ہفتہ وار کالمز

ایران پر جنگ ،کیوں ؟

صہیونیوں کو سلام۔ کس سلیقے سے انہوں نے ایران پر جنگ مسلط کی اور کس طرح انہوں نے امریکہ بہادر کو اس میں الجھایا۔ جب ان کے وزیر اعظم نے یہ اندازہ لگا لیا کہ اب ٹرمپ اور خامنائی بہت جلد ایک معاہدے پر پہنچنے والے ہیں ، اس نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اس حملہ کی تیاری کئی سالوں سے ہو رہی تھی۔ سن 2012ء میں وزیر اعظم نے دنیا کو چارٹ کے ذریعہ بتایا کہ ایران چند ہی دنوں میں ایٹمی ہتھیار بنانے والا ہے۔ اس کے بعد سن 2015ء میں ایک اور چارٹ دکھایا جس کے مطابق ایران ایٹم بم بنانے والاتھا چند ہفتوں میں۔ اور پھر 2018ء میں ایسا ہی ایک چارٹ دکھایا۔سچ کیا تھا؟ ایران کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا، اب حملہ کے بعد، انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ایک رکن نے جس نے ایران جا کر خوب کھوج کی تھی، کہا کہ اسے ایران میں کسی ایسی چیز کا پتہ نہیں چلا جس سے ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا شبہ بھی کیا جاسکتا۔ ان باتوں سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ جیسا کہ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ 1996میں امریکہ کو چھ ملکوں کی ایک فہرست دی گئی تھی کہ ان ملکوں میں حکومتیں بدلی جائیں۔ یہ ملک تھے لیبیا، سوڈان،صومالیہ، عراق، شام اور ایران۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ پہلے پانچ ملکوں میںامریکہ نے کیسے جارحانہ حملے کر کے، کبھی تنہا اور کبھی اپنے حلیفوں کے ساتھ، ان ملکوں کو تہس نہس کر دیا اور وہاں کسی جائز حکومت کو نہیں بنے دیا۔ ابھی تک صرف ایران بچا ہوا تھا۔
موجودہ صورت حال میں، امریکہ میں صہیونیوں کے طرف داروں نے سارے ملک میںاحتجاجی مظاہرے کروائے جو ٹرمپ کے خلاف تھے اور اسے بادشاہ قرار دیتے تھے۔اگر ٹرمپ ان کی بات نہ مانتا تو ان مظاہروں کو اور تیز کیا جا سکتا تھا تا کہ ٹرمپ کومجبور کر دیا جائے۔ادھر صہیونیوں کو پاکستان سے خطرہ رہتا ہے کہ یہ اکیلا ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور ان کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ بھارت کو پاکستان سے لڑوانے کے حالات پیدا کیے جائیں۔ اس کے لیے ایک خونی ڈرامہ رچایا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے شہر پہلگام میں معصوم سیاحوںکو ہلاک کیا گیا جسکی ذمہ واری پاکستان پر ڈالی گئی۔ کچھ دنوں بعد بھارت نے پاکستان پرصہیونیوں کے فراہم کردہ ڈرونوں اور اپنے ہوائی جہازوں سے حملہ کروایا، مقصد پاکستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو مارنا تھا۔ اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا پتہ لگانا، اس ڈرامہ کا خاطر خواہ اثر ہوا۔اور دو دن بعد پاکستان نے جوابی کاروائی کی جس میں ہوائی لڑائی میں بھارت کے پانچ یا چھ جنگی جہاز مار گرائے گئے۔ یہ منصوبہ کا حصہ نہیں تھا۔ کیونکہ اس ڈرامہ کا ایک ماحصل تھا وہ یہ کہ پاکستان کے کمانڈر انچیف کو ہیرو بنانا تھا۔ اس میں جان ڈالنے کے لیے انہیں فیلڈ مارشل بنوایا گیا۔ اگرچہ فیلڈ مارشل بننے کے لیے ایک باقاعدہ زمینی جنگ جیتنا شرط ہوتی ہے۔ لیکن کٹھ پتلی حکومت سے یہ اعزاز لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔مودی نے چونکہ اس سازش میں شوق سے حصہ لیا تھا کہ اس کے بدلے میں وہ پاکستان کے ساتھ جو دریائے سندھ پر معاہدہ ہوا تھا اس کو اپنے حق میں بدلوا سکے گا۔ اور کوئی چھوٹے موٹے فائدے امریکہ اور صہیونیوں سے لے گا۔پاکستان کو ایک دکھاوے کی فتح دکھانا بھی منظور تھا۔پاکستانی حقیقت سے بے خبر، فتح کے جشن منانے لگے، اور اسی شوق میں جب بجٹ بنا تو دفاعی بجٹ میں بیس فیصد اضافہ بھی منظور کیا گیا جو کسی صورت بھی پاکستان برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اب پھر کاسہ گدائی ہو گا اور سیاستدان ۔
