منافقت کے عالمی سوداگر اور ان کے نمکخوار !

یہ حقیقت کہ مغربی معاشرہ اور تہذیب میں مہمان نوازی کا کوئی تصور نہیں بلکہ، اسکے برعکس یہ کہاوت ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ یہاں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا، اس کا ثبوت ہمارے خود ساختہ فیلڈ مارشل، عاصم منیر کی واشنگٹن یاترا کے چند دنوں کے اندر اندر ہی ان کے سامنے آگیا جو پاکستان کے بے تاج بادشاہ کی کامیابی کے ڈھنڈورے پیٹ رہے تھے !
فیلڈ مارشل کو صدر ٹرمپ نے گذشتہ بدھ کے دن وہائٹ ہاؤس میں لنچ کھلایا تھا جس کے بعد ان کے اس بیان نے کہ فیلڈ مارشل کی میزبانی کرنا ان کیلئے ایک اعزاز تھا ہمارے عسکری طالع آزما کے ڈھنڈورچیوں کیلئے بغلیں بجانے کا سامان ، بلکہ چارا، فراہم کردیا تھا اور اس کے بعد ہی پاکستان کے مقبوضہ نیوز میڈیا پر لفافہ صحافیوں نے ان کی تعریف میں وہ جگالی شروع کی تھی کہ گویا پاکستان کے آمرِ وقت کو دنیا میں ہی جنت کا پروانہ مل گیا ہو!
فیلڈ مارشل صاحب کے پاکستان واپس پہنچتے ہی ان کے تابع فرمان کٹھ پتلی وزیر اعظم کی کابینہ نے عاصم منیر کی نمک حلالی کے ثبوت میں دنیا کو آگاہ کیا کہ ٹرمپ کو پاکستان اگلے برس کے نوبیل امن انعام کیلئے نامزد کر رہا ہے !
یہ فیصلہ ان عقل کے اندھوں کا تھا جن کے اجداد نے برصغیر کی فرنگی سامراج کے خلاف طویل اور صبر آزما جنگِ آزادی کے دوران حریت پسندوں کی تنسیخ کرتے ہوئے فرنگی سامراج کے ہاتھ مضبوط کئے تھے۔ آسان لفظوں میں آج کی پاکستان پر قابض نام نہاد اشرافیہ، جو ملت فروش سیاستدانوں اور ان کے سرپرست طالع آزما جرنیلوں پر مشتمل ہے، سامراج کی غلامی اور نمکخواری کی روش کو آزاد پاکستان کے 78 برس بعد بھی ترک کرنے سے قاصر ہے اور اس کی یہ مجبوری اس وجہ سے ہے کہ اس نام نہاد اشرافیہ کے افراد کی رگوں میں ملک و قوم سے غداری کا خون گردش کر رہا ہے !
لیکن جنگجو ٹرمپ نے اپنے ان نمکخوار غلاموں کے منہ پر پاکستانی کابینہ کے اس بیہودہ فیصلہ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایسا کس کر، کرارا، تھپڑ رسید کیا کہ اگر ان میں غیرت اور شرم و حیا کی ایک بوند بھی ہوتی تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے!
ٹرمپ کا تھپڑ وہ حملہ تھا جو اس جنگ کے پجاری نے اپنے حلیف، اسرائیل کے اتنے ہی بڑے جنگ کے رسیا وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی ایران کے خلاف ننگی جارحیت کو مزید تقویت بخشنے کیلئے ایران کے تین جوہری اثاثوں کے مراکز پر امریکہ کے تیس ہزار پاؤنڈ وزنی "بنکر بسٹر” بم گراکے دنیا کو پیش کیا !
کٹھ پتلی شہباز شریف، جسے پاکستان کا وزیرِ اعظم کہنا اس منصب سے زیادہ پاکستان کی توہین اور ہتک ہے، اور اس کے ہمنوا اور سرپرستوں کے پاس اب اس کھلی ہوئی بلاجواز امریکی جارحیت کے بعد کیا منہ بچا ہے جو کہہ سکے کہ پاکستان کی کٹھ پتلی کابینہ کا یہ فیصلہ کہ وہ ٹرمپ جیسے امن کے دشمن کو امن کے نوبیل اعزاز کیلئے باضابطہ، سرکاری طور پہ نامزد کرنا درست تھا یا ہے ؟!
