سیاست اور اسلامی سچ!

مسلمانوں کا عقیدہ رہا کہ جس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی اس نے کچی قسم کھائی، یہ نہیں دیکھا کہ قرآن کی قسم کھانے والے کا کردار کیسا ہے عدالتوں میں رات دن قرآن پر حلف اٹھائے جاتے ہیں اور جب CROSS EXAMINATION ہوتا ہے تو یہ حلف جھوٹے نکلتے ہیں ایسا کم ہی ہوا کہ جھوٹا حلف اٹھانے پر کسی کو سزا سنائی گئی ہو ، اور یہ بات تو زبان زدِ عام ہے کہ عدالتوں میں جھوٹا حلف اٹھانے والے کرائے پر ملتے ہیں یہ لوگ اپنی فیس لیتے ہیں اور وکیل جیسا پڑھا دیتے ہیں ویسا حلفیہ بیان دے دیتے ہیں ایسا جھوٹا حلف دینے والوں پر کبھی قرآن کی پھٹکار پڑی نہیں، ایک اور گمان یہ رہا کہ جس نے رسول کو خواب میں دیکھ لیا وہ ولی ٹھہرا، سو بغداد میں گلی کوچوں میں پھرنے والے گرد سے اٹے بدوؤں کو رسول کا دیدار ہونے لگا کچھ کو تو ON DEMAND خدا کا بھی دیدار ہوا خدا سے باتیں بھی ہوئیں ، جھوٹ کا وہ بازار گرم تھا کہ جن کے پاس سے بدبو کے بھبکے اٹھتے تھے وہ ولی بن گئے اور وہ روز نئے نئے احکامات ربی سناتے تھے اس طرح ان لوگوں نے ایک نیا دین برآمد کر لیا تھا، اس جھوٹ کی بنیاد پر یہ لوگ مقدس ٹھہرے، سوداگر نے اپنی کتاب تذکرۃ اولیاء میں ان کا تذکرہ بھی کیا اور علم سے عاری مولوی نے ان جھوٹے اولیاء کے قصے سر منبر جھوم جھوم کر سنائے اور جھوٹ کو ایمان بنا دیا یہ صورتِ حال اہل علم کے لئے پریشان کن تھی مگر اہل سیاست نے ان چیزوں کو سیاست کے لئے خوب خوب استعمال کیا، جب قرآن کی جھوٹی قسم کھانے سے نہ قہر ٹوٹا نہ قرآن کی پھٹکار پڑی تو اہل سیاست نے اس کا خوب استعمال کیا ادھر رسول اور خدا کے دیدار کی کوئی گواہی تو تھی نہیں صرف خواب بیان کرنے والے کی مکاری ہی کافی تھی، جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو مسلم لیگ کے ایک عہدیدار پر قتل کا الزام لگا وہ پیر بنیامن تھے بنیا من گھر سے قرآن اٹھا لائے اور قرآن اٹھا کر بیان دیا کہ قتل نہیں کیا جلسے میں ان کی بات کا یقین کیا گیا اور وہ قانون کی گرفت سے بچ گئے، قانون جھوٹے حلف کے سامنے بے بس تھا، یہ عمومی صورتِ حال ہے، مگر ان پڑھ عوام جن کو اسلام کی کوئی سمجھ نہیں ہے مگر ان دیکھے اسلام سے بڑی وابستگی ہے مسجد سے اعلان ہوگا کہ رسول کی شان میں گستاخی ہو گئی ہے اور تمام اہل علاقہ ڈنڈے لے کر گھروں سے نکل پڑیں گے اور جس پر الزام لگا ہے اس پر حملہ آور ہونگے اور اسے جان سے مار دینگے، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ مقتول بے گناہ تھا اس وحشی غول نے سری لنکن ENGINEER کو بھی اسی طرح مار دیا، مگر ان پڑھ کی عقیدت ایک بڑا ہتھیار ہے، قرآن کی دو آیات سنا دیجیے یہ وحشی ریوڑ آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑے گا یہ بتاتا چلوں کہ ایلیٹ کلاس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ان کی دین سے کوئی وابستگی نہیں گھر کے اندر یہ لوگ اسلام PRACTICE نہیں کرتے شلوار پہنا ہوا دیکھیں تو سمجھ لیں کہ یہ کلچر کے رنگ ہیں ،BARRISTER اعتزاز احسن نے بھی آیات پڑھ کر ایک جلسے میں لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی اور غلط آیات پڑھ دیں، ایسی ہی کوشش PEOPLES PARTY کے وزیر داخلہ رحمنٰ نے بھی کی اور غلط آیات پڑھ دیں، یہ سورہ اخلاص اور سورہ عصر کی بات ہے ابھی ایک معروف تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے ایک عالم سے دعائے قنوت سنانے کی فرمائش کی اور وہ بغلیں جھانکنے لگا، مطلب یہ کہ کہ سیاست دان اور مولوی اسلام کو دھندہ بنائے ہوئے ہیں، اسلام کا سیاسی استعمال ہو رہا ہے اور مولوی دین بیچ رہا ہے کل پی ٹی آئی کے اعظم سواتی نے قرآن ہاتھ میں اٹھا کر ایک بیان دے رہے تھے ، میری دانست میں قرآن اس لئے اٹھایا گیا کہ لوگ ان کی بات کا یقین کر لیں ، یعنی ذہن میں تھا کہ اگر قرآن نہ اٹھایا گیا تو لوگ ان کی بات کا اعتبار نہیں کرینگے اعظم سواتی کے لان میں جب ان کے ایک مفلس پڑوسی کی گائے گھس آئی تھی تو اعظم سواتی