قربانی

واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت ابراہیم کو خواب میں حکم ہوا کہ وہ اپنی سب سے عزیز چیز کی قربانی دیں، یہ خواب تکرار کے ساتھ تین دن تک آیا اور بلاآخر حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسمعیلؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا، بیٹے کو خواب سنایا اور انہوں نے کہا کہ رب کا حکم ہے تو اس کی تعمیل کیجیے، قربان گاہ کا رخ کیا اسمعیل کی آنکھوں پر پٹی باندی گئی اور گلے پر چھری چلنے ہی والی تھی کہ فرشتے جنت سے ایک دُنبہ لے کر آئے دُنبہ ذبح ہو گیا اور اسمعیل ذبح ہونے سے بچ گئے قربانی قبول ہوئی، کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ بڑے بیٹے کو قربان کرنے کی ایک رسم تھی اور اسی رسم کے اتباع میں اسمعیل کو ذبح کرنے کا فیصلہ ہوا، یہودیوں کا اختلاف ہے کہ قربانی اسمعیل کی نہیں بلکہ اسحق کی ہوئی مگر مسلمان اسے اسمعیل کی قربانی ہی مانتے ہیں، اس واقعہ سے ایک طرف خواب کو معتبر بنا دیا گیا تو دوسری طرف جنت سے دُنبہ کا آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ جنت میں بھی جانوروں کی موجودگی ہے اس سے پیشتر جنت سے کم سے کم دو اور چیزوں کا زمین پر آنا ثابت ہے ایک حجر اسود اور دوسرے من و سلویٰ من و سلویٰ کی وضاحت ہمارے دیسی علمائے کرام نہ کر سکے انہوں نے کچھ ایسی تصویر کھینچی جس سے ہندوستان کی دیسی مسلم آبادی یہ سمجھی کہ من و سلویٰ شائد بریانی، مرغ مسلم، اور متنجن قسم کی پکی پکائی قابیں تھیں جو بنی اسرائیل پر اتاری گئیں مگر کچھ وکھرے ٹائپ کے علماء نے بتایا کہ من و سلویٰ دراصل پرندے تھے ، اس انکشاف پر بہت سے سوال اٹھ گئے اور ان میں سب سے اہم یہ تھا کہ کیا سر زمین فلسطین کے نخلستان پرندوں سے خالی تھے ، بہر حال جنت کا دُنبہ، حجرِ اسود اور من و سلویٰ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنت میں بھی کم و بیش وہ چیزیں ہیں جو اس دنیا میں بھی ہیں، کتابوں میں لکھا ہے اسمعیل کی قربانی کے بعد اس علاقے میں مزید اس رسم کے جاری رہنے کے آثار نہیں ملتے، تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اسمعیل کی علامتی قربانی کے بعد یہ رسم موقوف ہو گئی، مورخین لکھتے ہیں کہ قربانی جاری رہی جانوروں کی قربانی کی جاتی تھی، حضرت مطلب نے کاہنہ کے مشورے پر اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کے لئے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی،طلوع اسلام کے بعد بھی قربانی کا سلسلہ جاری رہا، حج میں وہ تمام چیزیں شامل کر لی گئی تو تین ہزار قبل ابراہیم کے خاندان کو پیش آئی تھی کار لائل اسے تاریخ کو DRAMATIZE ہونا کہتا ہے، اور 14سو سال سے حج ویسے ہی ادا کیا جا رہاہے جیسا نبی کریم ﷺنے کر کے دکھا دیا، اس میں قربانی بھی شامل ہے، فتح مکہ کے بعد پہلے حج کے موقع پر مکہ میں صرف تین قربانیاں کی گئیں کچھ روایات کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق کا اونٹ حضرت علی نے ذبح کیا تھا سولہ سو سالوں میں قربانی صرف حاجیوں پر ہی فرض رہی اور یہ حج کا اہم کن تسلیم کیا گیا، مگر عام مسلمان پر قربانی کا فرض ہونا کہیں ثابت نہیں، پچھلے سولہ سو سالہ تاریخ میں عام مسلمان نے کبھی قربانی کے بارے میں سوچا بھی نہیں ، ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں بھی عام طور پر قربانی کا ذکر نہیں ملتا، پاکستان میں 1960 کے بعد اخبارات میں کچھ زمینداروں کی تصاویر شائع ہوئیں ان میں زمینداروں کو قربانی کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور اس منظر کو دیکھنے کے لئے سارا گاؤں امڈ آیا تھا، پھر یہ وبا سارے پنجاب اور پھر سندھ میں پھیل گئی، پنجاب کے مالدار لوگ سابق صوبے سرحد اور حالیہ پختون خواہ سے دُنبے منگواتے تھے، ضیا کے زمانے میں جب نام نہاد افغان جہاد جاری تھا تو افغانی اپنے مال مویشی خیبر پختونخواہ لے آئے عیدالاضحی کا موقع تھا لوگوں کو یہ مویشی سستے داموں دستیاب ہوئے اور 1980 میں پاکستان میں ریکارڈ قربانیاں کی گئیں، تب سے یہ کاروبار بن گیا دیہاتوں میں لوگ جانور پالتے اور عید قربان پر شہروں کی مویشی منڈیوں میں بیچ دیا کرتے اب عید قرباں ایک MEAT FESTIVAL بن چکی ہے، عبادت تو خیر عام مسلمان کے لئے یہ کبھی تھی نہیں اب یہ ایک STATUS SYMBOL کے طور پر کی جاتی ہے ۔