ہفتہ وار کالمز

چھ نہریں

پاکستان کا آئین دیکھ لیجیے پہلے صفحے پر لکھا ہے اسلامی جمہوریۂ پاکستان، پاسپورٹ پر نظر ڈالئے لکھا ہے اسلامی جمہوریۂ پاکستان، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان نہ اسلامی، نہ جمہوریہ ، یہ بات کسی موقع پر محمود خان اچکزئی بھی کہہ چکے ہیں، پاکستان بھی 1971 کے بعد پاکستان نہیں رہا، دو لخت ہو گیا، اور مذاق یہ کہ جو شخص اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتا تھا جو ماؤ کا بھگت تھا وہ قوم کے ہاتھ میں ایک اسلامی آئین پکڑا کر چلا گیا، وہ اب بھی سندھ میں زندہ ہے، جب یہ آئین بنا تو اس وقت پاکستان کی آبادی پندرہ کروڑ تھی اور سارے کے سارے نابینا، اندھے گونگے، اس وقت کچھ دانشور بھی ہوا کرتے تھے قد آور صحافی، کالم نگار ، کسی نے نہیں کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو سوشلسٹ ہے وہ اسلامی ملک کے اسلامی آئین کے وزیر اعظم کا حلف قرآن پر ہاتھ رکھ کر اٹھائے اس وقت مفتی محمود مولانا نورانی مولانا سمیع الحق سب موجود، کسی نے یہ سوچا ہی نہیں، سوچا بھی ہوگا، ہنسے بھی ہونگے مگر منافقت لپیٹ لی، شائد ان کو معلوم تھا حلف اٹھانے والے کی عمر ہی کتنی، مولوی سے مکاری چلی جائے یہ ممکن نہیں ، وقت نے دیکھا وہی دینی امام جو پاکستان کے مخالف تھے وہ پاکستان کے مالک بن بیٹھے، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ممکن ہے کہ پاکستان کے قیام کے مخالف گھات لگائے بیٹھے تھے اور شروع دن سے ہی منصوبے پر کام شروع ہو چکا تھا، بھٹو نے ان کا کام آسان کر دیا ملا کو اس آسانی کی امید بھی نہیں ہوگی، دوستو! اس سے بڑا مذاق یہ ہے کہ آج بھی پی پی پی ایک PROGRESSIVE سیاسی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے اور یہ بھی کہ اسے فخر ہے کہ اس نے پاکستان کو آئین دیا، اور کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ ایک ترقی پسند جماعت ایک CONSERVATIVE CONSTITUTION کیسے دے سکتی ہے، یہ صورت حال اور مضحکہ خیز ہو جاتی ہے جب وہ دینی جماعتیں جو دہشت گردی میں ملوث رہی ہیں وہ کہتی ہیں کہ وہ آئین کو تو مانتی ہیں مگر بھٹو کو نہیں مانتیں، جمیعت علمائے اسلام تو یہ کہتی ہے کہ آئین مفتی محمود نے بنایا، ایک INDEPENDENT ANALYST یہی کہے گا کہ یہ صورتِ حال تضادات سے بھری پڑی ہے، اور اس اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں اس وقت پاکستان کے کسی مولوی یا سیاست دان سے POLITICS/DEMOCRICY کی تعریف لیجیے وہ بغلیں جھانکنے لگے گا، زرداری ہوں یا شہباز یا عمران ان کو کسی سیکشن آفیسر کے سامنے بٹھا دیں یہ منہ لٹکا کر واپس آئینگے ان کے پاس ایک ہی جواب ہوگا کہ ہمیں پاکستان کے عوام نے منتخب کیا ہے ہم عوامی نمائندے ہیں، یہ جواب کافی نہیں POLITICIAN کی تعریف گوگل کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے سیاست دان اس تعریف پر پورے نہیں اترتے، کوئی عالم دین کوئی سیاست دان NEW MODERN POLITICAL STRATEGIES، علم سیاسیات ، بین الاقوامی امور پر کوئی درک نہیں رکھتا، جس شخص کو ملک چلانا ہو اس کو زیرک، ذہین اور فطین ہونا ہی چاہیے، اس کو ملک کے مسائل اور وسائل کا علم تو ہونا ہی چاہیے ، ایسا نہیں ہوگا تو نہ پالیسیاں بن پائینگی نہ چل پائینگی، پانی کی کمی کا ادراک ایوب دور میں چند آبی ماہرین کو ہو چکا تھا اس لئے کالا باغ ڈیم کا ایک منصوبہ لانچ کیا گیا، یہ ایک بڑا منصوبہ تھا اور کہا جا رہا تھا کہ اس منصوبے سے پاکستان کی دو سو سال کی آبی ضروریات پوری ہو سکیں گی، ماہرین کو اندازہ تھا کہ ایوب خان ستلج اور بیاس کے دریا بھارت کو بیچ چکے ہیں مگر سیاست دانوں نے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا، خان ولی خان نے کہا تھا کہ اس منصوبے سے نوشہرہ شہر پانی میں ڈوب جائیگا اور اگر یہ ڈیم بنایا گیا تو ہم اس کو بم سے اڑا دینگے ، اس کے بعد سیاست دانوں کی فہرست میں ڈیمز کی تعمیر نہیں تھی،1921 میں سیلاب آیا اس وقت ہاتھ ملتے ہوئے کہا گیا کہ کالا باغ ڈیم ہوتا تو نہ اتنی تباہی ہوتی اور ہم اگلے سو سالوں کے لئے پانی ذخیرہ کر سکتے تھے، آبادی بڑھتی گئی اور پانی کا استعمال بھی بڑھتا گیا پانی پھر کوٹے پر دیا جانے لگا، ارسا نے صوبوں کو پانی کی فراہمی کے لئے اصول بنائے اور انہی اصولوں پر پانی تقسیم ہوتا رہا، مگر پانی کی مقدار کا انحصار بارشوں پر ہو گیا، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیر کم ہوتے چلے گئے، بارشیں کم ہو گئیں بھارت نے بھی پانی کم دیا، 1978 میں پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نثار امام قریشی نے شکاگو یونیورسٹی میں WATER MANAGEMENT IN DESERTS پر ڈاکٹریٹ کی اور واپس آکر پنجاب یونیورسٹی میں تجربات کئے، سنا ہے کہ ڈاکٹر نثار کے تجربات کامیاب رہے اور اس ٹیم نے یہ منصوبہ حکومت کو 1984 میں پیش کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ریت کے نیچے پانی موجود ہے اور اگر اس کا پانچ فی صد نکال لیا جائے تو چولستان کو زرخیز بنایا جا سکتا ہے منصوبہ سیاسی افرا تفری اور افغان جہاد کی وجہ سے سرد خانے میں چلا گیا، 2015 میں پھر اس منصوبے کی کسی کو یاد آئی مگر پھر وقت کی گرد اس منصوبے پر پڑنے لگی وجہ پانامہ کیس اور سیاسی افرا تفری ، کہا جاتا ہے کہ پرویز رشید نے بار بار حکومت کو اس بارے میں یاد دلایا، عمران رجیم نے اس منصوبے کو گود لینے کی کوشش کی مگر ان کے پاس بھی وقت نہ تھا چونکہ اس کی مکمل تاریخ مدون نہیں ہوئی لہٰذا حقائق کا کم ہی علم ہے، پی ٹی آئی ذرائع کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ پی ڈی ایم کے دور میں صدر عارف علوی کو پیش کیا گیا اور انہوں نے کہ OVER MY DEAD BODY مگر ذرائع کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا اگر ایسا ہوتا تو سوشل میڈیا شور مچا دیتا، کہا جاتا ہے کہ 2022 میں ایک آبی ماہر حسن عباس نے اس کی FEASIBILITY REPORT بنائی تھی جس کو گرین پاکستان کا نام دیا گیا اس منصوبہ سے زرداری نے اتفاق کیا بریفنگ میں شرکت کی اور منصوبے سے اتفاق کیا، پنجاب کے زمینداروں نے اپنے مفادات کے تحت منصوبے میں ترامیم کیں اور آج حسن عباس کہہ رہے ہیں کہ منصوبہ وہ نہیں جو تیار کیا گیا تھا، منصوبے کے تحت چار نہریں پنجاب اور دو سندھ تھر پارکر میں بنائی جانی تھیں بعد میں کہا گیا کہ پنجاب میں تین، سندھ میں دو اور بلوچستان میں ایک نہر بنائی جانی تھیں رانا ثنا اللہ کہتے ہیں پانچ نہروں پر اتفاق ہے اعتراض صرف چولستان کی نہر پر ہے، پانی کے مسئلے پر سندھ کی تمام قوم پرست جماعتیں احتجاج کے لئے نکل آئیں پی پی پی نے بھی احتجاج کیا مگر دیر ہو چکی تھی اب پی پی پی نے سیاسی طور پر دباؤ بڑھا دیا جو ناکافی ہے پی پی پی کسی حد تک منافقت سے کام لے رہی ہے بہر حال رانا ثنا اللہ اور شرجیل میمن کے رابطے ہوئے ہیں اور امکان ہے کہ کوئی فیصلہ جائیگا مگر پی پی پی کے HARD LINER چاہتے ہیں کہ منصوبہ ترک کر دیا جائے اور بہانہ یہ ہے کہ دریائے سندھ میں تو پانی ہی نہیں،گرین پاکستان کے پیچھے فوج ہے فوج نے اس منصوبے کی لانچنگ جنرل عاصم منیر سے کرائی تھے جس میں حکومت شامل تھی، پی پی پی ایک طرف قوم پرستوں کی طاقت سے خائف ہو گئی ہے تو دوسری طرف اسے فوج کی ناراضگی کا سامنا ہے، جو ابھی SURFACE نہیں ہوئی یہ یاد رہے کہ یہ حکومت ایک ARRANGEMENT کے تحت قائم ہوئی ہے اور اس ARRANGEMENT میں پی پی پی فریق ہے وہ حکومت سے تو الگ ہو نہیں سکتی تو نہروں کے مسئلے پر کچھ ترامیم کے ساتھ منصوبہ لانچ کر دیا جائیگا اندازہ تو یہی ہے دریائے سندھ پر صرف سندھ کا لفظ ہونے کی بنا پر سندھ کا قبضہ نہیں ہو جاتا یہ دریا تو کے پی کے بالائی علاقوں سے نکلتا ہے بظاہر اس میں شکست پی پی پی کی ہوگی منصوبہ تو ترک ہو نہیں سکتا، اس منصوبے کو بہر حال پورا ہونا ہے اور اس میں پاکستان کی بھلائی ہے غذائی اجناس کی برآمدات کرنے اور کچھ زرِ مبادلہ کمانے کا خیال اس منصوبے کے پیچھے ہے پاکستان کی اس اہم ضرورت کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button