ہفتہ وار کالمز

جب توقع ہی اٹھ گئی ۔۔۔۔

وطنِ مرحوم پاکستان کے شب و روز کا کیا احوال ہے یہ سوچ کر بھی تکلیف ہی ہوتی ہے لیکن سوچنے پر کوئی بس نہیں۔ہم جیسے بیرونِ ملک بسے ہوئے پاکستانیوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ جسمانی طور پہ تو ہم اس سرزمین سے، جسے بوجوہ چھوڑ آئے، ہزاروں میل دور ہیں لیکن دل و دماغ ہمہ وقت وہیں رہتا ہے، اسی کے شب و روز میں اٹکا رہتا ہے، الجھا رہتا ہے اور یہ وہ الم ہے جس کیلئے ہم کسی کو الزام نہیں دے سکتے سوائے اپنے دل، اپنے دماغ کے کہ یہ ظالم اسی کوچہ کے طواف میں رہتے ہیں اور اس اندھی گلی سے نکل نہیں پاتے، یا نکلنے کو تیار نہیں ہوتے، جہاں خود گرفتار ہوئے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی جو نئی لہر آئی ہے اس کیلئے وہ یزیدی جو پاکستان کو اپنی مقبوضہ سرزمین سمجھ کے اس کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں جو بد ترین دشمن بھی نہیں کرتا، بیرونی دنیا کو موردِ الزام قرار دیتے ہیں، اور بیرونی دنیا میں بھی اپنے پڑوسیوں کو۔
گیارہ مارچ، گذشتہ منگل کے دن کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کے ساتھ جو سانحہ ہوا اس کی تفصیل ہر پاکستانی کے دل پہ نقش ہوگئی ہے لیکن وہ بزدل وردی پوش جو بزعمِ خود ملک کے محافظ بنتے ہیں اور بڑی اکڑ سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ کسی دشمن کو پاکستان کا امن و چین برباد کرنے نہیں دینگے اس سانحہ کی کوئی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔
وہی روایتی بیانیہ جو برسوں سے دہرایا جاتا ہے، کسی گھسے ہوئے، ٹوٹے ہوئے، ریکارڈ کی طرح وہی اس سانحہ کے بعد بھی تواتر سے دہرایا جارہا ہے۔
فوج کا، بلکہ جرنیلوں کے ٹولہ کا وہ بقراط، ڈی جی آئی ایس پی آراحمد شریف، جس کے کردار و گفتار میں شرافت کی کوئی رمق بھی دکھائی نہیں دیتی، نے وہی گھسا پٹا بیان داغ دیا کہ بھارت دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور ٹرین پر حملہ کرنے والے دہشت گرد مستقل افغانستان سے ٹیلیفون کے ذریعہ رابطہ میں تھے۔
بھارت تو مان لیتے ہیں کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور ہر کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کمزور کیوں ہیں؟ آپ کی غفلت چور کو گھر میں داخل ہونے کا موقع کیوں دے رہی ہے؟ آپ کی تمام تر توجہ تو ملک کی سیاست کو اپنی لونڈی بناکے رکھنے پر مرکوز ہے اور آپ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا جب تک آپ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے بارے میں زہر نہ اگلیں اور احمد شریف نے حسبِ عادت، کھل کر نہ سہی لیکن یہ کہہ کر کہ ملک کے اندر بھی سیاسی کردار دہشت گردوں کو شہ دے رہے ہیں اپنے بغضِ عمران کا مظاہرہ کردیا۔
فوج کے ان یزیدی جرنیلوں کا انداز یہ ہے کہ دنیا میں ان سے بڑا تو کوئی معصوم ہی نہیں ہے۔ یہ تو دودھ کے دھلے، اجلے سفید براق ہیں ان کے پاس شر تو پھٹک ہی نہیں سکتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بزدل، جو کسی بیرونی دشمن کو دیکھ کے پانی میں بتاشے کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور فوری ہتھیارڈال دیتے ہیں لیکن اپنے نہتے شہریوں کے سامنے گلی کے کتے کی طرح شیر ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی انتشار کی جڑ یہ یزیدی جرنیل ہیں جن کی ہوسِ زر ان سے وہ سب کچھ کروارہی ہے جو فوج کو نہیں کرنا چاہئے لیکن وہ بنیادی فریضہ ادا کرنے کے یہ قابل نہیں رہے جس کیلئے غریب قوم اپنا پیٹ کاٹ کر ان سرکاری سانڈوں کو پال رہی ہے۔
دہشت گرد کیوں شیر نہیں ہونگے جب انہیں اطمینان ہو کہ گھر کا چوکیدار ہی گھر میں نقب لگانے والا ہے۔
اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والوں کے خلاف جب سنگینیں تان لی جائینگی اور پر امن احتجاج کرنے والی خواتین تک کو سڑکوں پہ گھسیٹا جائے گا تو دہشت گرد تو آپ سے آپ پیدا ہونگے!