اب جب سپہ سالار، نئے اعزاز سجاتے امریکہ پہنچے تو افواہیں اڑیں کہ ٹرمپ نے ڈھائی سو سالہ فوج کی سالگرہ منانے میں بلوایا گیا تھا۔ لیکن بعد میںکسی اخبار نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ کہ جنرل صاحب کو اس جشن میں شرکت کے لیے نہیں بلوایا گیا تھا۔ پھر ایک دن ٹرمپ صاحب نے جنرل صاحب کو ظہرانہ کی دعوت دی۔ غالباً ہوا ایسے تھا کہ ہمارے صہیونی بھائیوں نے امریکہ میں اپنے کسی قریبی جنرل سے کہا کہ پاکستانی سپہ سالار کو امریکہ بلوا کر ٹرمپ سے ملوا دیا جائے۔ اس ملاقات میں ٹرمپ صاحب جنرل کو کچھ لالچ دیکر ایران کے خلاف پکا کریں ۔ مثلاً پاکستان امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے دے۔ وغیرہ وغیرہ۔جنرل صاحب کو پاکستان سے دور رکھنے کا ایک اور مقصد ایٹم بم کے بٹن سے دور رکھنا بھی تھا کہ کہیں اسلامی جوش میں آ کروہ کوئی توپ ہی نہ چلا دیں۔آپ نے دیکھی صہیونی بھائیوں کی دور اندیشی اور منصوبہ بندی؟
اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں۔ کہ بھائی، صہیونیوں کو ایران سے کیا بیر ہے؟ اس کے جواب کے لیے ہم اے آئی سے رجوع کرتے ہیں۔در اصل جب تک ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا راج تھا، دونوں ملکوں میں چین کی بانسری بجتی تھی۔ بظاہر نہیں لیکن اندرون پردہ ، دونوں ملکوں میں غیر رسمی تعلقات تھے۔دونوں مغرب کے ساتھ تھے، خصوصاً امریکہ کے ساتھ جب کہ سرد جنگ ہو رہی تھی۔ایران نے صہیونیوں کو تیل بیچا، خاص طور پر جب عربوں نے تیل کی فروخت پرپابندی لگا رکھی تھی۔اور اُن کی کمپنیاں ، جیسے کہ زراعت اور تعمیرات میں ایران میں کام کرتی تھیں۔ کچھ اور بھی وجوہات تھیں۔
1979میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا۔ جس نے ایران کی کایا پلٹ دی۔انقلاب کے رہنما آیت اللہ خمینی صہیونی ریاست کو سامراجی اورناجائز ریاست کہتے تھے۔1989تک، ایران نے تعلقات میں انقلابی تبدیلی دیکھی۔نئی مذہبی حکومت نے صہیونیوں کی ریاست سے تمام تعلقات منقطع کر لیے۔اسرائیل کے سفارت کاروں کا نکال دیا۔ اور طہران میں ان کے سفارت خانے کو فلسطینیوں کے ادارے کو دے دیا۔
ایران نے صہیونیوں کے خلاف جنگجو گروہوں کی حمایت کرنی شروع کر دی۔جن میں لبنان کا حزب اللہ شامل تھا جو 1982 کے اسرائیلی حملہ کے بعد معرض وجود میں آیا۔
1990کی دہائی میں، ایران نے صہیونیوں کے خلاف نعرہ بازی بڑھا دی۔اس کے قائدین نے اس ریاست کو فنا کرنے کی بات شروع کر دی۔ایران نے حماس اور حزب اللہ کو مالی اور اسلحہ سے مدد دینی شروع کی۔(ایسا لگتا ہے کہ اے آئی کا تعصب صہیونیوں کے حق میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؟) جب ایران نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو صہیونیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔انہوں نے ایران کے خلاف بین الاقوامی سطح پر احتجاج شروع کر دیا۔ اورصہیونی ریاست نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ ان پر اور صہیونیوں پر حملوں کے پیچھے تھا۔جیسے کہ 1994میں ارجنٹینامیں صہیونی سفارت خانہ پر بم کا دھماکا جس میں 29 سفارت کار مارے گئے اور سفارت خانہ تباہ کر دیا گیا۔ ارجنٹینا اور صہیونی ریاست نے اس حملہ کا ذمہ وار ایران اور حزب اللہ کو قرار دیا۔
