ہفتہ وار کالمز

پاکستان میں سچ بولنا اب ایک گناہ بن گیا ہے، تازہ ترین مثال مولانا طارق جمیل کے خلاف مہم!

ٹرین کی ایک پوری بوگی بک کی گئی تھی اور گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کراچی کی طرف سے پچاس سے زیادہ طلباء آل پاکستان ٹور پر جارہے تھے۔ کہتے ہیں ایک زمانے میں کچھ لڑکے تو اس کالج میں داخلہ ہی صرف اس لئے لیتے تھے کہ اس کا آل پاکستان ٹور بہت دلچسپ ہوا کرتا تھا۔ ہم بھی شاید بیس ایک سال کے رہے ہونگے جب کالج کے اس ٹور میں روانہ ہوئے تھے۔ یہ کراچی سے شروع ہو کر پشاور اور پھر واپس کراچی ختم ہوتا تھا۔ سارے راستے بوگی میں ایک ہنگامہ، شور شرابا اور شرارتیں ہوتی رہتی تھیں۔ بعض اوقات تو سٹوڈنٹس ٹیچرز کے بھی قابو میں نہیں آتے تھے۔ لاہور اگلا بڑا اسٹیشن تھا جہاں پر ٹرین نے رکنا تھا۔ اس سے پہلے رائے ونڈ آنے سے قبل ایک اسٹیشن پر ٹرین رکی تو پلیٹ فارم پر پہلے سے تیار تبلیغ کرنے والے مولویوں کی ایک بڑی تعداد ساری بوگیوں میں چڑھ آئی اور کچھ دس بارہ لوگ کاندھوں پر رومال ڈالے داڑھی والے مگرمونچھ منڈھی ہوئی ٹوپیاں پہنے ہمارے بوگی میں بھی داخل ہو گئے۔ ہمیں یوں لگا کہ جیسے پاکستان ریلوے کی طرف سے ان تمام لوگوں کو رائے ونڈ تک کیلئے بغیر ٹکٹس کے سہولت فراہم کی گئی تھی۔ سب نے انہیں سمجھایا کہ یہ ایک سٹوڈنٹس کی بوگی ہے یہاں عام مسافر نہیں ہیں اس لیے آپ دوسری بوگیوں میں جا کر تبلیغ کریں مگر صاحب! وہ سب لوگ تو نہایت تربیت یافتہ اور سامنے والے کو ہر حالت میں اپنے وعظ، قرآن کے حوالوں اور سنت کے واقعات پر مبنی تقاریر کر کے یہ طے کر کے آئے تھے کہ پوری ٹرین کے مسافروں کو اگلے رائے ونڈ کے اسٹیشن پر اتار کر ہی دم لیں گے۔ وہ آپ کو جذباتی طور پر اتنا مجبور کر دیتے کہ اکثر لوگ اپنی منزل مقصود چھوڑ کر رائے ونڈ پر اتر ہی جاتے تھے۔ مسافروں کو فری بورڈنگ، لاجنگ اور کھانوں کی ترغیب دے کر کہا جاتا تھا کہ آپ صرف چند دن رائے ونڈ میں گزار لیں پھر واپس چلے جائیے گا، ساری زندگی پڑی ہے دنیاوی آسائشوں کیلئے، وغیرہ وغیرہ۔ ان کی باتیں سن کر چند لمحوں کیلئے ہمیں بھی ایسا لگا کہ اب رائے ونڈ اتر ہی جانا چاہیے مگر پھر ساتھی طلباء اور وہ بھی کراچی کے طلباء کے جملے سن کر اِرادہ بدلنا پڑا۔ آج ہمیں رائے ونڈ،یوں یاد آرہا ہے کہ پاکستان کے معروف سکالر اور مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل کو اسی رائے ونڈ میں اجتماع میں تقریر اور وعظ کرنے سے رائے ونڈ کی انتظامیہ نے منع کر دیا۔ یہ وہ ہی رائے ونڈ ہے جہاں بہتر سالہ مولاناطارق جمیل نے اٹھارہ سال کی عمر میں آغاز تبلیغ کیا تھا۔ پنجاب کے ایک کھاتے پیتے، متمول اور خوشحال زمینداری میں آنکھ کھولنے والے طارق جمیل کے زندگی کے پچپن سال، تبلیغ کے پچپن سال، ایک لمحے میں ضائع کر دئیے گئے۔ وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ مولانا طارق جمیل نے پاکستانیوں کے سامنے سچ بول دیا اور سچ بولنا پاکستان میں ایک عذاب الٰہی سے کم نہیں رہا ہے۔ اب مولانا طارق جمیل کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ان جعلی حکمرانوں شہباز شریف اور نواز شریف کے خلاف آواز بلند کی۔ رائے ونڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر حج سے بھی بڑا اجتماع ہوتا ہے کبھی کبھی اور اس کے انتظامات بغیر حکومت کی مدد سے ممکن نہیں خاص طور پر شریف برادران کے رائے ونڈ کی انتظامیہ کے اوپر بہت دبائو اور اثرات ہیں۔ پہلے تو نواز شریف اینڈ کمپنی نے مولانا طارق جمیل کے مانسہرہ میں تقاریر اور وعظ سے رکوا دیا اپنے اثر و رسوخ کیوجہ سے۔ دوسرا سچ یہ بول دیا طارق جمیل صاحب نے کہ فوج اور ججوں پر تنقید کر ڈالی۔ بس پھر کیا تھا، فیلڈ مارشل صاحب نے مولانا طارق جمیل کی رائے ونڈ میں انٹری ہی بند کر ڈالی۔ ذرا غور کیجیے کہ یہ منافقت وہ شخص کررہا ہے جو اپنے آپ کو حافظ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اپنی تقریروں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتا ہے۔ اس حوالے سے مولانا صاحب کا ایک بہت دکھ بھرا اور افسوس ناک بیان بھی سامنے آیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل بغض معاویہ کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ عمران خان کے ریاست مدینہ اور اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا جیسے ایشوز کی تعریف کرنا بھی ان کے اوپر عتاب کا شاخسانہ بنا ہے۔ رائے ونڈ والوں نے مولانا طارق جمیل کو رائے ونڈ سے فارغ کرنے کی ایک وجہ یہ بتائی ہے بلکہ اصل وجہ ہی یہ ہے کہ وہ تبلیغ سے زیادہ سیاست میں حصہ لینے لگے تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ کیسے جاہل مبلغ ہیں جنہیں یہ ہی نہیں پتہ کہ رسول خدا مسجد نبوی میں منبر پر بیٹھ کر دنیا کو سماجیات، اخلاقیات، معاشیات اور سیاسیات کا درس دیتے تھے، ریاست مدینہ کا تصور بھی ایک سیاسی کارنامہ تھا اور دنیا کا پہلا انسانی حقوق کا چیپٹر بھی ایک سیاسی دستاویز سے کم نہ تھا۔ بقول علامہ اقبال
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ان نوبالغ مبلغان کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ دین اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہاں البتہ ہمارے خیال میں دین اور مذہب کو اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال نہیں کیاجانا چاہیے۔ ایک زمانے میں کراچی میں جو بھی اُردو اسپیکنگ یا بالفاظ دیگر مہاجر ہوتا تھا تو اسے خودبخود ایم کیو ایم کا سمجھ لیا جاتا تھا کچھ یہ ہی صورت حال آج کل ملکی پیمانے پر بھی ہے۔ آج مولانا طارق جمیل یا کوئی بھی شخص اس جعلی حکومت پر تنقید کرے، یا جعلی عدلیہ کو نشانہ ہدف بنائے یا فوج کے چند جنرلوں بشمول حافظ سید فیلڈ مارشل عاصم منیر شاہ تمغۂ امتیاز ملٹری پر اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے تجاوز کرنے کی نشاندہی کرے تو اسے بائی ڈیفالٹ، عمران خان کا حامی اور پی ٹی آئی کا رکن تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے مولانا طارق جمیل کو بھی یہ سمجھ کر نشانہ ہدف و ملامت بنایا جارہا ہے نہ صرف میڈیا بلکہ ہر سرکاری سطح پر یہ عمل دہرایا جارہا ہے۔ مولانا طارق جمیل بہت مختلف مزاج کے مبلغ ہیں۔ جنید جمشید اور حمزہ علی عباسی سمیت ہمارے فنکاروں کی ایک بڑی تعداد ان کے پاس حاضر ہوتی ہے اور وہ روایتی تبلیغ کرنے کے بجائے ان کے ساتھ گھل مل کر ذہن سازی کرتے ہیں اور تو اور وہ بازار حسن جاتے ہیں اور دامے، درمے، قدمے، سخنے وہاں بھی تبلیغ کرتے ہیں تو کیا عمران خان کی طرح بغض معاویہ میں ان کا تعلق بازار حسن سے بھی جوڑ لیا جائے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button