رسائی نہیں رہائی، عدالت بیسوا ہو چکی ہے

ریاست بیت الخلاء بن چکی ہے، لیڈر خصی ہو گئے ہیں اور فوج نامرد ہو چلی ہے! مراد سعید نے اس ہفتے پشاور کے نشتر کنونشن سینٹر میں ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے جانثاران عمران خان کے نوجوانوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی مردہ قیادت کو نہ صرف بھرپور طعنہ دیا ہے بلکہ نئی جوان قیادت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ فسطائیت کے پروردہ جرنیلوں سے جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے کیلئے بھیک مانگنا بہت ہو چکا ہے۔ اب مراد سعید کی ہم پلہ جوان نسل کو جرنیلوں سے اڈیالہ جیل میں رسائی کیلئے ترلے نہیں بلکہ اب خان کی رہائی کیلئے سرگرم ہونا ہے۔ جس طرح سے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت فوج کے جرنیلوں کے تلوے چاٹ رہی ہے اور اس کے تھلے لگی ہوئی ہے اس سے مایوس ہوکر یہ نعرہ لگانا کہ رسائی نہیں، رہائی وقت کی ضرورت اور عوام کی آواز بن چکا ہے۔ عدالتی احکامات کے باوجود اڈیالہ جیل میں بیٹھا ہوا ایک کرنل جو فیصلے کررہا ہے کس کو ملنا ہے اور کس نہیں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اب عدالت کی حیثیت اس طوائف کی جیسی ہو گئی ہے جو اپنی نائکہ جنرل عاصم منیر کے اشاروں پر گھنگھرو باندھے رقصاں ہے۔ ریاست کی رٹ کی یہ حالت ہے کہ آدھے بلوچستان میں رات کا کرفیو نافذ ہے اور دن میں دہشت گرد ناکے لگا کر عوام کے شناختی کارڈز دیکھ دیکھ کر گلے کاٹ رہے ہیں۔ صحافت جو ہے وہ بھکاری کا پیشہ بن چکی ہے اور ٹکے ٹکے پر بک رہی ہے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے پر تلی ہے، صرف سکوں کی چمک پر چلتی ہے۔ حکومت جو فارم 47پر بنائی گئی ہے اس کی حالت کلفٹن کراچی میں عید کے موقع پر سٹیج پر ناچتے ہوئے ان خواجہ سرائوں کی سی ہے جو ناچنے کے علاوہ جنرل عاصم کی خواہش پر دوسرا دھندہ بھی کرنے کو تیار ہے، جنرل کہتا ہے کہ ناچو تو وہ ناچنے لگتے ہیں، جنرل کہتا ہے کہ لیٹو، وہ لیٹ جاتے ہیں، بقر عید کے موقع پر بچپن میں جب ہم سنتے تھے کہ بکرا خصی نہیں ہونا چاہیے ورنہ قربانی قبول نہیں ہوتی، اس وقت تو ہمیں وہ باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، مگر اب تحریک انصاف کی دوسرے درجے کی کمپرومائزڈ قیادت کو دیکھ کر اچھی طرح سے سمجھ آگئی ہے۔ دوغلے اور منافق لوگ جو آج چیئرمین اور وزیراعلیٰ صرف عمران خان کے نام پر بنے ہوئے ہیں ان کی حیثیت بھی خصی بکروں سے کم نہیں ہے۔ آخری امید پاک فوج کے جونیئر جوانوں سے رہ گئی تھی مگر اب اندازہ ہورہا ہے کہ ان میں بھی کوئی مرد کا بچہ نہیں ہے جو اس ذہنی مریض جنرل حافظ سید عاصم منیر شاہ کو گدی سے اتار سکے اور عوامی خواہشات کا احترام ثابت کر سکے۔ اس ہفتے اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان کی تینوں بہنوں نے اسٹینڈ لے کر ثابت کردیا کہ گو کہ وہ صنفِ نازک ہی سہی مگر وہ کسی جرنیل کرنیل سے ہر گزخوفزدہ نہیں ہیں، جب اڈیالہ کے باہر، کورٹ کے حکم کے مطابق تینوں بہادر بہنیں عمران خان سے ملنے گئیں تو پردے کے پیچھے کرنل کے حکم پر جیل حکام نے کہا کہ علیمہ خانم نہیں مل سکتیں مگر باقی دو بہنیں خان صاحب سے ملاقات کر سکتی ہیں۔ دونوں بہنوں نے کہا کہ اگر علیمہ خانم کی ملاقات نہیں کرائی جائے گی تو ہم بھی ملاقات نہیں کریں گے۔ جیل حکام حیرت کیساتھ منہ تکتے رہ گئے، ہم یہ سوچ رہے تھے کہ وہ پیچھے پردے میں بیٹھا ہوا جو مردود کرنل تھا کیا اُسے بھی ان خواتین کی تہمت پر کچھ شرم آئی ہو گی کہ نہیں۔ جس ڈھٹائی اور فسطائی طریقوں سے یہ چند فوجی جنرلز اور کرنلز ہٹ دھرمی کے ساتھ ملک پر حکومت کررہے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ سب بھی بے غیرت اور بے شرم فوجی ہیں جو خواتین پر بھی ظلم کرنے سے باز نہیں آتے، جنرل عاصم منیر اپنے پیشروئوں کے انجام سے عبرت پکڑو، جب دس سال کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد جنرل ایوب مرا تو اس کے پڑوسیوں کو بھی پتہ نہیں چل سکا، جب جنرل یحییٰ نے اقتدار چھوڑا تو جنرل رانی تک اس کے پاس نہیں تھی، جب جنرل ضیاء الحق کے فضاء میں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے تو صرف اس کا ایک جبڑا ملا تھا اور آج اسلام آباد میں ایک بس سٹاپ کو جبڑا چوک سے یاد کیا جاتا ہے، جب جنرل مشرف کسمپری کی حالت میں دبئی میں مرا تو اس پر احکامات تھے کہ اگر یہ جنرل مر بھی گیا تو اس کی لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں پھانسی پر لٹکایا جائے، یہ وہی ڈی چوک ہے جہاں پر جنرل عاصم منیر نے نہتے پاکستانیوں کے سروں پر براہ راست گولیاں چلا کر شہید کیا تھا، ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ اسلام کے مطابق جب کوئی مسلمان کسی کافر کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو شہید ہوتا ہے لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ مرنے والا بھی مسلمان ہے اور مارنے والا بھی مسلمان تو شہید کون ہوا؟ بالکل اُسی طرح سے جب کربلا کے میدان میں معرکہ ہوا تو یزید بن معاویہ بھی مسلمان تھا اور حسین ابن علی بھی مسلمان تھے، پس پتہ یہ چلا کہ یہ مسلمان اور غیر مسلمان کی بات نہیں بلکہ رویوں کی جنگ ہے۔ آج کے دور میں بھی جنرل سید عاصم منیر شاہ ایک یزید کی صورت میں ظلم ڈھا رہا ہے اور یقینا اس کے ہاتھوں جاں بحق ہونیوالا ہرذ ی چوک کا پاکستانی جوان شہید ہے۔ اس زمانے میں یزید کی ماں ہندہ تھی جس نے امام حسین ؑ کا کلیجہ چبایا تھا اور آج کے دور میں ہندہ کی شکل میں مریم نواز ہے جس نے ارشد شریف کی شہادت کی خوشی میں لندن میں کیک کاٹا تھا یعنی یزید اور ہندہ ہر دور میں موجود رہے ہیں لیکن ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ آیا ہم یزید کیساتھ ہیں یا امام ؑ کے ساتھ ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان میں حق اور باطل کی جنگ جاری ہے۔
دکھائی یہ دے رہا ہے کہ اب حق و باطل کا معرکہ سڑکوں پر خونی جنگ سے ہی اختتام پذیر ہو گا اور پھر ہم بھی دیکھیں گے کہ کس طرح تخت الٹائے جائیں گے۔