ہفتہ وار کالمز

ہم کیسے لوگ ہیں ؟

خود احتسابی کا مشکل ترین عمل فرد ِواحد سے لیکر معاشرے میں بسے لوگوں کے لئے ایام ِ صیام لق و دق صحرا میں گزارنے کے مترادف ہے اپنی ناہلیوں کی پردہ پوشی اور دوسرے کے عیبوں کو سرِ راہ خود ساختہ سیاق و سباق کے ساتھ برہنہ کرنا ہماری پختہ عادات میں شامل ہو کر ثقافت کا درجہ پا چکیں ہیں یعنی غیبت ہماری گفتگو میں ایک اہم کردار کی حامل ہوتی ہے سننے والا اور سنانے والا دونوں معزورہوتے ہیں بشمل میرے یا ہم سب کے کسی کا دھیان اس طرف نہیں جاتا کہ اللہ پاک نے غیبت کرنے والے کو اس عادت ِ بد سے منع فرماتے ہوئے بتایا ہے کہ غیبت کرنا بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے ۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے کیا آپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ ہم نے اسلامی احکامات کو اپنے حصول ِ مقاصد کے لئے تو تسلیم کیا ہے مگر جب کسی کو اُس کا حق دینے کی بات آتی ہے تو ہم سب اُس کو نہ صرف نظر انداز کر تے ہیں بلکہ اپنے بے چین نفس کونفس ِ مطمئنہ میں بدلنے کے لئے دین میں ترمیم کرنے سے بھی نہیں کترا تے کوئی صاحب ِ علم اگر غور کرے تو اُسے پاکستان کے آئین میں اتنی ترامیم کا اضافہ نہیں ملے گا جتنی ترمیمیں ہوس ِ دنیا میں رہنے والوں نے اپنے غیر شرعی مفادات کے عوض کر رکھیں ہیں ہمارے اس معاشرے میں عورت کو اُس کے کسی روپ میں بھی جائیداد سے حصہ دینا میرے کلمہ گو بھائی صحیح نہ سمجھتے ہوئے عورت کو اللہ کی جانب سے دئیے گئے حق سے محروم رکھتے ہیں زوجین کو حق ِ مہر کی ادائیگی بھی طلاق کے مسئلے پر عدالتی کاروائی کے طویل مباحثے کے بعدہی عمل پذیر ہوتی ہے جس میں ظاہر ہے خوف ِ الہی نہیں توہین ِ عدالت کی سزا کا ڈر لاحق ہوتا ہے ہمارا ایسے معاشرتی طرز ِ عمل میں حکمران بھی کسی سے کم نہیں ٹھیک ہے ہم نے مانا کہ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ ٹرپل سی سے بی مائنس کر دیا ہے اور فچ کے مطابق معاشی منظر نامہ بھی منفی سے مستحکم ہو چکا ہے جس سے پاکستانی کرنسی بھی بی مائنس کے دائرے میں ہو گئی ہے گویا اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لینے والی معیشت کی سانسوں میں بحالی ہوئی ہے مکمل صحت یاب ہونے میں کتنی دیرہے اس حوالے کوئی خبر نہیں مگر اس معاشی بحالی اور بحالی کے اثرات کب عوام کی زندگی پر نمودار ہونگے اُس کا ذکر جانے کیوں مخفی ہے ؟اصل میں جھوٹ بولنا ہماری عادات شریفہ میں شامل ہے سیاسی جماعتوں کے اہل کار تو گروہ کی صورت میں نہ صرف جھوٹ بولتے ہیں بلکہ اُسے سوشل میڈیا پر پھیلانے میں بھی ید طولی رکھتے ہیںجھوٹ کو بہ یک زبان بول بول کر بے شعور عوام کو مزید گمراہ کرنا ان کے نزدیک ایک بہترین کھیل ہے جو وہ اپنی سیاسی جماعت کو اقتدار میں رکھنے یا اقتدار میں لانے کے لئے کرتے ہیں ہٹلر کے پروپیگنڈہ سیکرٹری جوزف گوئبلز کی روح بھی ایسی دروغ گوئی سے لرزہ براندام ہو جاتی ہے لیکن ہم جھوٹ کے عادی لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہم الزام تراشیوں و بہتان تراشی کی ٹوکریاں اُٹھائے مخالفین کے گھر کے آگے پھینکتے رہتے ہیں شادی اور رشتہ بندھنوںکو اس قدر مشکل بنادیا ہے کہ اس معاشرے کی غیر اسلامی غیر شرعی رسموں سےبیٹیوں بہنوں کے بالوں میںچاندی بسیرا کر لیتی ہے لیکن پاکیزہ نکاح کا عمل ہماری حرص و لا لچوں کے کارن مکمل نہیں ہوتا ہے یہ ظلم ِ ناروا جس کا مرتکب میرے سمیت ہر شخص ہے روز ِ محشر بارگاہ ِ الہی میں کیا جواب دے گا ؟ یہ جوان بچوں کے ارمانوں کا خون ہے لیکن ذرا نظر ڈالیں فلسطین پر اور غزہ کے ننھے معصوم شہیدوں پر جو اپنے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے سپرد ِ موت کر دئیے گئے بوڑھے جوان زن و مرد سب اسرائیل کے بد مست ہاتھیوں کے پیروں تلے اللہ اکبر کہتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر پہنچ رہے ہیں مگر اُمت مسلمہ کے حکمران صرف مذمت کر کے بیان بازیاں کر کے خود کو سرخرو کر رہے ہیں بھول گئے ہیں کہ عذاب ِ الہی کا نزول شروع ہوا تو ابابیل کے کنکر پہلے ہم بے حس مسلمانوں پر پڑیں گے جو اپنے مسلمان بھائیوں کو کفار کی بمباری سے شہید ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں مگر اُن کے خلاف سینہ سپر نہیں ہورہے ڈاکٹر اسرار مرحوم نے اپنے ایک درس میں فرمایا تھا کہ جیسے کسی دیو کی جان طوطے میں ہوتی ہے ایسے ہی یہودیوں کی جان سود میں ہے مسلمان سود پر قرضے لینا بند کریں یہ یہود مر جائے گا افسوس یہ ہے کہ ہم کیسے لوگ ہیں اتنے ساری خرابیاں لئے اللہ کی ناشکری کرتے ہوئے اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے اسرائیل کی بنائی پراڈکٹس کا بائیکاٹ نہیں کرتے اُلٹا یہودیوں سے سودی قرض لیکر اپنی معیشت کو سہارا دیتے ہیں جانتے ہیں کہ سود اللہ سے جنگ ہے لیکن پھر بھی جان بوجھ کر یہ گناہ کئے جارہے ہیں سمجھ نہیں آتی کہ ہم کیسے لوگ ہیں نہ دنیا بہتر ہے ہماری اور نہ آخرت کے لئے کوئی بہتری کا سامان ہمارے پاس ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button