ہفتہ وار کالمز

نوسربازوں کی جاگیر سیاست !

جاہل کی یہ پہچان ہے کہ وہ موقع محل دیکھے بغیر اپنا منہ کھولتا ہے اور اس کے منہ سے خرافات نکلتی ہیں جنہیں وہ قولِ دانش سمجھتا ہے۔اور شاطر، نوسرباز، فریبی اور منافق کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر موقع محل کو اپنے فائدہ کیلئے اپنے حق میں ڈھالنا چاہتا ہے۔
پاکستانی قوم اور ملک کی سب سے بڑی اور کھلی ہوئی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ شخص جس کی دنیا میں پہچان ایک شاطر دھوکہ باز اور ڈکیت کی ہے دوسری بار اس ملک کا صدرِ مملکت ہے اور قوم کے سینے پر مونگ دَل رہا ہے صرف اسلئے کہ اس کے وردی پوش سہولت کار اور سرپرستوں کو اس سے زیادہ موزوں اور کوئی فرد پاکستان میں ایسا نہیں مل سکتا جسے وہ اپنا اُلو سیدھا کرنے کیلئے اور پاکستان کو اپنی ہوس کا یرغمالی بنائے رکھنے کیلئے استعمال کرسکتے ہوں۔
تو زرداری، جو اوپر بیان کردہ دونوں تعریفوں پر پورا اترتا ہے اپنے زعم میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی میزبانی کر رہا تھا جس کے دوران اس نے یہ فریبی بیان دیا ، نوجوان کھلاڑیوں سے بات کرتے ہوئے، کہ سیاست "ہم پر چھوڑ دیں” کیونکہ بقول اس نوسرباز کے، اس نے سیاست میں درک حاصل کی ہے چودہ برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹ کر!
ژیتین ٹی-20 میچز کھیلے جاچکے ہیں اور پاکستان کے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں نے تینوں میچ جیت لئے ہیں۔
پاکستانی کرکٹ کے متعلق ایک عرصے سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم سیاست کا شکار ہے اور اگر یہ بیانیہ درست بھی ہے تو سیاست کھیل میں، خصوصا” اس کھیل، یعنی کرکٹ، میں سیاست کا ٹیکہ لگانے والے وہی یزیدی جرنیل ہیں جو پاکستان کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں اور ریاست کے دیگر شعبوں کی طرح انہوں نے کرکٹ کو بھی اپنے ایک مہرے کی تحویل میں دے دیا ہے۔
یہ مہرہ جسے ملک پر عاصم منیر نے مسلط کیا ہے اس کا سسرالی رشتہ دار محسن نقوی ہے جو پاکستانی ریاست اور سیاست کے افق پر اچانک پردوں سے نکل کر حاوی ہوا اور ایسا ہوا کہ پہلے تو اسے، عمران کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جو عبوری حکومتیں بنائی گئی تھیں ان میں یہ فوج کا بغل بچہ پنجاب کا نگراں وزیر اعلیٰ بنا پھر گذشتہ برس فروری کے عام انتخابات کے نتائج عاصم منیر کے استبدادی ٹولہ نے راتوں رات بدلنے کے بعد جن کٹھ پتلیوں کو اقتدار سونپا تو اس اٹھائی گیرے کو نہ صرف ملک کا وزیرِ داخلہ بنایا گیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی اس کی تحویل میں دے دیا گیا تاکہ یہ کرکٹ کا بیڑا بھی غرق کرسکے !
محسن نقوی، جورو کے بھائی کے بارے میں پاکستان میں یہ عام مشہور ہے کہ اصل وزیرِ اعظم تو یہ بغل بچہ ہی ہے بوٹ پالشیا شہباز شریف تو صرف دنیا دکھانے کیلئے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھادیا گیا ہے۔ اور یہ حقیقت شہباز بھی جانتا ہے اسی لئے وہ بہتی گنگا میں خوب خوب ہی نہارہا ہے۔ جتنے غیر ملکی دورے کرسکتا ہے کر رہا ہے۔ میاں، چار دن کی چاندنی ہے جتنے مزے کرسکو کرلو، جتنا پاکستان کو لوٹنا ہے لوٹ لو۔ تمہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے اسلئے کہ یزید عاصم منیر نے تمہیں اپنی سہولت کیلئے وزیرِ اعظم کے منصب پر رکھا ہوا ہے۔ دیکھو نا، اسے فیلڈ مارشل بننا تھا جس کیلئے اس نے تمہیں اور کابینہ کے دوسرے کٹھ پتلی وزراء کو استعمال کیا اور اپنا الو سیدھا کرلیا!