یہ ضرورت سے زیادہ دکھاوا ہے جس میں ایک غریب انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی تڑپ کے رہ جاتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا ایلیٹ طبقہ اس بے مصرف ACTIVITY سے بہت دور ہے وہ زیادہ سے زیادہ عید پر نماز پڑھنے نکلتا ہے اور بس اس کا اسلام اور اس سے وابستہ ان رسموں سے کوئی تعلق نہیں ایلیٹ کلاس جس میں بیورو کریسی، سیاست دان، زمیندار وڈیرے بڑے ڈاکٹرز، وغیرہ شامل ہیں شائد ان کو قرآن کی دو آیات بھی یاد نہ ہوں میں ایک بار پھر دھرا رہا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد اس ملک کے بد معاش مولوی نے ایک نیا سیاسی اور تجارتی اسلام ایجاد کیا، اس نے مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹا، تبلیغی جماعت نے مسلمانوں کو حور اور جنت کا جھانسہ دیا جماعت اسلامی یہ بتاتی رہی کہ اسلام خطرے میں ہے، سنی جماعت نے خانہ کعبہ اور روضہء رسول کے ماڈل بناکر جھوٹے حج کرا دیئے اہل حدیث نے جھوٹی احادیث گھڑیں اور کرونا کا علاج دعاؤں سے کیا جاہل اماموں نے دیہاتوں کے عوام کو پولیو کے قطرے پلانے کو حرام بنا دیا، کرونا VACCINE کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کیا، یہ چندہ مافیا بھکاریوں کو بیرون ملک بھیجتی ہے، اسی مافیا نے قربانی کو سنت موکدہ سے فرض بنا دیا ہے اور اب گلی گلی قربانی ہوتی ہے گلی گلی جانوروں کا قتل عام ہوتا ہے اس نظارے کو بچہ بچہ دیکھتا ہے اور اسے خون بہانے کی تربیت مفت میں مل جاتی ہے اور دل کٹھور ہو جاتے ہیں، ایسا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا، اسی سال مراکش کے بادشاہ نے حکم صادر کیا ہے کہ معاشی حالات اور موسمی تبدیلیوں کے پیش نظر قربانی نہ کی جائے حکومت عوام اور بادشاہ کی جانب سے دو بھیڑوں کی علامتی قربانی کر دے گی، سوال یہ ہے کہ کیا بادشاہ لوگوں کو ایک سنت موکدہ کی پیروی سے روک سکتا ہے کیا معاشی اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کی حکومت ایسا حکم دے سکتی ہے ، ہاں ایسا ہو سکتا ہے اگر حکومت کی رٹ قائم ہو اور بہت وضاحت سے یہ بات کہہ دی جائے کہ ہر مسلمان پر قربانی جائز نہیں اور اس ملک کے عوام پر تو قربانی بالکل بھی فرض نہیں جس کا معاشی نظام آئی ایم ایف چلا رہا ہو ، جس ملک کے ہر پیدا ہونے والے بچے پر بھی دو لاکھ کا قرض ہو وہاں قربانی کیسے جائز ہو سکتی ہے اور حرام مال کمانے والوں کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ اپنے علاقے کے سفید پوشوں کا مذاق اڑائیں اور ان کی عزت نفس کو اپنے پاؤں کے نیچے روند سکیں، حکومت سفید پوش کو اس ذہنی اذیت سے بچانے کے لئے یہ کر سکتی ہے کہ گلی گلی جانوروں کے برسر عام قتل پر پابندی لگا دے، قربانی کرنے والوں کو پابند کر دے کہ وہ یہ تماشا بر سر عام نہیں کر سکتے۔
فتنہ پرور علما نے اُمہ اُمہ کا شور مچایا ہوا ہے ان کو معلوم نہیں ہے کہ NATIONALISM اُمہ کو دو صدی پہلے ہی نگل چکا، اب نہ امت نہ اُمہ ، ہر ملک کا اپنا اپنا اسلام ہے، اور ہر ملک کا اسلام دوسرے ملک کے اسلام سے مختلف ہے، سعودی عرب، مصر، مراکش، ایران، یا کوئی اور ملک ہو سب کا اسلام الگ الگ بھارتی مسلمان بھارت میں SECULARISM مانگتے ہیں،اس میں بھارتی مولوی کا مفاد ہے، پاکستانی ملا پاکستان میں اسلامی نظام مانگتا ہے وہ نظام جو کبھی برپا ہی نہیں ہوا تو ہر ملک کا قربانی کا نظریہ بھی الگ الگ، بھارت میں مسلمان قربانی نہیں کرتے، مشرق وسطی میں بھی ہر گھر میں قربانی نہیں ہوتی ، عراق والے قربانی نہیں کرتے ، شام والے کرتے ہیں مگر پاکستان میں بہیمانہ طور پر جو گوشت کا تہوار منایا جاتا ہے ویسا دنیا بھر میں کہیں نہیں ہوتا وہ اس لئے کہ بد معاش مولوی نے پہلے اس کو سنتِ ابراہیمی بنادیا اور بھر لوگوں کا برین واش کرکے قربانی کو فرض بنادیا اس فرض کو اپر مڈل کلاس طبقہ اپنے تفاخر کے لئے تہوار کے طور پر مناتا ہے میڈیا اس کو پروموٹ کرتا ہے میرے نزدیک یہ ایک ECONOMIC ACTIVITY ہے جس میں اربوں کا کاروبار ہوتا ہے لوگوں کو کاروبار میسر آجاتا ہے، اس میں مویشی منڈی کا انتظام، جانوروں کی غذا کی فراہمی ، ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہے، میں معاشی سرگرمی کی حد تک اس تہوار کی حمائیت کر سکتا ہوں جہاں تک عبادت کا تعلق ہے یہ بد معاش مولوی کی شعبدہ بازی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں، یاد رہے کہ رسول ﷺنے صرف ایک حج کیا اور ایک قربانی ،عہد نبوی میں اکثر زائرین قربانی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