چار روزہ جنگ کے بعد

ہمیں چھ مئی سے لے کر دس مئی تک کی چار روزہ جنگ کو "میڈیا وار” کے کذب و افتراء سے ہٹ کر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ میری زندگی کی تیسری بڑی جنگ ہے۔ 65 ء میں میں چار سال کا بچہ تھا کچھ کچھ یاد ہے گھروں کے باہر کھودے گئے ایل شیپ کے مورچے ، رات کو آسمان پر جہازوں کے گزرنے کی آوازیں اور ریڈیو پر مقبول و محبوب جنگی ترانے۔ 71ء میں کچھ بے اثر ( بلکہ مزاحیہ) ترانوں کے علاوہ کوئی اچھی چیز یاد نہیں۔ پر اکیسویں صدی کی یہ جنگ طلسمی آئینے میں براہ راست دیکھی ، سنی اور لڑی ہے۔ چھ مئی سے لے کر گیارہ مئی تک شب و روز اس جنگ کا مشاہدہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ جنگ کی دھول میں سب سے پہلے سچائی اور حقیقت مدھم پڑ جاتی ہے۔پر اب زمانہ خبر سے زیادہ نظر کا ہو گیا ہے۔بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کے سٹیلائٹ اسٹیشن دونوں ملکوں کے مابین برپا ہونے والے مبارزے کو براہ راست دیکھ رہے تھے۔اور کس نے کس کے ساتھ کیا کیا ہے ، وہ جاننے والے اچھی طرح سے جان چکے ہیں۔اب وقت ہے کہ ہم اس جنگ کے احوال اور مآل کو اپنے سنجیدہ مطالعے اور تجزیے کا عنوان بنائیں۔اگر ہم نے اس چار روزہ جنگ کا صحیح تجزیہ کر کے اپنی خوبیوں پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو ٹھیک طریقے سے شمار کر کے انہیں درست نہ کیا تو پھر مستقبل میں نقصان کا اندیشہ ہے۔اس جنگ کی بنیاد مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہوئے ایک حادثے کو بنایا گیا تھا، جس میں چند نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر چھبیس سیاحوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔یہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی نوعیت کا ایک علحیدٰہ اور حد درجہ افسوسناک حادثہ تھا اور سراسر سیکیورٹی کے ذمہ داروں کی ناکامی اور نااہلی کا ثبوت تھا۔لیکن جس سرعت سے بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلگام حادثے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے کر اس کے خلاف انواع و اقسام کے منفی اقدامات کا اعلان کیا، اس سے اس امر کا سراغ ملتا ہے کہ؛ یہ حملہ خود مودی نے اپنے ایک طے شدہ ایجنڈے کی نقاب کشائی کرتے ہوئے اسے روبہ عمل لانے کے لیے کروایا تھا۔پاکستان نے اس واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس کی بین الاقوامی سطح پر تحقیق پر زور دیا تھا ۔دنیا بھر کی طرف سے بھارت سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کا ثبوت طلب کیا جاتا رہا۔خود بھارت کے اندر سے بھی ایسی متعدد آوازیں سنائی دیں ،جو پہلگام واقعے کو نریندر مودی کے سر ڈال رہے تھے۔اس واقعے کو بنیاد بنا کر مودی نے جو بالی ووڈ ڈرامہ تشکیل دیا ،اسے ایک پرامن پاکستانی کے طور پر دیکھتے ہوئے میری پختہ رائے یہ تھی کہ؛جنگ بھارت کی ضرورت کی ہے، اس لیے اسے فی الحال نامراد رکھنا ضروری ہے ۔لیکن ایسا نہ ہو سکا۔نریندر مودی اپنے غلط اندازوں کے ڈھیر پر کھڑا ہو کر اپنی ہندو انتہاء پسند سیاست کا دوام تلاش کر رہا تھا، وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس جنگ کا میدان اس کی سیاسی زندگی کے لیے شمشان گھاٹ بن جائے گا ۔ اس حادثے کی بنیاد پر دو ایٹمی ممالک کے مابین چار روز جنگ کے بعد وقتی جنگ بندی جاری ہے ۔لیکن ابھی تک بھارت پہلگام واقعے کا کوئی ایک مجرم بھی گرفتار نہیں کر سکا، کوئی ایک انکوائری ،کوئی ایک ثبوت کوئی ایک ایسی شہادت؛ جو یہ ثابت کر سکے کہ پہلگام واقعے میں خود سیکیورٹی ادارے ہی ملوث نہیں تھے،کچھ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ چند دنوں کے اندر اندر بے لگام مودی نے بھارت کو اسرائیل اور پاکستان کو فلسطین ، لبنان ،شام ،یمن وغیرہ کی طرح کا سمجھ کر پاکستان میں مساجد اور سول آبادیوں کو "دہشتگردی کے کیمپ” قرار دیتے ہوئے میزائل حملوں کا نشانہ بنا ڈالا ۔اس حرکت نے فوری طور پر پاکستانیوں کے سامنے یہ جواب طلب سوالات کھڑے کر دیئے کہ آخر کیوں پاکستان میں مساجد اور شہری دونوں محفوظ نہیں ہیں۔ اور یہ کہ 31 شہریوں کو جان سے مار دینا کن عالمی قوانین کے مطابق قابل قبول ہے ؟؟ یہ اس خطے کی تاریخ کا سنگین ترین وقوعہ تھا۔جس میں بھارت نے ایک مفروضہ تشکیل دے کر پاکستان کے وسطی شہروں پر میزائیل حملے کرنے کی جرات کی ،اور بڑے فخر سے اعلان کیا کہ بھارت نے پاکستان میں دہشتگردی کے ٹریننگ کیمپس تباہ کر دیئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی بڑے اہتمام سے یہ بات دھرائی گئی تھی کہ ؛ بھارت نے پاکستان میں کسی ملٹری انسٹالیشن پر حملہ نہیں کیا۔یہ بدترین حملے چھ اور سات مئی کی درمیانی رات کو ہوئے۔یہ حملے بھارتی حدود کے اندر اڑنے والے طیاروں سے اور دیگر میزائل لانچنگ پیڈز سے کئے گئے تھے۔لیکن یہی وہ وقت تھا کہ جب پاکستان نے اپنی فضائی حدود کے اندر رہتے ہوئے بھارتی فضا میں موجود طیاروں کے سسٹم منجمد کئے، پانچ سے چھ طیارے بھارتی اور مقبوضہ کشمیر کی حدود میں ملبہ بنا کر بکھیر دیئے، بھارت کا کلی انحصار دروغ گو الیکٹرانک میڈیا کی چیختی چنگھاڑتی جھوٹی خبروں پر تھا۔لیکن سٹیلائیٹ کے ذریعے اس فضائی معرکے کا مشاہدہ کرنے والے اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی حیرت کے ساتھ بھارت کے بیش قیمت رافیل طیاروں کا عبرتناک انجام ملاحظہ کر رہے تھے۔بھارتی فضاؤں پر پاکستان کا اس حد تک تصرف تھا کہ رافیل طیاروں کے پائیلٹس کی گفتگو اور چیخ و پکار تک ریکارڈ کی جا رہی تھی۔صبح ہونے تک خطے میں طاقت کا توازن اور دنیا میں دفاعی برتری کا محور تبدیل ہو چکا تھا۔لیکن بات یہاں پر رکی نہیں،ہر چند کہ پاکستان کے ن لیگ سے وابستہ وزیر اعظم اور وفاقی وزراء نے یہ اعلان کر کے معاملے پر مٹی ڈالنے کی حتی الامکان کوشش کی کہ؛” ہم نے دنیا سے کہا ہے کہ اگر وہ کوئی مزید کارروائی نہ کریں تو ہم بھی ذمہ دار ریاست ۔۔۔۔” اور یہ بھی کہ ہم تو بھارت کے پانچ کی بجائے دس پندرہ جہاز بھی گرا سکتے تھے ،لیکن ہم نے احتیاط کی۔امر واقعہ تو یہ ہے کہ بھارت نے محض ایک غیر مصدقہ مفروضے کی بنیاد پر ایک ایٹمی صلاحیت والے ملک کے وسط پر اور آزاد کشمیر میں متعدد میزائل حملے کرنے کی مجرمانہ حرکت کی تھی ، اگرچہ پاکستان نے اپنی فضا میں رہتے ہوئے بھارت کے کچھ طیارے گرانے کا دعوی کیا اور اعلان کیا کہ حساب برابر ہو گیا ہے۔مزید کچھ نہ کریں۔ یہ بالکل غلط پالیسی تھی۔ اس طرح کے تحمل نے بھارت کو ایک نہایت درجہ غلط پیغام دیا اور اس نے یہ سمجھ لیا کہ وہ خطے کا اسرائیل بن چکا ہے اور اس کے ہمسائے میں فلسطین جیسا ملک آباد ہے۔