تو بغل بچے محسن نقوی کی قیادت میں وزارتِ داخلہ کی کارکردگی کی یہ زبوں حالی ہے کہ دہشت گرد دندناتے ہوئے پھر رہے ہیں لیکن کس کی مجال ہے کہ انہیں روک سکے اور ان کی دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے۔
یزیدی جرنیلوں کیلئے ملک میں دہشت گردی کی فضا کا برقرار رہنا یونہی ضروری ہے جیسے بھارت کے ساتھ حالتِ جنگ ضروری ہے۔ مودی بھی یزیدی ہے لہٰذا اس کا جنگی جنون ہمارے یزیدیوں کے ایجنڈا کی تکمیل میں پوری طرح سے مددگار ثابت ہورہا ہے۔ جرنیل قوم کو ملی ترانوں اور نغموں کی افیم مسلسل دے رہے ہیں تاکہ ان کی فرعونیت کا سکہ چلتا رہے۔
تو محسن نقوی جتنا ناکام وزارتِ داخلہ میں ہے اتنا ہی ناکارہ کرکٹ بورڈ کی سربراہی میں ثابت ہورہا ہے لیکن مفسد ہے اور مفسد یزیدیوں کا نمائندہ ہے لہٰذا پاکستانی کرکٹ بھی اسی طرح اس کی یرغمالی ہے جیسے ملک کا امن و امان !
پاکستان کی بدقسمتی کی اس سے زیادہ کیا انتہا ممکن تھی کہ یزیدی ٹولے اور اس کے چھٹ بھیوں کے علاوہ وہ نوسرباز جو ملک کا صدر ہے وہ اس بَلا کا مفسد اور شاطر ہے کہ یہ یزیدی اور ان کے بغل بچے، محسن نقوی جیسے، اس کے سامنے طفلِ مکتب ہیں۔
سو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے شاہینوں کی بھی قسمت پھوٹی تھی کہ یہ رسوائے زمانہ نوسرباز ان کو شاباش دینے کے بہانے سے ان سے مخاطب ہوا اور اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بجائے اسکے کہ یہ ان کی پیٹھ ٹھونکتا اور ان کی شاندار کارکردگی پر انہیں مبارکباد دیتا یہ انہیں سیاست کا سبق دینے بیٹھ گیا۔
کرکٹ میں سیاست کا زہر داخل کرنے والا وہ مسمسا محسن نقوی ہے، جورو کا بھائی جو ہر قانون اور دستور کی گرفت سے بالا ہے لیکن زرداری کی مجال نہیں کہ وہ اپنے سہولت کار کے گماشتے پر انگلی اُٹھا سکے۔ اس کے بجائےیہ بدبخت ان جوانوں سے کہہ رہا ہے کہ تم سیاست نہ کرو اسلئے کہ سیاست تو ہماری جاگیر ہے جس کیلئے، اس کے بقول، اس ڈکیت نے چودہ برس جیل میں کاٹے ہیں!
چودہ برس کی قربانی کا دعوی بھی اتنا ہی فریب آلودہ ہے جتنا اس نوسرباز کا داغدار اور میلا کردار۔ دنیا جانتی ہے کہ اس ڈکیت کو جیل میں برائے نام ہی رکھا گیا تھا ورنہ اس کی عیاشی کیلئے جیل تو محض ایک پردہ تھا، ایک چلمن تھی، جس کی آڑ میں یہ بدبخت دادِ عیش دے رہا تھا۔
ہم جانتے ہیں، اس سندھی افسر کا نام بلکہ خاندان بھی جانتے ہیں جواس زرداری کی جیل یاترا کے وقت سندھ کا سیکریٹری داخلہ تھا، جسے بعد میں، بے نظیر کی وزارتِ عظمی کے دور میں، این ڈی ایف سی کا چیرمین بنادیا گیا اور اس کی تقرری سے زرداری نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔
اس بدذات کی جیل یاترا میں سہولتوں کا یہ عالم تھا کہ اسے جب دادِ عیش دینی ہوتی تھی یہ بیمار بن جاتا تھا اور اسے کراچی کے سول ہسپتال منتقل کردیا جاتا تھا جہاں اوپر کی منزل تمام تر اس کیلئے وقف رکھی جاتی تھی تاکہ یہ اپنی دوستوں کو وہاں مدعو کرسکے۔
ویسے بھی اسے ہر رات جیل سے 70 کلفٹن لیجایا جاتا تھا تاکہ اپنی بیگم، بے نظیر کے ساتھ رات گزارسکے۔ اس کی جیل یاترا کے دوران ہی اس کی دوسری بیٹی پیدا ہوئی تھی جس پر لوگوں نے بے نظیر کے کردار کے بارے میں کیا کیا خرافات پھیلائی تھیں۔ ان خرافات کو تشہیر دینے والوں میں رائے ونڈ کے جاتی عمرہ کا برائے نام شریف خاندان پیش پیش تھا۔
