اک اندھا اک کوڑھی !

اُردو کے دو محاورے یا کہاوتیں یاد آرہی ہیں۔ ایک ہے، اللہ نے ملائی جوڑی، اک اندھا اک کوڑھی
اور دوسری کہاوت ہے، اندھے سے اندھا ملے، کرکے لمبے ہاتھ!
یہ کہاوتیں ہمیں یوں یاد آئیں کہ تین چار روز سے سوشل میڈیا میں اس حوالے سے جیسے اک آگ لگی ہوئی ہے کہ مشہورِ زمانہ چور شریف خاندان کا پورا ٹبر، سرکاری خرچہ پر، سرکار کے جہاز میں لد کر، اپنے گرو گھنٹال، نواز شریف کی سربراہی میں سرکاری دورے پر مشرقی یورپ کے ملک بیلا روس کیوں گیا ہے ؟
یاد رہے کہ نواز شریف کے پاس فی الحال کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ جرنیلوں کی مقبوضہ پارلیمان کے رکن ہیں۔ لیکن پاکستان میں جن کو نوازنا مقصود ہو تو ان کیلئے ہزار راستے پیدا ہوجاتے ہیں، ان کیلئے یزیدیوں کی سرپرستی میں جواز پیدا کرنا قانون کی حکمرانی سے مبرا پاکستان میں بقول شخصے بائیں ہاتھ کا کام ہے !
تو سرکاری دورہ اس عنوان سے بنایا گیا کہ نواز چور کے برادرِ خورد، جرنیلوں کی آنکھوں کا تارا، شہباز شریف پاکستانی قوم کی بدنصیبی سے ملک کا کٹھ پتلی وزیر اعظم ہے۔ لہٰذا وزیر اعظم شہباز شریف کی سرپرستی میں شریف خاندان کا بچہ بچہ اس دورے میں نواز اور شہباز کے ہمراہ ہے۔ مریم نواز تو جرنیلوں کیلئے وہی مقام رکھتی ہیں جو جنرل یحییٰ کے دور میں گجرات کی جنرل رانی کو حاصل تھا۔ لیکن مریم نواز کے بچے، داماد اور نواز کے وہ دونوں بیٹے جو بڑے فخر سے منہ پھلاکے یہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ برطانیہ کے شہری ہیں، بھی لندن سے نمودار ہوکر اس سرکاری وفد میں شامل ہوگئے۔
پاکستان تو شریف خاندان اور ڈکیت زرداری اور اس کے لواحقین کیلئے وہ بہتی گنگا ہے جس میں یہ دونوں رسوائے زمانہ خاندان ڈبکی ہی نہیں لگارہے بلکہ بے ستر ہوکے اشنان کر رہے ہیں۔ وہ کہاوت تو آپ نے یقینا” سنی ہوگی کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔ تو وہ یزیدی جرنیل جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ کے اس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں، برباد کر رہے ہیں، انہیں نمائش کیلئے ، قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے کچھ سیاسی گوماشتوں کی ضرورت تو بہر حال ہوتی ہے جنہیں وہ کٹھ پتلیوں کی طرح اسٹیج پر نچا سکیں اور عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کرسکیں کہ ملک کا اختیار سیاستدادانوں کی تحویل میں ہے۔ سو یہ دو خاندان وردی پوشوں کی اندھیر نگری میں خوب پھل پھول رہے ہیں اور ان کے سرپرستوں نے جو موقع انہیں ملک کو مزید لوٹنے کا فراہم کیا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ جانے کب ان کی چاندنی ظلمت میں بدل جائے اور انہیں ملک سے فرار ہونا پڑے ! سوشل میڈیا پر متحرک ہونے والے نوجوان زیادہ تر وہ ہیں جنہیں پاکستانی سیاست کے رموز و اسرار کا وہ ادراک ہیں ہے جو ہم جیسے جہاندیدہ لوگوں کی عمر بھر کی کمائی ہے۔ لیکن یہ کمائی کوئی ایسا سرمایہ نہیں ہے جس کی اساس طمانیت یا سکون میں ہو۔ ایک طرح سے تو یہ آگہی عذاب ہے، روگ ہے جسے چھٹکارا ملنا محال ہے۔ مجھے اپنا ہی ایک بہت پرانا شعر یاد آرہا ہے اور یوں یہ شعر حافظہ میں محفوظ رہ گیا کہ ہمارے وطنِ مرحوم کے حالات تو کبھی سدھرتے یا سنورتے ہی نہیں ۔ جیسے ہی سیاہ بادلوں کے حاشیہ پر کوئی روشن کرن دکھائی دیتی ہے فورا” ہی سیاہ بادل پھر سے چھاجاتے ہیں اور روشنی کی وہ کرن ناپید ہوجاتی ہے، سیاد بادلوں میں چھپ جاتی ہے۔ ہمارے اس کہے پر یقین نہ ہو تو پاکستان کے حالیہ برسوں کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی ہماری بات پر یقین آجائے گا۔ یزیدیوں کیلئے عمران خان جیسے دیانت دار سربراہ کو برداشت کرنا دشوار ، محال ہوگیا تھا۔ انہیں تو شریف خاندان کے نامی چور اور ڈکیت زرداری جیسے رسوائے زمانہ موروثی سیاستدان ہی بھاتے ہیں اسلئے کہ وہ خود بھی کھاتے ہیں اور جرنیلوں کو بھی کھانے اور لوٹنے کا موقع دیتے ہیں۔
تو ہمارا شعر یہ تھا کہ
مجھے عذابِ خرد کب تلک خدا دے گا
وہ دن کب آئے گا اس آگ کو بجھا دے گا!
وہ دن آج تک نہیں آیا۔ عمران کے تین ساڑھے تین سالہ دورِ حکمرانی میں کچھ امید بندھ چلی تھی کہ برسوں کی لگی آگ بجھ جانے کے آثار دکھائی دینے لگے تھے لیکن توبہ کیجئے۔ خدا کو شاید یہ منظور نہیں ہے کہ ہم اپنی زندگی میں وطنِ مرحوم کو وہ کروٹ لیتے دیکھیں جس کی امید میں ساری عمر جلتے رہے ہیں، سلگتے رہے ہیں۔
سو ہوا وہی جو پاکستان کی تاریخ میں معمول بن چکا ہے۔ جیسے ہی پاکستان میں سیاسی اور جمہوری استحکام کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں کوئی عسکری طالع آزما جمہوریت کی کشتی الٹ دیتا ہے تاکہ یزیدیوں کی چودہراہٹ کو خطرہ نہ لاحق ہوجائے۔ سو عمران کی سربرارہی اور ملاحی میں پاکستانی جمہوریت کا سفینہ جو کنارے لگنے والا تھا اسے باجوہ شیطان نے انہیں چوروں اور ڈاکوؤں کی مدد سے الٹ دیا اور پاکستان پھر سے تاریکی کے دور میں ڈوب گیا!
تو سوشل میڈیا کے نوجوان ہی نہیں بلکہ روایتی میڈیا کے بقراط بھی اس بات پر پریشان تھے کہ یہ اچانک بیلا روس جیسا ملک پاکستان کیلئے اتنا اہم کیوں ہوگیا کہ ابھی، چار پانچ مہینے قبل، گذشتہ نومبر میں جب تحریک انصاف کی عوامی احتجاج کی مہم اپنے عروج پر تھی بیلا روس کے صدرِ مملکت، الیگزنڈر لوکاشنکو، پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے تھے اور تحریکِ انصاف کے عوامی احتجاج کے خلاف یزیدیوں نے انہیں کے سرکاری دورے کو جواز بنا کر بہیمانہ تشدد کیا تھا!
تو آخر کیا گرمجوشی ایسی پیدا ہوگئی پاکستان اور بیلا روس کے دو طرفہ تعلقات میں کہ کٹھ پتلی شہباز شریف اپنے پورے ٹبر اور وفادار خواجہ سراؤں کے ہمراہ بیلا روس کے سرکاری دورے پر نکل پڑے !