ماہ رنگ بلوچ تو دہشت گرد نہیں ہے۔ وہ تو ایک انتہائی شریف، مہذب اور تعلیم یافتہ ایک نوجوان ڈاکٹر ہے جس کے باپ کو دہشت گرد تنظیم، آئی ایس آئی نے اغوا کیا اور دو مہینے بعد بیٹی کو باپ کی لاش ملی۔
اسی ماہ رنگ بلوچ نے پچھلے برس نومبر کے مہینے میں اپنے ہی جیسی پر امن خواتین اور نوجوانوں کی قیادت کرتے ہوئے کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک ہزار میل کی لانگ مارچ کی تھی تاکہ دارالحکومت میں بیٹھے ہوئے کٹھ پتلی وزیروں اور ان کی ڈوریاں ہلانے والے یزیدیوں کو اپنی شکایات سناسکیں اور اپیل کریں کہ بلوچستان کے پر امن غریب شہریوں کے مطالبات سنے جائیں اور ان کے حل تلاش کئے جائیں۔
لیکن اسلام آباد میں ان نوجوان عورتوں اور مردوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟
رینجرز نے خواتین کو بالوں سے پکڑ کر اسلام آباد کی سڑکوں پہ گھسیٹا، شدید سردی کے موسم میں ان پر پانی کی توپوں سے ٹھنڈا یخ پانی برسایا گیا اور کسی وزیر یا کسی جرنیل کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان پر امن احتجاج کرنے والوں سے بات کرلیتا یا ان کے مطالبات سننے کی تکلیف گوارا کرلیتا!
بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، اس کے شہریوں کا یہی مطالبہ ہے نا کہ ان کے صوبے کے وسائل جہاں حکمراں اپنی وراثت سمجھ کے بلا شرکتِ غیرے کھا رہے ہیں، اپنے گھر بھر رہے ہیں وہیں بلوچ شہریوں کو بھی ان وسائل سے استفادہ کرنے کا موقع دیا جائے۔
یہ مطالبہ سو فیصد جائز ہے لیکن یزیدی جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں کا انداز یہ ہے جیسے بلوچستان ان کی مقبوضہ سرزمین ہو جس کے وسائل پر صرف اور صرف ان کا حق ہے وہاں کے فرزندانِ زمین کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ فرعونی رویہ ہوگا تو دہشت گرد تو آپ سے آپ پیدا ہونگے انہیں کسی بیرونی دشمن کی شہ کی ضرورت نہیں ہے۔
دشمن ہیں پاکستان کے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے دشمن اس کے اپنی فوج کے بدمست اور سیہ کار جرنیل ہیں جن کی مال و منالِ دنیا کی ہوس ایسی ہے کہ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے باوجود بھوک کم نہیں بلکہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔
پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جس کی اپنی فوج اس ملک کی سالمیت اور استحکام کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے جب ان ہی ہوس گزیدہ جرنیلوں کے پیش روؤں نے مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا تھا جو آج یہ بلوچستان کے ساتھ کر رہے ہیں لیکن بھول بیٹھے ہیں کہ قدرت کے قوانین کبھی نہیں بدلتے اور اپنے پاؤں پہ کلہاڑی چلانے سے پیر کٹ جاتے ہیں بچتے نہیں ہیں۔
ملک دہشت گردی کا شکار ہورہا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کے سانحہ کی تفصیل تاحال سامنے نہیں آئی۔ فوج کے ترجمان، احمد شریف نے تو حسبِ معمول قوم کو افیم کی گولی دینے کا کام کیا یہ کہہ کر کہ بہادر فوج نے دہشت گردوں کا صفایا کردیا اور تمام یرغمالی رہا کروالئے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ جو سو سے زائد سیکیوریٹی والے اس ٹرین میں سفر کر رہے تھے، اور جن کے خلاف انتقامی کار روائی ہی ٹرین پر دہشت گرد حملے کا سبب بنی، ان کا کیا ہوا؟ سوشل میڈیا تو یہ کہہ رہا ہے کہ دو سو تابوت کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہ لائے گئے ہیں۔ کس کیلئے؟