شہباز شریف کی ذہانت کا کیا معیار ہے یا وہ ضمیر فروش کابینہ کے وزراء جو اس فیصلہ میں شامل تھے، ان کی ذہنی سطح کس قدر پست ہے، اس کے متعلق تو کچھ کہنا ہی وقت کا ضیاع ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ عاصم منیر کی جو میزبانی کرنے کا شرف ٹرمپ نے حاصل کیا تھا اور جس پر یزید اور اس کا فرعونی ٹولہ یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت اب اس کی حلیف بن چکی تھی ، اس کے دوران ہمارے طالع آزما سے لنچ کی قیمت وصول کرنے کیلئے کیا شرائط یا شرائط نامہ عاصم منیر کے سامنے رکھا گیا تھا جس کے پورے کرنے کا وعدہ اس فرعونِ وقت نے لنچ کی میز پر مذاکرات کے دوران اپنے میزبان سے کیا تھا؟
پاکستان کے سادہ لوح عوام کو جرنیلی ٹولہ کے تابع فرمان ٹی وی چینلز پربقراطوں نے یہ باور کروانے کی کوشش میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے کہ فیلڈ مارشل صاحب کی صدر ٹرمپ کی طرف سے میزبانی کا فیصلہ گھڑی کی چوتھائی میں کیا گیا تھا اور اس کی توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ ٹرمپ فیلڈ مارشل کی ذہانت اور شخصیت کے سحر سے ایسے مرعوب ہوئے کہ انہوں نے فی الفور یہ فیصلہ کیا کہ وہ فیلڈ مارشل صاحب کی ضیافت کا اعزاز حاصل کرنا اپنے لئے بخت کا سکندر ہونے کے برابر سمجھیں گے !
لیکن ہم جیسے کم فہم جنہوں نے اپنی زندگیاں سفارت کے صحرا میں گذاری ہوں جانتے ہیں کہ ایسے فیصلے گھڑی کی چوتھائی میں نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے ہفتوں، اکثر مہینوں کی تگ و دو اور محنت ہوتی ہے اور ہر چیز کی تفصیل پہلے سے طے کرلی جاتی ہے !
تو یہ تو طے ہے کہ ٹرمپ نے وہ لنچ، جس کا مینیو بھی پاکستانی عوام و خواص کیلئے الم نشرح کروادیا گیا، مفت میں تو ہمارے طالع آزما کو نہیں کھلایا۔ ان سے بدلہ میں کچھ مطالبات کئے گئے ہونگے، ایک فہرست پر ان سے سمجھوتہ ہوا ہوگا جس میں سرِ فہرست یہ مطالبہ ہوگا کہ ٹرمپ جیسے جنگ کے رسیا کو پاکستان اپنی طرف سے امن کے نوبیل انعام کیلئے نامزد کرے۔!
ٹرمپ اپنے اس وصف کا تو بذاتِ خود بڑے طنطنہ سے ذکر کرتے ہیں کہ وہ ڈیل میکر ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ڈیل میکر وہ شخص ہوتا ہے جس کی فطرت ایک بنیہ کی ہو یا وہ جو ہمارے پاکستان میں میمن برادری کے متعلق کہاوت ہے کہ وہ ہر سودے میں اپنا دو ٹکے کا فائدہ ضرور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کالج کے زمانے میں ایک لطیفہ سنا تھا کہ ایک میمن کا انتقال ہوا جس کے اعمالنامہ میں اچھائی اور برائی کا تناسب وہ تھا جسے پاکستان میں مروجہ اصطلاح میں ففٹی ففٹی کہا جاتا ہے۔
تو داروغہء جنت نے میمن سے سوال کیا کہ وہ کہاں جانا پسند کرے گا جس کے جواب میں میمن نے کہا، ‘اے بھائی، وہاں بھیجو مجھے جہاں دو ٹکے کا فائدہ ہو!
تو ٹرمپ، جن کی فطرت کا خمیر جنگ و جدال کا ہے، وہ امن کے نوبیل انعام کیلئے برسوں سے کوشاں ہیں، خصوصا” جب سے صدر بارک اوباما کو 2009ء میں امن کا نوبیل دیا گیا تھا اس وقت سے تو شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گیا ہو جب اس خود پسند، اپنے سحر میں مبتلا، شخص نے اپنے آپ کو امن کے نوبیل انعام کا جائز حقدار نہ گردانا ہو!
تو عاصم منیرنے اپنے سامراجی مربی کا یہ مطالبہ تو گھڑی کی چو تھائی میں پورا کردیا کہ اپنی غلام کٹھ پتلی حکومت کو یہ فرمان جاری کیا گیا کہ کابینہ فیصلہ کرے کہ ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کا پورا پاکستان جائز حقدار سمجھتا ہے !
لیکن ٹرمپ نے چوبیس گھنٹے بھی نہیں گذرنے پائے تھے کہ اپنے پاکستانی نمکخواروں اور ذہنی افلاس کے مارے غلاموںکو ان کی اوقات دکھلادی ایران کے جوہری مراکز پر بلاجواز حملہ کرکے !