اس نے ایک خطرناک پیش قدمی کی ، اگلے روز بھارت نے پورے پاکستان پر ایک وسیع ڈرون اٹیک لانچ کیا اور کامیابی کے ساتھ تمام حساس مقامات تک رسائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فضائی سیکیورٹی کا سارا ڈیٹا حاصل کر لیا۔جبکہ پاکستان میں ان ڈرونز کو شکار کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا رہا۔حیرت ہے کہ پاکستان بھارت کے اس دوسرے مجرمانہ تجاوز پر کیوں چپ رہا ؟ڈرون گرانے کو کریڈٹ بنا کر پیش کرنا بھی خود فریبی سے ملتی جلتی نادانی تھی۔بعدازاں انہی ڈرونز سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر اگلے روز انڈیا نے ہماری نہایت درجہ حساس اور ناقابل رسائی ائر بیسز پر میزائل حملے لانچ کر دیئے۔نور خان ائر بیس وفاقی دارالحکومت کا حصہ ہے، اس پر گرنے والے ناہنجار میزائل کی آواز میں نے اپنے بیڈ روم میں سنی، اور پھر چند ہی لمحوں میں ائر بیس سے ملحقہ رہائشی علاقوں کے لوگوں نے اپنی چھتوں پر سے ویڈیوز بنا بنا کر فیس بک پر پوسٹیں لگانی شروع کردیں۔بھارت کے یہ حملہ ایک ناقابل یقین حرکت اور مجرمانہ عمل تھا،یہ ایک ریاست پر تین دنوں میں تیسرا حملہ تھا۔یہ دس مئی کی رات تھی، بالآخر پاکستان کی طرف سے ضبط و تحمل کے بے سود مظاہرے مکمل کرنے کے بعد رات کی سیاہی کو صبح کے نور سے فروزاں کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔آپریشن بنیان المرصوص نے بھارت کے بے بنیاد تکبر اور کاذب غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔اس جوابی حملے کے فوری بعد پاکستان نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس طلب کر لیا تھا کہ؛ جس کی پھر نوبت ہی نہیں آئی۔اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے ایماء پر ایک سوشل میڈیا میسج کے ذریعے جنگ بندی کا اعلان کردیا۔یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ تھا جس نے دونوں ملکوں کے مابین بڑھتی ہوئی حدت اور کشیدگی سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اعلان کر رکھا تھا ۔ جنگ بند ہوئے چند روز گزر چکے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ہزیمت اور خفت مٹانے کے لیے دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک مضحکہ خیز تقریر بھی کی۔لیکن یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ انتہاء پسندی اور ریاستی دہشت گردی کا یہ سلسلہ رک گیا ہے یا ابھی چلے گا۔اسرائیل اور امریکہ بھارت کی دفاعی اشک شوئی پر کمر بستہ ہیں۔ ہر روز دفاعی سازو سامان سے بھرے ہوئے امریکی جہاز بھارت میں اتر رہے ہیں۔ٹرمپ کی گفتگو الگ اور عمل الگ ہے ۔اور ہر امریکی حکمران یہی کچھ کرتا ہے۔پاکستان کو اپنا میزائل ڈیفنس سسٹم تیار اور تگڑا کرنا ہو گا ،تاکہ آئندہ کوئی میزائل اٹیک نور خان ائر بیس تک نہ پہنچ سکے۔ہمیں تدبر سے کام لیتے ہوئے اپنے دفاع کی سنجیدہ تیاری کرنی ہو گی۔جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ بات پاکستان بھر کے پیشہ ور اور مراعات یافتہ محبان امریکہ کو سوچنی اور سمجھنی چاہیے کہ جنگ کا خطرہ ابھی مدھم نہیں ہوا۔یہ فکر و تدبر اور تیز رفتار تیاری کا وقت ہے۔ میری ایماندارانہ رائے ہے کہ ہمیں ابھی کسی قسم کا جشن منانے کی بجائے اس جنگ کا تجزیہ اور ممکنہ جنگ کی تیاری کرنی چاہیے۔