ہفتہ وار کالمز

دہشت گردی و پوست کی کاشت

ممتاز صحافی جناب ارشد عزیز ملک (ستارہ امتیاز ) بتاتے ہیں کہ خیبر پختون خواہ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کروڑوں روپے کی پوست کی کاشت کی گئی ہے مگر اس ہوشربا خبر پر مجھے خیبر پختون خواہ حکومت کا اظہار لا علمی کرنا ورطہ حیرت میں ڈال گیا قومی سلامتی کی کمیٹی کے فیصلے سے رُو گردانی کرتے ہوئے کے پی کے حکومت نے افغان مہاجرین کو صوبے سے واپس افغانستان بھیجنے پر انکار کر رکھا ہے جب کہ افغان مہاجرین کی جائے واردات ڈیرہ اسماعیل خان ہے جو کہ وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کا آبائی علاقہ ہے زمینی حقائق سے اس درجے کی چشم پوشی کی توقع نہیں کی جا سکتی مگر موصوف اپنے منصبی و قومی فرائض سے غفلت کرتے ہوئے افغان باشندوں کی مذید میزبانی کے شوق میں دکھائی دیتے ہیں اپنے طور پر میرے خیال کے مطابق وزیراعلی کے پی کے یہ نظر اندازی کی روش لئے تنقیدی دانتوں کا لقمہ بنے ہوئے ہیں اس کی وجہ عمران خان کی ذاتی افغان پالیسی جو انھوں اپنے دور ِ حکومت میں ان دہشت پسند گروہوں کو پاکستان میں رہنے کی نقل و حمل کرنے کی اجازت دی ہے اُس سے منہ نہیں موڑنا ہے اسی بناء پر محترم گنڈا پور اس دو دھاری تلوار پر کھڑے اپنے پسینے خشک کرنے کی کوششوں میں ہیں تا کہ منصب کا بھرم بھی رہے اور مستقبل کی شرمندگیوں کا سدباب بھی ہو سکے ۔تحریک ِ انصاف کی پوری قیادت ریاست سے زیادہ اپنی جماعت کی سیاست کو اہم بنا کر بیشعور عوام میں نفرتوں کو جلسوں کے ذریعے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے بیشک وہ سوشل میڈیا جسے باہر بیٹھے پاکستانی جو زمینی حقائق کی سچائی سے بالکل بے خبر ہو کر شخصیت پرستی کی لت میں ڈوبے پھیلا رہے ہیں کسی مہربان نے راوی کو یہ اشارہ بھی دیا کہ قادیانی فرقے کے لوگ غریب الوطن لوگوں کو بھاری رقوم ،و سہولیات کے عوض قادیانی دائرے میں لاکر پاکستان کے خلاف ،پاک فوج کی تحقیر ایسے مرتد مکتبۂ فکر کے لوگوں سے کروائی جارہی ہے جس سے کہ پاکستان دشمن قوتوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے سوشل میڈیا اور نفرت کی سیاست سے چلنے والی ہوا دہشت گردی کی آگ کو پھیلنے میں مددگار ہو رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسری جانب اُن افغان باشندوں کو دوبارہ غلطی کا اعادہ کرتے ہوئے پناہ دی گئی ہے جو ہزاروں بیگناہ شہریوں کے قاتل ہیں اور یہ افغان پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر قائم ہیں صوبہ بلوچستان جوکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ بات بھی شک سے بالا ہے کہ بلوچ قوم کا یہ صوبہ محرومیوں کے لحاظ سے بھی دیگر صوبوں کی نسبت سر فہرست ہے اور دشمنوں نے ان ہی محرومیوں کی بنیاد پر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے تعلیم و شعور سے محروم بنیادی سہولتوں سے تہی دست بلوچ عوام کو اپنے چنگل میں لیا ہوا ہے دہشت گردی کی ان مسلسل بارشوں سے ریاستی عدم استحکام کے سیلابوں کے خطرات آئے روز تقویت پا رہے ہیں دہشت گردی کے اخراجات سے نمٹنے کے لئے مسلح باغی گروہوں کے ریاستی باغیوں نے پوست کی کاشت کو ذریعۂ آمدن بنانے کی کوششوں میں مصروف ِ عمل ہیں ذرائع کے مطابق پوست کی کاشت پستوری اور کوچمینہ کے علاقوں میں کی جارہی ہے جہاں ریاستی مخالفین کی بڑی تعداد رہائش پذیر بھی ہے امجد عزیز ملک بتاتے ہیں کہ تقریبا 25ایکڑ رقبے پر ،جو چار یا پانچ مختلف جگہوں پر مشتمل ہے اس پر پوست کی کاشت کی گئی ہے جس سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 500کلو گرام افیون حاصل کی گئی ہے جس کی مالیت تقریبا 1.6ارب روپے بتائی گئی ہے دہشت گردی کے لئے ایسی وافر سہولیات کا سر ِ عام میسر ہونا ہماری نااہلیوں کی جاگتی تصویر ہے دیکھیں نا دہشت گرد ہماری ریاست کے اندر آ کر پوست کی کاشت بھی کریں اپنے تحفظ کیلئےپناہ گاہیں بنائیں بنا کر اپنی دہشت گردی کا نیٹ ورک چلائیں اور صوبائی و وفاقی حکومتیں بشمول ایجنسیوں کے بے خبر ہوں تو ایسا ہونا ریاست کے لئے المناک ہے افیون کی رقم کو ظاہر ہے دہشت گردی کی تکمیل کے لئے ہی استعمال کیا جائے گا جو قومی سلامتی کو مزید خطرات سے دوچار کر سکتا ہے ارشد عزیز ملک بتاتے ہیں کہ اقوام ِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم (UNODC (نے 2023تک افغانستان میں افیون کی پیداوار میں نمایاں کمی کی تصدیق کی تھی تاہم حالیہ رحجانات سے منشیات کی پیداوار میں اضافہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر حکومتوں کا ناقص کنٹرول ہے جو اسمگلروں اور انتہا پسندوں کے لئے متبادل ذریعے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے عملی سدباب کے لئے دفاعی طاقتوں کا متحرک ہونا نا گزیر ہے تا کہ دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے ریاست پاک ہو ۔غیر قانونی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلح گروہوں کی مالی معاونت کرنے والے راستوں پر حب الوطنی کے ناکے لگائیں جائیں اور ریاست دشمن عناصر سے وطن ِ عزیز کو پاک کیا جائے دہشت و پوست کی کاشت کا صفایا ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا آئندہ نسلوں کے لئے بھی بہتر نوید ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button