ایران نے نہ اسرائیل پر کوئی حملہ کیا تھا نہ امریکہ بہادر کے خلاف کوئی لشکر کشی کی لیکن امریکہ اور اسرائیل نے ایران کو بلا کسی اشتعال کے اپنی ننگی جارحیت کا اسی طرح شکار بنایا ہوا ہے جیسے آج سے بائیس سال پہلے عراق پر اس بہانے سے حملہ کیا تھا کہ عراق کے پاس وہ مہلک ہتھیار تھے جن سے وہ دنیا کے امن کو پارہ پارہ کرسکتا تھا۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ عراق کے پاس وہ مہلک ہتھیار تو کیا اپنا جائز دفاع کرنے کیلئے بھی اسلحہ نہیں تھا!
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے شاید ہی کوئی سال ایسا گذرا ہو جب امریکہ یا اس کی طفیلی اور جان سے بڑھکر قیمتی حلیف ریاست، صیہونی اسرائیل، نے کسی ملک پر حملہ نہ کیا ہو، یا اس کے خلاف کھلی ہوئی، بلاجواز، جارحیت نہ کی ہو۔
امریکہ کے صدر، آنجہانی ایرک آئزن ہاور نے 1961ء میں منصب ِ صدارت سے دستبردار ہونے سے پہلے اپنے امریکی عوام کو خبردار کیا تھا کہ’’ ملٹری انڈسٹریل کمپلکس کو اپنے پر حاوی نہ ہونے دینا ورنہ تمہاری جمہوریت خطرہ میں پڑ جائے گی‘‘! لیکن امریکی عوام نے اپنے قائد کی نصیحت کو اسی طرح سے فراموش کردیا جیسے ہمارے عسکری طالع آزماؤں نے بابائے قوم، حضرت قائد اعظم کے اس ارشاد کو حقارت سے رد کردیا جو انہوں نے جرنیلوں سے اپنے جون 1948ء کے خطاب میں فرمایا تھا کہ ’’پالیسی سازی تمہارا کام نہیں ہے بلکہ تمہارا کام صرف اور صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور حکومت کی بنائی ہوئی پالیسی پر عمل کرنے کا ہے‘‘!
پاکستان پر ستر برس سے قابض ملت فروش جرنیل قوم و ملک کو اپنے مفاد کیلئے امریکی سامراج کو بیچتے چلے آئے ہیں جس کے جواب میں امریکہ نے پاکستان کو صرف ٹشو پیپر کی طرح سے استعمال کیا ہے اور جب وقت نکل گیا اور امریکہ کی حاجت پوری ہوگئی تو پاکستان سے ایسے نظریں پھیرلیں جیسے کبھی کی شناسائی نہ ہو !
ہماری اپنی تاریخ میں ہمارے جوہری پروگرام کو ناکام کرنے کیلئے امریکہ نے کیا کچھ نہیں کیا اور کن کن پابندیوں کی زنجیر میں پاکستان کو نہ باندھا گیا۔ وہ تو اللہ غریقِ رحمت کرے محسنِ پاکستان ڈاکٹر قدیر کو کہ انہوں نے تمام تر پابندیوں اور اپنوں کی غلامانہ ذہنیت اور سازشوں کے باوجود پاکستان کو اسلامی دنیا کی واحد جوہری طاقت بنادیا !
آج ایران کے خلاف وہی سازشیں امریکہ اور اسرائیل کررہے ہیں جن سے ہم دوچار رہے تھے۔ ہم پر تو امریکہ کو حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن کیا ضمانت ہے کہ کل امریکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اتنے ہی بڑے دشمن اسرائیل کو نہیں لشکارے گا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے تباہ کرنے کیلئے یہ دونوں دشمنِ پاکستان چڑھ دوڑیں امریکہ کی کھلی یا درپردہ حمایت کے ساتھ؟
اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی ہمارے ملک دشمن اور ملت فروش عسکری طالع آزما چند ارب ڈالر کے عوض پاکستان کے جوہری اثاثے امریکہ کے ہاتھ فروخت کرنے کیلئے سودا کرلیں !
جو طالع آزما اپنی ہوسِ اقتدار کیلئے پاکستان کو دولخت کرچکنے کے مجرم ہیں ان سے مزید ملت فروشی کی توقع کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں ہے۔خدا سے دعا کریں کہ ہوس کے یہ پجاری اور سامراج کے یہ نمکخوار غلام اس مذموم کوشش میں کامیاب نہ ہوں۔ اور اپنی دعا میں ایران کی سلامتی اور اسلامی انقلاب کی پامردی کو شامل کرنا نہ بھولئے گا !
یہ دو قطعات دیکھئے اور ہمیں اجازت دیجئے !
؎کم ظرف کی اوقات کو پہچانتے ہیں
مطلب کیلئے سر پہ بٹھا لیتے ہیں
کم ظرف سمجھتا ہے بڑا ہے اعزاز
شاطر یوں اسے الو بنالیتے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎بخت کا سکندر جو کہہ رہے ہیں عاصم کو
یہ سکندری اس نے ملک بیچ کر پائی؟
طالع آزماؤں کا یہ پرانا شیوہ ہے
حرمتِ وطن بیچی اور کمائی رسوائی!