ہفتہ وار کالمز

9 مئی کے فلاپ ہونے کے بعد آئی ایس پی آر کی نئی فلم ریلیز ہو گئی جو پہلے ہفتے میں ہی ناکام ہو گئی!

یوں تو اس بات کو سب ہی جانتے تھے کہ 9مئی کا ڈرامہ ایک فوجی فالس فلیگ آپریشن یا آئی ایس پی آر کا ڈرامہ یا فلم تھا مگر پھر بھی کچھ معصوم لوگ سمجھتے تھے کہ شاید یہ حقیقت بھی ہو۔ مگر اس ہفتے دو بھائیوں کی بازیابی کی فلم ریلیز ہونے کے بعد اب وہ چند معصوم لوگ بھی قائل ہو گئے کہ نو مئی اور کچے کے ڈاکوئوں کا مضحکہ خیز ڈرامہ ایک بار پھر لوگوں کو بے وقوف بنانےاور گمراہ کرنے کیلئے رچایا گیا ہے۔ معروف پروڈیوسر اور سکرپٹ علی رضا صاحب ہمارے اسٹوڈیوز میں آچکے ہیں۔ اے آر وائی نیوز ٹی وی پر وہ ایک جرائم کے حوالے سے ایک تحقیقاتی پروگرام کرمنل موسٹ وانٹیڈ کرتے ہیں۔ اس پروگرام کا فارمیٹ یہ ہے کہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی جرائم ہوتے ہیں اور ہائی پروفائل ہوتے ہیں علی رضا کی ٹیم پولیس سے معلومات اکٹھا کر کے اُس پورے کیس کی مقامی اور غیر معروف اداکاروں کیساتھ مل کر ایک ڈرامائی تشکیل دوبارہ سے تشکیل کرتے ہیں اور واقعات اور تحقیقات کو اسی انداز میں فلم بند کرتے ہیں جس طرح سے وہ وقوع پذیرہوئے تھے۔ اس Dramatizationمیں عام لوگوں کے علاوہ پولیس کے عام سپاہی سے لیکر بڑے آفسیرز تک واقعے کے اسکرپٹ کے مطابق ایکٹنگ کرتے ہیں۔ شوٹنگ میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں، بکتر بند گاڑیاں یہاں تک کہ ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور آخر میں پولیس سمیت دیگر سکیورٹی کے اداروں اور ڈیپارٹمنٹس کا شکریہ بھی لکھا ہوا آتا ہے۔
پاکستان کے معروف اور مشہور صحافی احمد نورانی کئی سالوں سے کبھی یو کے اور کبھی یو ایس میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور وی لاگ کرتے ہیں۔ احمد نورانی نے مشہور کیس باجوہ۔ مٹھو میں باجوہ کے خلاف بلین آف ڈالرز کی کرپشن آشکار کی تو ان پر قتل کرنے کی واردات ڈالنے کی کوشش کی گئی جس سے بچ نکل کر ملک بدر ہو گئے۔ حال ہی میں انہوں نے موجودہ مینٹل چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی کرپشن اور اقرباءپروری کے دو کیسز تمام ثبوتوں کیساتھ میڈیا میں بیان کئے۔ جنرل عاصم منیر کے سالے محسن نقوی کو پہلے عبوری وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جانا پھر پاکستان کا وزیر داخلہ بنایا جانا اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا جانا، تو سب کے علم میں ہی ہے۔ پنجاب پولیس کی اے ایس پی مہر بانو نقوی کی تقرری کو تو سب جانتے ہیں۔ حال ہی میں احمد نورانی نے فیکٹس فوکس کی ڈکومینٹیشن کے ساتھ جنرل عاصم منیر کی کزن سیدہ حاجرہ سہیل جو ان کی ماموں زاد بہن ہیں ایک خبر شائع کی جس میں ان کی غیر قانونی پرموشن کی دستاویزات پیش کی گئی ہیں۔ سیدہ حاجرہ سہیل ولد سید بابر علی شاہ ایک سرکاری ادارے NESTمیں ایک معمولی منیجر تھیں انہیں عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کے بعد کزن سیدہ حاضرہ سہیل کو پرائم منسٹڑہا ئوس سے احد چیمہ کے ذریعے ایک حکم سے جنرل منیجر بنادیا گیا اور تنخواہ میں تین سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ،مراعات اور پروٹوکول اس کے علاوہ ہے۔ احمد نورانی نے جب جنرل عاصم منیر کی کزن کی غیر قانونی تقرری اوران کی دوبیٹیوں سندس عظیم اور خدیجہ عاصم کو سرکاری پاسپورٹس جاری کئے بمعہ شوہروں کے خبر شائع کی تو احمد نورانی کے دو بھائیوں کو آئی ایس آئی اور ایم آئی اور آئی بی نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے گھروں سے اٹھا کر غائب کر دیا۔ احمد نورانی کی والدہ عدالتوں میں ججوں کے سامنے جا جا کر روتی رہیں اور منت سماجت کرتی رہیں کہ ان کے دونوں بیٹوں کو اغواء کر لیا گیا اور اگر گرفتار کیاگیا ہے تو بتایا جائے کہ وہ ایک مہینے سے کہاں ہیں اور ان پر کیا الزامات ہیں ۔ حکومتی پراسیکیوٹر اور حکومتی ججز حیلے بہانوں سے معاملات کو ٹالتے رہے۔ جب احمد نورانی کی والدہ نے روتے ہوئے جج سے کہا کہ وہ میرے دو جوان بچے ہیں، کسی بلی کے بچے نہیں ہیں تو عوامی سطح پر گویا فوج کے خلاف نفرتوں یا ایک بھونچال آگیا۔ بلی کے بچوں کی بازگشت بیرون ملک میڈیا میں سنائی دینے لگی۔ اب جنرل حافظ جی کو اپنا منہ چھپانے اور بے غیرتی مٹانے کیلئے کچھ تو کرنا تھا۔ لہٰذا آئی ایس پی آر کی طرف سے ایک فلم پروڈکشن ٹیم بنائی گئی۔ کچے کے ڈاکوئوں کے علاقے میں جا کر جعلی فلمبندی کی گئی۔ باقاعدہ فائرنگ، پولیس کی بھاگ دوڑ،کچے کے ڈاکوئوں سے جعلی مقابلے کی فلمبندی کی گئی اور آخر میں فلم میں دکھا گیا کہ سکیورٹی فورسز نے احمد نورانی کے دونوں بھائیوں کو کچے کے ڈاکوئوں سے آزاد کرالیا ہے جو ان دونوں کو اسلام آباد جیسے بڑے سکیورٹی والے شہر سے دنیا کے سامنے اغوا کر کے لے گئے تھے۔ بہرحال اچھی بات یہ ہے کہ فلم کا ENDہیپی ہوا اور دونوں مغویان گھر واپس آگئے۔ اب آپ کومعلوم ہوا کہ نو مئی کی فلم کی پروڈکشن کیسی ہوئی تھی، لاہور کے کور کمانڈر ہائوس میں بغیر کسی رکاوٹ کے فلم کی کس طرح سے بہت Smothlyعکس بندی کی گئی تھی؟ ہمیں شبہ ہے کہ کہیں پکے کے ڈاکوئوں کی اس فلم کی تیاری میںCMWکے علی رضا کی خدمات تو نہیں لی گئی تھیں؟ اگر لی بھی گئیں تھیں تو وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کی گرفتاری اور اغوا سے بچنے کیلئے کبھی اقرار نہ کریں گے۔ اب اگر کچے پکے کی اس فلم کے بعد بھی کچھ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ذمہ دار ہیں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت پاکستان میں ہر چیز کا ذمہ دار صرف ایک شخص ہے۔ منگلا ہائی سکول سے فارغ التحصیل میٹرک پاس حافظ سید جنرل عاصم منیر شاہ لیکن ایک جاہل جرنیل کی وجہ سے ہماری پوری فوج کیوں بدنام ہورہی ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button