وہ ویڈیو کلپ شاید آپ نے بھی دیکھا ہو جو سوشل میڈیا میں وائرل ہوگیا ہے اور جس میں نواز شریف، شہباز سے آگے لپک کر صدر لوکاشنکو سے یہ کہہ کر بغل گیر ہوئے کہ میرے دوست، آپ کا کیا احوال ہے!
صدر لوکاشنکو اپنے ملک کی سربراہی پر گذشتہ تیس برس سے براجمان ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقام جمہوری معاشرہ میں تو کسی کو نہیں ملتا کہ وہ مسلسل تیس برس سے حکومت کو اپنی جاگیر سمجھ کے مسلط رہے۔ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے بعد ہی لوکاشنکو یہاں تک پہنچے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کا قارورہ شریف خاندان سے خاص طور سے اس حوالہ سے ملتا ہے کہ 2021ء میں کرپشن کے خلاف تحقیقات کرنے والے عالمی ادارہ نے انہیں یورپ کا سب سے کرپٹ اور بدعنوان سیاسی رہنما قرار دیا ہے اور ان کا یہ اعزاز آج تک انہیں حاصل ہے۔ ان کی کرپشن کے کارنامے ایسے ہی مشہور ہیں جیسے شریفوں یا زرداری کے !
شریفوں کی میزبانی کرنے والے صدر لوکاشنکو کے اس تعارف کے بعد ہی سوشل میڈیا کے نوجوان مبصروں اور ہمارے جیسے گھسے پٹے ہوئے پنڈتوں کی سمجھ میں آیا کہ یہ جو پورا شریفوں کا ٹبر اور ان کے معتمد خواجہ سراؤں کا پورا لشکر لد کر بیلا روس گیا ہے تو اس کے پیچھے حکمت کیا ہے!
حکمت یہ ہے کہ چور چوری سے تو نہیں جاتے۔ آج بھی شریف خاندان یزیدی سرپرستی کے سائے میں لوٹ مار کا اپنا پسندیدہ کھیل کھل کے کھیل رہے ہیں لیکن خوفزدہ بھی ہیں کہ جب یہ چاندنی اپنی طبعی موت مرجائے گی تو انہیں ملک سے بھاگنا پڑے گا۔ بھاگنے کی تو انہیں پرانی عادت ہے اور اس میں وہ کمال کی مہارت بھی حاصل کرچکے ہیں لیکن چور خالی ہاتھ تو نہیں بھاگتا۔ وہ اپنی چوری اور لوٹ مار کی کمائی بھی ساتھ لیکرجاتا ہے۔
اب مشکل یہ ہوگئی ہے کہ مغربی یورپ میں شریف اور زرداری جیسے عالمی شہرت کے حامل چوروں کیلئے منی لانڈرنگ دشوار ہوگئی ہے کیونکہ ان ممالک کے قوانین ان کی راہ مسدود کرنے اور ان کے حوصلوں پر پانی پھیرنے کیلئے بہت ہے۔ ابھی حال ہی میں نواز کے فرزند، حسن نواز پر برطانیہ میں بھاری جرمانہ ہوا ہے ٹیکس کی چوری پر۔
مختصر یہ کہ اب پاکستان یا دبئی کی جنت سے منی لانڈرنگ ان ماہر چوروں کیلئے بھی مشکل ہوگئی ہے ۔ تو ایسے میں لوکاشنکو جیسے گھاگ چور کی یاری مشکلات کا حل ہوسکتی ہے۔ پہلے چوری کا مال بیلا روس جائے گا اور پھر وہاں سے برطانیہ، یا کہیں اور، کسی اور محفوظ پناہ گاہ میں!
لوکاشنکو بھی طفلِ مکتب تو نہیں ہے۔ اس بحر کا پرانا شناور ہے۔ وہ اپنی پتی یعنی اپنا کمیشن تو لے گا لیکن چوروں کی کمائی اتنی ہے کہ اس کا منہ بند کرنے کے بعد بھی اتنا بچ رہے گا جس سے چوروں کی آنے والی ساتھ نسلیں بھرپور استفادہ کرسکیں گی۔
اب سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ بیلا روس کے ساتھ جو پینگیں بڑھ رہی ہیں ان کا بھید کیا ہے !
