روٹی کھائو، ورنہ میری گولی تو ہے ہی !

پاگل پن اور دیوانگی ایک عبرت ناک بیماری ہے۔یہ بیماری انسانوں میں سے کسی کو لاحق ہو جائے تو اس کا باقاعدہ علاج کیا جاتا ہے ،یا باقاعدہ علاج کیا جانا چاہیے ، تاکہ پاگل خود یا دوسروں کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکے ۔لیکن پاگل پن کی یہی بیماری اگر جانوروں ،خاص طور پر کتوں کو لاحق ہو جائے تو پھر انہیں گولی مار کر ختم کر دینا ہی آخری حل شمار ہوتا ہے ۔بھارتی پردھان منتری چھ مئی سے دس مئی تک جاری رہنے والی پاک بھارت جنگ میں اپنے اندازوں، ارادوں اور منصوبوں کو بھسم ہوتا دیکھ کر واقعتاً اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ یہ جنگ نریندر مودی کے ڈاکٹرائن کے لیے شمشان گھاٹ ثابت ہوئی ہے۔اب وہ گھس کر مارنے کے ڈاکٹرائن کی راکھ کو مٹی کی کٹوری میں بھر کر دیوانوں کی طرح جگہ جگہ خطاب کرنے کے نام پر بین کر رہے ہیں۔ ایک بوڑھا اور نامراد آدمی روتا پیٹتا اچھا نہیں لگتا۔ میں حیران ہوں کہ بھارت کے امن پسند اور انسان دوست شہری اور دانشور صورت حال پر توجہ کیوں نہیں دے رہے۔مجھے یقین ہے کہ مودی کے انتہاء پسند اور فاسق مذہبی بیانیے کو بھارت کی اکثریت پسند نہیں کرتی۔پھر بھی اس اکثریت نے نریندر مودی کو مستعفی ہو کر علاج کروانے کی تجویز کو تحریک بنا کر ابھی تک پیش نہیں کیا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ بھارت میں سیکولر اقدار کو پیچھے دھکیل کر دھونس ، دھاندلی اور مذہبی انتہا پسندی کو ریاست و سیاست کی بنیاد بنایا جا رہا ہے۔جب اپنے محروم طبقات کی توجہ ان کے اصل مسائل سے ہٹا کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنا مقصود ہو،تو ان کے سامنے ایک دشمن ملک کا تصور پختہ کیا جاتا ہے۔مودی کی جھولی میں ووٹ کی بھیک مانگنے کے لیے کارکردگی کے عوض پاکستان دشمنی کا بیانیہ حاضر و موجود رہتا ہے۔پوری دنیا نریندر مودی کے غیر متوازن اور منتشر خیالات و خطابات سن کر حیران ہو رہی ہے ۔ ایک طرف دنیا بھارتی نیتا پر ہنس رہی ہے، تو دوسری طرف یہ نیتا اپنی غیر محتاط اور غیر مرتب زبان کو قابو میں رکھنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔اس نیتاکی ذہنی صحت اور دماغی عدم توازن نے بھارت کی معاشی برتری کے دعوے کے باوجود دفاعی کمتری کو دنیا کے سامنے تماشا بنا کر پیش کر دیا ہے ۔میں گزشتہ سال اپنے ایک کالم میں کہہ چکا ہوں ،اور آج پھر اس تحریر کو دھرانا چاہتا ہوں کہ …. مجھے ہندوستان پر حملہ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، منہ زبانی حملہ بھی نہیں۔مجھے ہندوستان اور پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے مابین کبھی گرم اور کبھی سرد محاربے نے خطے کے محروم طبقات کی پسماندگی میں اضافہ کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ طبقاتی جدوجہد کو پس منظر میں دھکیلنے کے لیے مذہبی منافرت پھیلانے کا حربہ اس خطے میں سب سے موثر ثابت ہوا ہے ،اور اس موثر حربے کی ایجاد بھی انگریزوں ہی کا کارنامہ ہے کہ جنہوں 1857ء میں برصغیر کے لوگوں کی قومی یک جہتی کے نتائج کا تجربہ کر کے اچھی طرح سے سیکھ لیا تھا کہ یہاں کے لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کر کے ہی طویل عرصے تک حکمرانی ممکن ہے ۔لہٰذا مذہبی منافرت کا یہ حربہ کارگر ثابت ہوا۔اس منافرت نے عام لوگوں اپنے اصل مسائل اور طبقاتی جدوجہد سے دور کر دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب محروم طبقات اور بالا دست طبقات کے مابین فاصلہ نوری سالوں میں بھی شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ میں اچھی طرح سے سمجھتا ہوں کہ ہر جنگ محروم طبقات کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔خیر اب تو جنگ ( جس کا نیا نام دہشت گردی ہے ) دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری بن چکی ہے اور اس انڈسٹری کا سارا منافع امریکہ کی جیب میں جا رہا ہے ۔میری رائے میں پاکستان اور ہندوستان کو جنگ کے امکانات کی جھاڑیوں میں الجھے دامن چھڑا لینے چاہئیں۔میرا خواب ہے کہ خطےکے ممالک یورپین یونین کی طرح کا ایک نظم قائم کر سکیں۔ مجھے لال قلعے پر پاکستانی پرچم نہیں لہرانا۔وہاں ہندوستانی پرچم ہی بھلا لگتا ہے۔مجھے دلی کی سیر کرنی ہے، مجھے آگرہ دیکھنا ہے ، لکھنؤ میں وقت گزارنا ہے۔مجھے اہل کشمیر کی مرضی و منشا کے عین مطابق ایک پرامن ، خودمختار اور خوشحال کشمیر کے دارالحکومت سری نگر ، جو میرے گھر سے صرف تین سو کلومیٹر دور ہے، میں شکارے پر بیٹھ کر ڈل جھیل کی سیر کرنی اور زعفرانی قہوہ پینا ہے۔مجھے ممبئی اور مدراس کو دریافت کرنا ہے ، گوا کے ساحل دیکھنے ہیں ۔مجھے وہ تمام شہر گھومنے ہیں ،جن کا ذکر اُردو شاعری میں ملتا ہے، میں جانتا ہوں کہ ایسی خواہش ہندوستانی دوستوں کے دل میں بھی مستور ہو گی۔ ادب اور ادیب اپنی وقعت اور تاثیر کے سبب کسی تقسیم ، کسی ترتیب اور کسی جغرافیائی حد بندی سے ماوراء ہوتے ہیں۔ان کو تلخی کو کم اور آگ کو بجھانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اب اسی خواہش کے تسلسل میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کے انسان دوست اور امن پسند دانشوروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آیئے مل کر اپنے اپنے انتہا پسندوں کو لگام دینے کی کوشش کریں ، آئیں اس بات کا اعلان کریں کہ ہمیں خطے میں جنگ نہیں ،امن چاہیے، ہمیں دشمنی نہیں ، دوستی درکار ہے۔اس کثیر اللسانی خطے کے لوگ اہل زبان تو ہیں ، پر بدزبان ہرگز نہیں ہیں۔نریندر مودی کا پاکستانی نوجوانوں کو مخاطب کر کے عوامی جلسے میں یہ اعلان کرنا کہ؛روٹی کھاو، ورنہ میری گولی تو ہے ہی !ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا واضح ثبوت ہے۔میری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ مودی کا یہ دماغی عدم توازن اور ہذیان گوئی خود بھارت کے لیے کوئی بڑی مشکل پیدا کرتے ہوئے کسی دیرپا شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے ، لہٰذا اس غیر انسانی طرز تکلم کو جتنی جلدی روکا جا سکے، روک دینا چاہیے ۔