانے پینے کے اوقات میں تصحیح اور تنظیم پیدا ہو جاتی۔صبح شام کی سیر لازم ، پر میرا بہت لحاظ کرتیں۔وہ سمجھتی تھیں کہ میرا بیٹا دماغی کام کرتا ہے ۔اسے آرام و آسائش کی زیادہ ضرورت ہے۔میرا چھوٹا فرزند جب پیدا ہوا تو وہ مسلسل ہمارے ساتھ ہسپتال رہیں۔میرے منع کرنے پر کہتیں کہ میں دعا کرتی ہوں، میرا ساتھ رہنا بہت ضروری ہے ،سب خیر ہو گی ۔اللہ نے یہی کیا۔تمام پیچیدگیوں اور خطرات سے سہولت کے ساتھ نکال دیا۔نرس نے جب آکر خوش خبری سنائی تو امی جان تسبیح کر رہی تھیں ۔شکر الحمد اللہ کہہ کر انہوں نے تمام اسٹاف میں پیسے تقسیم کیے، جو انہوں نے اسی وقت کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔پھر یوں ہوا کہ ایچ ایٹ کے انٹرنیشنل ہسپتال کے متعلقہ شعبے کا تمام فیمیل اسٹاف اور ڈاکٹرز امی جان کے پاس آتیں اور کہتی کہ امی جان ہمارے لیے بھی دعا کریں۔وہ سب حیران تھیں کہ ہم ایک مشکل صورتحال سے کس سہولت سے نکل آئے تھے۔بعد میں امی جان ہنستے ہوئے بتاتی تھیں کہ مجھے دعا پوری تفصیل سے سمجھا کر کہتی تھیں کہ امی جی آپ یہ دعا کریں ہمارے لیے ۔میرے چھوٹے بیٹے فرزان احمد کو ساتھ سلاتیں۔پیار کرتیں اور اب فرزان احمد کہتا ہے کہ میں نے چائے کا شوق امی جی سے لیا ہے وہ مجھے چائے چکھاتی تھیں۔
میں نے ماں کے چہرے کی طرف دیکھا ۔وہ بڑے وقار کے ساتھ آنکھیں بند کیے ہوئے تھیں۔
زندگی کی اَوجگاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم
صُحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں
ہم بے تکلّف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں
پھر اُسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
سچ تو یہ ہے کہ اپنی ماں کو آخری بار دیکھنا دنیا کا سب سے مشکل اور افسردہ عمل ہے۔
کس کو اب ہو گا وطن میں آہ! میرا انتظار؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟
خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آوں گا؟
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا ، تو چل بسی
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے پڑھنے کا بالکل شوق نہیں تھا اسکول جانا ایک مصیبت لگتا تھا .مجھے کبھی سمجھ نہیں آ سکی کہ ننھے بچوں کے گلے میں بستہ ڈال کر اسکول کیوں بھیجا جاتا ہے .میں نے اعلان کر دیا کہ صرف ایک صورت میں اسکول جاوں گا اگر امی جان میرے ساتھ کلاس میں بیٹھیں گی ،سو یہی ہوا ،امی جان میرے ساتھ اسکول جاتیں .اور میں ان کا بازو پکڑ کر کلاس کے پنجرے میں بیٹھا رہتا .مجھے ٹیچر کی کوئی بات سنائی نہیں دیتی تھی ، میں دل ہی دل میں امی جان سے باتیں کرتا رہتا .پھر یوں بھی ہوا کہ امی جان مجھے کلاس روم میں چھوڑ کر چلی جاتیں .اور میں باقی کا دن موٹے موٹے آنسو گراتا رہتا. ….10 محرم کے روز وہ سچے جہان چلی گئیں ….موٹے موٹے آنسو اب بھی گرتے ہیں، لیکن اندر کی طرف۔اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے. سچ تو یہ ہے کی دل کی خوشی انہی کے ساتھ تھی۔