تو اس "بیش بہا” قربانی کے بل بوتے پر یہ رسوائے زمانہ نوسرباز یہ چاہتا ہےکہ پاکستانی سیاست کو اسکے، اس کے موجودہ حلیف شریف برادرران اور نواز کی بلیک میلر بیٹی، مریم، کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تاکہ یہ اپنی من مانی کرتے رہیں، یزیدی جرنیلوں کے گماشتے اور سہولت کار بنے رہیں اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہیں، گدھ کی مانند پاکستان کے جسد کو نوچتے رہیں اور ہڈیوں کے سوا کچھ نہ چھوڑیں۔
عمران خان کی سیاست کا محور اور مرکز یہی تو ہے کہ پاکستان کو ان نوسربازوں سے رہائی دلوائی جائے اور ان کے سرپرست یزیدیوں کو ان کی بیرکوں میں واپسی کا رستہ دکھایا جائے تاکہ پاکستان چوروں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے اور ملک پر جو فسطائیت جرنیلی مافیا نے مسلط کی ہوئی ہے اس کی سیاہی کے بادلوں سے جمہوریت کی صبح کو پاکستان کے افق پر طلوع ہونے کا راستہ فراہم کیا جائے۔
یہ زرداری، نواز اور اس کا چور برادرشہباز اور بلیک میلر دختر، مریم یہ آزار ہیں جو پاکستان کے بدن سے کوڑھ کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ اور ان سے بدتر وہ شاطر جرنیلی ٹولہ ہے جو سمجھتا ہے کہ پاکستان تا ابد اس کی جاگیر قرار دیا جا چکا ہے کہ وہ ہر طرح اسے لوٹیں، اسے اپنی ہوس کیلئے گئو ماتا کی طرح استعمال کریں اور پاکستان کے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھیں۔
یہ موروثی سیاست کے ہرکارے اور ان کے جرنیلی آقا اسی لئے تو عمران کے جانی دشمن ہیں کہ وہ پاکستان کو ان نوسربازوں ،چوروں اور ڈاکوؤں کے شکنجہ سے آزاد کروانا چاہتا ہے ۔ یہ ملت فروش ٹولہ ملت کی آزادی کے دام کھرے کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اس کے گھناؤنے کردار کی سب سے نمایاں بات اس کی احسان فراموشی اور محسن کشی ہے۔
یہ نہ پاکستان کو قائم کرنے والے بانیانِ پاکستان کا احسان مانتے ہیں نہ پاکستان کو جوہری طاقت بنانے والے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا احسان گر دانتے ہیں۔ مرحوم ڈاکٹر قدیرخان کو تاحیات گھر میں نظربند رکھنے والے یہ بدبخت ملت فروش جرنیل ہی تو تھے۔ وہ رنگیلا پرویز مشرف، جو ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرا، وہ تو اتنا بڑا ملت فروش تھا کہ ڈاکٹر قدیر خان کو اپنے امریکی آقاؤں کے حوالے کرنے کیلئے اس نے سب تیاری کی ہوئی تھی۔
ابھی 28 مئی کو جرنیلی ٹولہ نے بڑی شان سے یومِ تکبیر منایا جو اس دن کی یاد دلاتا ہے جب، 1998 ء کو پاکستان نے ڈاکٹر قدیر کی سربراہی میں اپنے جوہری بم کا دھماکہ کیا تھا۔ ہر طرح کے ملی نغمے اور ترانے گائے گئے لیکن ڈاکٹر قدیر کا نام تک نہیں لیا گیا جن کی کاوشوں سے پاکستان جوہری طاقت بنا تھا۔
احسان فراموشی کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہوسکتی ہےکہ ڈاکٹر قدیر خان کے لواحقین کو آج بھی ستایا اور ہراساں کیا جارہا ہے۔ ان کی بیٹی نے روتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے غریبوں کے علاج کیلئے جو ہسپتال لاہور میں بنایا تھا اس پر بھی پنجاب کی رانی، مریم، کے غنڈوں نے قبضہ کرلیا ہے۔
یہ ہے وہ داغدار سیاست جس کا درس نوسرباز زرداری پاکستانی کرکٹ کے شاہینوں کو دے رہا تھا۔ اور یہی کردار اس کے وردی پوش سرپرست یزیدی جرنیلی ٹولہ کا بھی ہے جو عمران کے خوف سے لرزتے رہتے ہیں ۔
ہمیں اجازت دیجئے اس قطعہ کے ساتھ:؎
خان دو ایسے ہیں خائف ہیں یزیدی جن سے خاص
ایک تو عمران ہے اور دوسرےعبدالقدیر
دونوں محسن ہیں وطن کے اپنے اپنے طور سے
جبکہ ملت دشمنی میں ہیں یزیدی بینظیر !!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button