زیرِ عتاب کولمبیا یونیورسٹی

گذشتہ سال غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف امریکہ کے ہر بڑے شہر میںہونیوالوں مظاہروں میں طا لب علموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس ملک گیر احتجاج میں کولمبیا یونیورسٹی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان دنوں غزہ کے نہتے مسلمانوں پر اسرائیلی افواج کے زمینی اور فضائی حملوںمیں ہر روز سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہو رہے تھے۔ ان وحشیانہ حملوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ کولمبیا یونیورسٹی کے طا لب علموں کا احتجاج بھی شدت اختیار کر رہا تھا۔ ہر رنگ و نسل کے ہزاروں طا لب علموں نے یونیورسٹی کے وسیع و عریض میدان میںخیمہ بستی بنا کر اس میں رہنا شروع کر دیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی دوسری ریاستوں کی یونیورسٹیوں میںبھی خیمہ بستیاں بن گئیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کئی عشروں سے فلسطینی اور یہودی طا لب علموں کے درمیان تندو تیز مباحثوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ دونوں اطراف کےطا لب علموں میں پائی جانے والی کشیدگی ایک طویل عرصے سے اس درسگاہ کی انتظامیہ کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف اسکے مڈل ایسٹ ڈیپارٹمنٹ میں فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھنے والے اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے تو دوسری طرف اسکی انتظامیہ کے تل ابیب سے گہرے روابط ہیں۔ ہر سال یہاں اسرائیل سے آنیوالے اساتذ ہ اپنے مذہب‘ تاریخ اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں لیکچر دیتے ہیں۔
یک نامور مسلمان سکالر ایڈورڈ سعید طویل عرصے تک اس درسگاہ میں پڑھاتے رہے۔ انہوں نے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کئی کتابیں لکھیں اور اپنی شعلہ بیانی سے مسلمان طا لب علموں کی نظریاتی تربیت بھی کی۔ وہ زمانہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب پولیس اسی یونیورسٹی کے ارد گرد واقع طا لب علموں کے گھروں میں داخل ہو کر ان سے پوچھ گچھ کرتی ہے۔ چند ہفتے پہلے تک دنیا بھر میں تحریر وتقریرکی آزادی کے حوالے سے پہچانے جانے والی درسگاہ کے اساتذہ اور طا لب علم آجکل خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ آٹھ مارچ کی شام اسی یونیورسٹی کے قریب واقع سٹوڈنٹ ہائوسنگ سے ممتاز فلسطینی طالب علم رہنما محمود خلیل کو گرفتار کر کے اسے دور دراز کی ریاست Louisiana بھیج دیا گیا ۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسے ڈیپورٹ کر دیا جائیگا۔ اسکی گرفتاری کے وقت اسے کہا گیا کہ اسکا سٹوڈنٹ ویزہ منسوخ کیا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ گرین کارڈ ہولڈر ہے اوراسکی بیوی امریکی سٹیزن ہے۔ اسے جواب ملا کہ تمہا را گرین کارڈ بھی منسوخ کر دیا جائیگا۔ اس گرفتاری کے فوراً بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ نے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے نان سٹیزن طا لب علموں سے کہا کہ وہ غزہ‘ یوکرین اور محمود خلیل کی گرفتاری کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے میں احتیاط سے کام لیں کیونکہ اب یونیورسٹی انکا دفاع نہیں کر سکتی۔ جب ایک طالب علم نے اس پابندی کو خلاف آئین قرار دیا تو جرنلزم سکول کے ڈین Jelani Cobb نے کہا” Nobody can protect you. These are dangerous times.”
کولمبیا یونیورسٹی ایک پرائیویٹ درسگاہ ہے مگر اسے فیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے چار سو ملین ڈالرز کی خطیر گرانٹ اور کنٹریکٹس ملتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان میں سے 250 ملین ڈالرز منسوخ کر دئے ہیں اورباقی کے 150ملین ڈالرز کے اجرا کے لیے اسرائیل مخالف مظاہروں میں شرکت کرنے والےطا لب علموں کی فہرست کا تقاضا کیا ہے۔ گیارہ مارچ کو وائٹ ہائوس کی ترجمان Karoline Leavitt نے کہا کہ ’’ ہم امریکہ کی تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انتظامیہ کی پالیسیوں پر عملدر آمد کریں گی۔‘‘ چند روز پہلے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے خبر دی کہ اس نے ساٹھ یونیورسٹیوں کو خطوط بھیجے ہیں کہ وہ یہود مخالف( Antisemetic) سرگرمیوں میں حصہ لینے والےطا لب علموں کی فہرست حکومت کو مہیا کریں۔اس خبر کے مطابق ان درسگاہوں کے خلاف تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ممتاز کالم نگار ڈیوڈ فرینچ نے سولہ مارچ کے کالم میں لکھا ہے کہ محمود خلیل کی گرفتاری حکومت کی نا اہلی اور انتقامی کاروائی کا کھلا ثبوت ہے۔ کالم نگار کے مطابق پولیس کو یہ معلوم نہ تھا کہ محمود خلیل گرین کارڈ ہولڈر ہے جو کہ Lawful Permanent Resident ہوتا ہے اور جسکے حقوق تقاضا کرتے ہیں کہ اسے Due Process یا واجب عمل کی تمام سہولتیں مہیا کی جائیں۔ یہ حقوق امریکی آئین کے مطابق ویزہ ہولڈر کو بھی حاصل ہیں۔ آئین کی چودھویں ترمیم اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ حکومت کسی بھی شخص کی آزادی اسے واجب عمل کی سہولیات دئے بغیر سلب نہیں کرے گی مگر محمود خلیل کو اسکے وکیل سے ملنے کی اجازت دئے بغیر گرفتار کر لیا گیا۔ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کی مہیا کردہ اطلاعات کے مطابق ’’ سیکرٹری آف سٹیٹ نے یہ طے کیا ہے کہ محمود خلیل کی امریکہ میں موجودگی سے ہماری خارجہ پالیسی پر نا موافق اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘ڈیوڈ فرینچ نے اپنے متذکرہ بالا کالم میں لکھا ہے کہ محمود خلیل کے حماس سے رابطے کے ثبوت پیش نہیں کئے گئے اس لیے اس گرفتاری کا تعلق خارجہ پالیسی سے نہیں بلکہ آزادی اظہار کے حق سے ہے۔ ڈیوڈ فرنچ کی رائے میں اب طا لب علموں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اپنے دروازوں پر دستک سنیں گے۔ یہ سلسلہ اب دراز ہوتا جائے گا۔ گذشتہ پون صدی میں امریکہ ہر گز ایسا نہ تھا اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ حالات بہتر صورت اختیار کر لیں گے۔