پاکستانی قوم کی بدنصیبی کی داستان جاری ہے۔ اس میں کچھ تو یزیدی جرنیلوں کی تحریر ہے جو ملک پر سیاسی گماشتوں اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے پردہ میں مسلط رہنے کا ناٹک عرصہء دراز سے رچائے ہوئے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس المیہ کے حصے کا بڑا اسکرپٹ پاکستان کے عوام کی بے حسی اور تدبیر کے فقدان نے تحریر کیا ہے۔
کل شام ہم ٹورنٹو میں ایک ایسی عید ملن پارٹی کے کلیدی خطیب تھے جو ہمارے شہر کے پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں نے مل کے منعقد کی تھی۔
ظاہر ہے کہ ایک برس پہلے ایسی تقریب کا تصور بھی محال تھا کہ جس میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی، دو برسوں کے بچھڑے ہوئے بھائی ایک جگہ مل جائیں، مل بیٹھیں اور آپس میں گلے شکوے کرنے کے بعد ایسے گلے ملیں جیسے دو دیرینہ دوست ملتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے حریت پرست نوجوانوں نے اپنی قوم کو حسینہ واجد کی ظالم اور استبدادی حکومت سے نجات دلوانے کیلئے گذشتہ سال اگست کے مہینے میں علمِ مزاحمت بلند کیا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن تین ہفتے کی بھرپور مزاحمت کے بعد حسینہ واجد کی طاغوتی حکومت کو دریا برد کردیا۔ یہ جو پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کا ملن ہوا ہے یہ اسی کی دین ہے !
کل ہم نے اپنے خطاب میں یہی کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام، اور خصوصا” نوجوانوں میں حریت کا جذبہ بیدار تھا تو انہوں نے ایک طاغوتی حکومت کو جڑوں سے اکھیڑ کر پھینک دیا اور پاکستانی عوام اور نوجوان نسل کیلئے ایک روشن مثال قائم کردی کہ اپنی تقدیر کو کیسے خود اپنے عمل سے بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن پاکستانی عوام اور نوجوان نسل نے اس روشن مثال کی پیروی آج تک نہیں کی اور اسی لئے پاکستان میں جرنیلوں کی مسلط کردہ تاریک رات سمٹنے کو نہیں آرہی۔ سحر کے آثار کہیں پاکستان کے افق پر دکھا ئی نہیں دیتے۔
تحریکِ انصاف کی اپنی صفوں میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا افسوسناک عمل شروع ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یزید عاصم منیر اور اس کے گماشتے بھرپور کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے تنظیمی ڈھانچہ کو زک پہنچائی جائے اور اس مذموم کام میں ان کے ایجنٹ اور پیسے پر بکنے والے ان کی پوری طرح سے مدد کر رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف میں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ تحریک کا بانی اور قائد عمران خان سلاخوں کے پیچھے بند ہے۔
شیر جب پنجرے میں بند ہوجائے، یا کردیا جائے تو گیدڑوں کی عید ہوجاتی ہے۔ کل شام کی انوکھی اور دلچسپ عید ملن پارٹی میں ہم یہی کہہ رہے تھے کہ بنگلہ دیشی عوام نے اپنے جذبہء آزادی سے جو مشعل روشن کی ہے اس کی حرارت اگر پاکستانی عوام اور جمہور کے سینوں میں بھی نجات کے چراغ کو لو دے دے تو ہمارے لئے وطنِ مرحوم کے حوالے سے وہی عید کا دن ہوگا!
اے کاش کہ ہم اپنی زندگی میں پاکستان کی سوئی ہوئی ، خوابِ خرگوش میں محو، قوم کو بیدار ہوتے دیکھ سکیں۔ اب اللہ سے ہر نماز میں یہی دعا کرتے ہیں کہ جن آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا تھا انہیں آنکھوں سے پاکستان پر مسلط یزیدی فسطائیت کا سورج غروب ہوتے بھی دیکھیں !