ہفتہ وار کالمز

ہفتہ گزر گیا، مگر فلم ریلیز نہ ہو سکی، بہتر، اڑتالیس، چھتیس اور چوبیس گھنٹوں کی ڈیڈ لائنز کیا ہوئیں؟

پاکستان میں جب کوئی نئی فلم ریلیز ہونے والی ہوتی ہے تو لوگوں میں تجسس پیدا کرنے کیلئے پبلسٹی کی جاتی ہے۔ جمعۃ المبارک کے دن فلم کے ریلیز ہونے میں اڑتالیس گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پاک بھارت جنگ کے حوالے سے بھی پیدا کی جاتی رہی۔ سنسنی پھیلانے کی اس جنگ میں دونوں ہی ممالک حصہ لیتے رہے مگر انڈین میڈیا کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ کل کی ہوتی جنگ آج ہی ہو جائے۔ انڈیا کیطرف سے اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر مسلسل جارحانہ انداز ہے جبکہ پاکستانی میڈیا میں مفہامانہ انداز ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگر انڈیا نے جنگ مسلط کی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا، پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خصوصی جنگی نشریات جاری ہیں دونوں اُردو انگریزی میں بلکہ پی ٹی وی پر تو عربی زبان میں بھی بڑے بھرپور انداز میں خبریں اور تجزیہ پیش کیئےجارہےہیں۔ اس تمام جنگی جنون میں سوال یہ ہے کہ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنونی لوگ اور بی جے پی کنٹرولڈ میڈیا کو اس بات کا علم ہے کہ دو نیو کلیئر ممالک کے دوران جنگ کا کیا انجام ہو سکتا ہے۔ ہم نے پچھلے ہفتے اپنے ریڈیو شو میں بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ فرض کریں اس جنگ کے نتیجے میں اگر پاکستان کو پسپائی ہونا شروع ہو گئی تو پاکستانی حکومت کے پاس آخر میں دو آپشنز رہ جائیں گے یا تو وہ انڈیا کے سامنے سرینڈر کر دے یا پھر وہ ایٹم بم استعمال کرے۔ 1971کی پسپائی کے بعد اب پاکستانی ریاست کے بعد صرف اٹامک آپشن ہی باقی رہ جائے گا۔ یہ ہی آپشن بھارت کے پاس بھی ہو گا کہ اگر اسے محسوس ہوا کہ کنویشنل جنگ کسی منطقی انجام کی جانب نہیں جارہی ہے تو پھر اس کے بعد بھی امریکہ کی طرح سے اس کے پاس ہیروشیما اور ناگا ساکی طرح سے کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ کیا بوچر آف گجرات اور موجودہ ہٹلر مودی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ وہ پاکستان کو بھی گجرات کی طرح ہینڈل کر لے گا تو یہ اس کی بہت بڑی خوش فہمی اور غلط فہمی ہے۔ آر ایس ایس اور پی جے پی والے بھارتی اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی بھی طرف سے اگر ایٹم بم استعمال کئے گئے تو وہ محفوظ رہیں گے تو وہ احمقوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ہم اس ہفتے 1945 میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گے ایٹم بموں کی تباہ کاری اور تابکاری کے اثرات ایک ڈاکومنٹری میں دیکھ رہے تھے تو دل ہل کر رہ گیا۔ آج دن تک ان علاقوں میں معذور اور ڈی فیکٹڈ بچے پیدا ہورہے ہیں اٹامک تابکاری کی وجہ سے اس ہفتے عمران خان نے بھی اپنے ٹویٹ میں یہ بات واضح کی ہے کہ انڈیا اور بھارت کو پوری دنیا ایک نیو کلیئر فلیش پوائنٹ سمجھتی ہے۔ اگر مودی اور انڈین فوجی اور سویلین جنونی اس شائبے میں ہیں کہ وہ 1971کی طرح اس دفعہ بھی ایسا ہی کچھ کر لیں گے تو وہ اس سے باہر نکل آئیں۔ 1971 میں پاکستان جوہری صلاحیت رکھنے والا نیو کلیئر ملک نہیں تھا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر اس وقت پاکستان کے پاس ایٹم بم اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ہتھیار ہوتے تووہ ہتھیار ڈالنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں موجود بھارتی فوج اور اس کی ذیلی فوج مکتی باہنی کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں اندرا گاندھی اور بھارتی فوج اور لابی کاجتنا ہاتھ تھا اس کا اندازہ پچھلے سال حسینہ واجد کے ہٹائے جانے کے بعد ہورہا ہے اور پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان چون سال بعد پہلی مرتبہ تعلقات بہتری کی طرف جارہے ہیں کیونکہ حسینہ واجد بھارت کی ایک کٹھ پتلی وزیراعظم تھی جس سے بنگالی نفرت کرتے ہیں۔
نکتۂ انجام یہ ہے کہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ کرنے کا منصوبہ یا خیال کوئی کھیل نہیں ہے اور نہ ہی بالی وڈ کی تین گھنٹے کی مووی ہے، جب بم پھٹیں گے تو پھر بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button