سن 2010 سے ابتک، ایک پس پردہ جنگ اور ایٹمی تنائو چل رہا ہے۔ صہیونیوں نے ایران کے ایٹمی کارخانوں پر سائبر جنگ کی (مثلاً امریکہ میں تیار کیا گیا سٹکس نیٹ وائرس کو ایران کی ایٹمی فیکٹریوں میں بھیجا گیا۔ ایرانیوں نے صہیونیوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے انکے نیوکلیئر سائنسدانوں کو شہید کیا۔دوسری طرف کہا گیا کہ ایران نے لبنان، شام، عراق اور غزہ میں جنگجو گروہوں کو پروان چڑھایا۔اور 2020 میں جب ابرہیم معاہدہ ہوا جس میں بہت سی عرب ریاستوں نے صہیونیوں کی ریاست کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا فیصلہ کیا تو ایران نے اس کی مخالفت کی۔
آج کل ایران اور صہیونی ریاست میں جو اختلافات ہیں ان کی وجوہات میں شامل ہیں: ایران کا ایٹمی پروگرام، صہیونیوں کے خلاف لڑاکا گروہوں کی مدد، علاقہ کی چوہدراہٹ، اور بالواسطہ جنگ جو سائبر حملوں، خفیہ سراغرسانی، اور خطہ کے جنگ بازوں کی مدد سے کی جاتی ہے۔
ایران اور صہیونیوں کی تازہ ترین جنگ میں جو شروع صہیونیوں نے کی ، اس میں دونوں ملکوں کی برسوں کی تیاری کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ ایران کو معلوم تھا کہ اسے اگر صہیو نیوں کو نقصان پہنچانا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہو گا اور وہ ہے راکٹ، ہر قسم اور طاقت کے راکٹ۔ صہیونیوں نے اپنی جنگی تیاری سے زیادہ، ایران میں اپنے جاسوسوں اورمقامی ڈیا سپورا کی مدد سے نہ صرف ایرانی ایٹمی کارخانوں کا پتہ رکھا ، اس کے ساتھ جو سب سے اوپر کی قیادت تھی ان کے تازہ ترین ٹھکانوں کی خبر بھی، جو انکے موبائل فون سے معلوم کی جاتی تھی۔ انہی تیاریوں کا نتیجہ تھا کہ صہیونیوں نے ایران کے اندر تک اپنے ڈرون چھپا رکے تھے اور ان کو استعمال کر کے ایرانی فوجی قیادت اور سائینسدانوں کو باآسانی شہید کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے تو کہا ہے کہ ہمیں پتہ ہے کہ ایرانی صدر بھی کہاں چھپے ہیں لیکن ابھی ہم انہیں مارنا نہیں چاہتے۔ ہور چوپو!
یہ حیرت کی بات ہے کہ ایران جہاں شا ہ کے زمانے میں، ایرانی خفیہ پولیس نے ہر گھر اپنے مخبر رکھے ہوئے تھے، ملائوں کی حکومت نے اس نظام سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب صہیونی گھر بیٹھے ان کے تمام مواصلات کو سن لیتے ہیں، جس سے انہیں ہر حرکت اور فیصلہ کی متواتر خبریں ملتی رہتی ہیں۔اب کہیں آکر صدر خامنائی نے برقی مواصلات کو خیر باد کہا ہے۔
صہیونیوں نے جب ایران پر حملہ کیا تو انہیں یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح امریکہ اس جنگ میں ان کا بھر پور ساتھ دے گا۔ امریکہ کے آٹھ فوجی اڈے مشرق وسطیٰ کے آٹھ ملکوں میں چالیس سے پچاس ہزار فوجیوں کے ساتھ، جنگی ساز و سامان سے آراستہ تیار بیٹھے ہیں ۔ اور مغرب میں سمندر پر امریکی جنگی جہاز راکٹ اور بموں سے لدے ہوئے صہیونیوں کی مدد کے لیے تیار ہی نہیں بلکہ مدد کر بھی رہے ہیں۔ یہ اقرار صہیونی وزیر اعظم نے خود کیا ۔ یہ تو سب جان گئے ہیں کہ ایرانی راکٹ جب اردن کے اوپر سے گذرتے ہیں تو وہاں سے انہیں روکا جاتا ہے۔ پھر بھی کچھ نکل جاتے ہیں۔ ناچیز کا خیال ہے کہ وہ سلطنت اردن نہیں بلکہ وہاں بیٹھے امریکی یہ کام کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ شروع ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں لیکن ٹرمپ نے ایران پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ اس کی امداد زیادہ تر صہیونی سرکار کو جنگی سامان دینے اور اس پر برسنے والے راکٹوں کو روکنے تک محدود ہے۔ ادھر صہیونی چاہتے ہیں کہ امریکہ ایران کے ایٹمی کارخانوں پر اپنے بمبار طیارے بھیجے جو چھ ہزار پونڈ اور اس سے بھی زیادہ وزن کے بنکر بسٹر بم مارے اور ایرانیوں کے ایٹمی پروگرام کا بھٹہ ہی بٹھا دے۔ لیکن ٹرمپ بہادر ابھی اس کام پر تیار نہیں ہے۔ امریکی صدر کو یہ غصہ تو ہو گا کہ جب وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے ہی والا تھا تو صہیونیوں نے ایران پر کیوں حملہ کیا؟ خیر امریکی صدر بے چارے کو ایسا غصہ کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اس لیے اس نے ضبط کیا اور کہا کہ وہ اس معاملہ پر غور کرر ہا ہے۔ اور جلد ہی فیصلہ کرے گا۔ اب سیدھی سی بات ہے کہ امریکہ قرضوں کے انبار میں دھنستا چلا جا رہاہے۔ ابھی تک اس پر ویت نام ، افغانستان، عراق، اور دوسری جنگوں کے قرضے ادا نہیں ہوئے۔ اب وہ ایک نا قابل تسخیر جنگ کا پنگا کیوں لے؟ ادھر صہیونیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ جو شرمناک سلوک کیا ہے اس سے ساری دنیا بشمول امریکنوں کے لوگوں کو ان سے ہمدردی نہیں رہی۔ اس لیے امریکی عوام یہ جنگ نہیں چاہتے۔یہاں تک کہ امریکی کانگریس میں قرار داد پیش کی جا رہی ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف جنگ میں نہ کودے۔یاد رہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کرناہی ہے تو اسے کانگریس کی اجازت لینی پڑے گی۔ بالآخر کانگریس وہ اجازت تو دے دی گی کیونکہ صہیونی اثر و رسوخ ہے، لیکن ٹرمپ قوم کا مزاج بھی سمجھتا ہے۔
ایران نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ ایٹم بم نہیں بنانا چاہتا۔ اور وہ امریکہ کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔اب صہیونیوں کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب یہ ثبوت ملے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنارہا ہے تووہ پھر ایران پر اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے بھی حملہ کرے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔لیکن اس سے پہلے، ایران پر جان لیوا حملے کوئی نہیں پسند کرتا ۔سنا ہے کہ صہیونی کہیں سے شہنشاہ رضا پہلوی کے بیٹے کو ڈھونڈ لائے ہیں اور اس کو تخت پر بٹھانا چاہتے ہیں، لیکن راقم کا خیال ہے کہ ایرانی یہ برداشت نہیں کریں گے۔ اس کی جگہ کسی کالے چور کو بٹھا دیں وہ چل جائے گا؟۔
ایک آخری بات۔ ہم شاید یہ نہیں جانتے کہ گلف کی ریاستوں کے پاس کسی دریا کا وجود نہیں، وہ
سمند رکے پانی کو نتھار کراس کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر صہیونی حملے سے یا ایران پر براہ راست ایٹمی حملہ سے سمندرمیں ایٹمی توانائی کی آلودگی ہو گئی تو قطر کے وزیر اعظم کا کہنا ہے، کہ قطر، یو اے ای ، اور اس علاقہ کی دوسری ریاستیں ، تین دن کے بعد پانی کے بغیر گذر نہیں کر سکیں گی۔ ممکن ہے کہ صدر ٹرمپ نے جب چند روز پہلے سعودیہ ، قطر وغیرہ کا دورہ کیا تو شاید اسی مسئلہ پر بات ہوئی ہو گی؟یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ قطر نے ، بوئینگ کے جہاز کی شکل میں دنیا کی سب سے بڑی رشوت ٹرمپ کو دی۔کیا یہی وجہ تھی؟جو لوگ ان خلیجی ریاستوں میں مہنگی جائیدادیں خرید رہے ہیں، ان کو پانی کی مخدوش صورت حال یاد رکھنا چاہیے۔ممکن ہے کہ کل کلاں یہ جائیدادیں دو کوڑی کی نہ رہیں؟۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button