نے ایک وڈیرے کا روپ دھار لیا تھا اور پولیس اسٹیشن میں قرآن پر حلف نہیں اٹھایا تھا، موصوف نے حلف پر بیان دیا کہ عمران کے حکم پر انہوں نے ESTABLISHMENT سے مذاکرات کی راہ نکالنے کی کوشش کی تھی جب عاصم منیر آرمی چیف تھے بیچ میں عاصم کے استاد کو استعمال کرنے کی کوشش بھی کی اس وقت کے صدر عارف علوی سے بھی مدد لینے کی کوشش کی تھی، مگر کامیاب نہ ہو سکے، انہوں نے پارٹی کے کچھ لوگوں پر الزام بھی لگائے کہ وہ پارٹی کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں، لطف کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور ESTABLISHMENT کی بات حلف اٹھا کر کی گئی اور پارٹی کے کچھ لیڈران کے بارے میں بات حلف کے بارے میں کی گئی اور بھی کہا گیا کہ وہ علی امین کے ساتھ ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور کچھ لوگوں پر الزامات کر پشن کے الزامات لگا رہے ہیں اور وہ وزیر اعلیٰ گنڈا پور پر کرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں، تیمور جھگڑا پر بھی اربوں کی کرپشن کا الزام ہے، اور یہ سب پختون خواہ میں ہی ہو رہا ہے بات بڑھی تو حلف اٹھا لئے جائینگے اور معاملہ رفع دفع ، پاکستان میں آج تک کسی پر کرپشن کا الزام ثابت تو نہیں ہوا، البتہ حلف آج بھی ہر حال میں RELEVENT ہے آج اعظم سواتی کے بیان پر مختلف الیکٹرانک چینلز نے پروگرام کئے مگر بات سرسری ہی رہی بات یہ ہے کہ پچاس منٹ کے پروگرام میں بیس منٹ کے اشتہارات اور تیس منٹ کے پروگرام میں کئی معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں، اور کسی موضوع پر سیر حاصل گفتگو نہیں ہو پاتی جیو نیوز کا ایک ٹاک شو REPORT CARD قدرے بہتر تھا شرکاء کا خیال تھا کہ یہ ویڈیو ٹاک اعظم سواتی کو RELEVENT رکھنے کے لئے کی گئی سہیل وڑائچ نے خوبصورت بات کی کہ یہ ویڈیو ٹاک در اصل ESTABLISHMENT پر دباؤ ڈالنے کے لئے تھی، یہ بار بار ESTABLISHMENT سے بات کرنے کی بات کرتے ہیں کہ ہمیں بر سر اقتدار لے آؤ بر سر اقتدار آنے کے لئے انہوں نے کئی کوششیں کیں لانگ مارچ، دھرنے کی کوشش، ریلیاں، جلسے جلوس، حتی کہ آئی ایم ایف کو بھی خط لکھے گئے امریکہ میں LOBBYING FIRMS کی خدمات مول لی گئیں کانگریس سے امیدیں باندھی گئیں اور پھر امید لگا لی گئی کہ ٹرمپ خان کو باہر نکال لے گا، اعظم سواتی کی یہ ویڈیو ٹاک بھی اسی کی ایک کڑی ہے پی ٹی آئی ایک بنیاد پرست سیاسی جماعت ہے جیسے جمیعت علمائے اسلام، لبیک، سنتی اتحاد کونسل یا مجلس وحدت المسلمین پی ٹی آئی ان تمام جماعتوں کی طرح یہ جانتی ہے کہ اسلام سے نابلد ان پڑھ لوگوں کو کیسے اسلام، قرآن اور جھوٹے حلف اٹھا کر MOBLIZE کیا جا سکتا ہے، ان کو یقین ہے کہ ان پڑھ عوام ان کی بات کا یقین کرلیں گے ان جماعتوں کے پاس دینی شعبدہ بازی کے سوا اور کچھ نہیں، دلیل پر یہ لوگ بات نہیں کرتے ان کا سارا اثر و رسوخ پختون خواہ میں ہے پنجاب کو مریم نواز نے اپنے سخت اقدامات سے کنٹرول کر لیا ہے، سندھ میں پی ٹی آئی کی کوئی آواز نہیں کراچی میں تھوڑی بہت نفری ہے جو پی ٹی آئی کا دم بھرتی ہے بلوچستان میں کوئی تنظیم نہیں افغان در اندازی کرکے مسلسل بد امنی پھیلاتے ہیں جس پر پی ٹی آئی لیڈران چپ رہتے ہیں مذمت نہیں کرتے جس سے گمان ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اسی جماعت کے ایما پر پاکستان پر حملہ آور ہوتی ہے پی ٹی آئی ESTABLISHMENT سے ہی مدد مانگ رہی ہے ایاک نا بعد و وایاک نستعین کہیں فضا میں تحلیل ہو چکا، ESTABLISHMENT سے بات چیت کے دروازے تو نہیں کھلیں گے فوج کو مسلسل گالیاں اب بھی پی ٹی آئی OVERSEAS SOCIAL MEDIA KEYBOARD WARRIORS دے رہے ہیں شہباز حکومت کو معاشی محاذ پر جو کامیابیاں ملی ہیں ان سے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں اور بات تو یہ ہے کہ عمران کو نئے دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کی حمائیت شائد حاصل ہو مگر چوبیس کروڑ کا مستقبل ان نئے ووٹرز کے ہاتھوں برباد نہیں کیا جا سکتا۔