احمد شریف جیسے کاذب بیان سے تو یہ توقع نہیں کہ وہ سچ بتادے گا۔
میری عمر کے پاکستانیوں کیلئے اب توقع کی گنجائش کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ کل میرے فارن سروس کے دیرینہ رفیق، شمشاد احمد نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انتہائی جذبات کے عالم میں یہ کہا کہ اب جینے کیلئے کوئی ترغیب نہیں رہی ہے اور سچ کہا۔
شمشاد اور یہ گنہگار اس نسل کے ہیں جس نے آنکھ کھول کے پاکستان کو بنتے دیکھا تھا۔ ہم نے پاکستان کا سنہری دور بھی دیکھا ہے جب اس کا شمار دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں ہوتا تھا۔ ہم نے اس شہر کراچی کو دیکھا ہے جس کی سڑکیں ہر رات دھلا کرتی تھیں اور روشنیوں میں شہر جگمگاتا تھا۔
اب کراچی کا حال ڈکیت زرداری کے عہد میں بوالہوس وڈیرہ شاہی میں وہ ہوگیا ہے جو اس کے سرپرست یزیدی جرنیلوں نے پاکستان کا کیا ہے۔ کراچی موہنجو ڈارو بن گیا ہے اور پاکستان وہ فقیر ملک جسے کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں ہے لیکن جس پر قابض جرنیل یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے جلیل القدرفرعون ہیں جن کے رعب اور دبدبہ سے ہرکسی کو ڈرنا چاہئے۔
ہماری نسل کا المیہ یہ ہے کہ اب ہم پاکستان کو، جسے بدبخت ، بد مست اور ملک دشمن جرنیل پہلے ہی دو لخت کرچکے ہیں ، انہیں رزیلوں کے ہاتھوں مزید برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
ہماری نسل کو ان یزیدیوں سے کسی بھلائی کی توقع نہیں رہی، اور جب توقع ہی اٹھ جائے تو پھر شکوہ شکایت کی گنجائش بھی کہاں رہتی ہے۔
مرزا غالب ان دنوں بہت یاد آتے ہیں۔ ہم جیسے غالب پرستوں کو تو وہ ہمیشہ ہی یاد آتے ہیں لیکن ان دنوں قائد کے پاکستان کو اس کے گدھ صفت جرنیلوں کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھ کر مرزا زیادہ ہی یاد آتے ہیں۔ کیا خوب کہا تھا انہوں نے
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی!
گلہ ہے ہمیں تو اپنے نصیب سے کہ ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے لٹتے اور برباد ہوتے ہوئے دیکھنے پہ مجبور ہیں۔ اس عالمِ مایوسی میں جہاں ہر طرف تاریکی ہے اپنے اللہ سے اس امید کے ساتھ وطنِ عزیز کی تقدیر سنورنے کیلئے دعا کرتے ہیں کہ، مرزا ہی کی زبان میں:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی!
میرزا اس جہاں سے فرنگی راج کا ماتم کرتے ہوئے رخصت ہوئے تھے اور ہم اپنے ہی منہ بولے محافظوں اور چھٹ بھیوں کے دورِ تسلط اور ستم کا گلہ کرتے ہوئے کہنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں:
پستی کے مکینوں کو ہے زعمِ جہانبانی
کم ظرفوں کا دعوی ہے حق ان کا سلیمانی
دستورِ زباں بندی رعیت کیلئے لازم
کیا طرفہ تماشہ ہے وردی کی ستم رانی!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button