پاکستان اپنی حالت کیسے بدل سکتا ہے؟

پاکستانیو! پاکستان اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف سے ایک سے ایک بُری خبر آ رہی ہے۔ ابھی کچھ دن گزرے کہ بلو چستان میں ٹرین پر مسلح لوگوں نے حملہ کر دیا۔ یہ وہ بلوچ نو جوان تھے جنہیں یقین دلا دیا گیا ہے کہ پاکستانی پنجابیوں کی حکومت سے انہیں کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ وہ ایسے کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ایسا ہونا نہیں چاہیئے۔ بلوچ ایسے ہی پاکستانی ہیں جیسے پختون، پنجابی، سندھی ، اُردو بولنے والے اور کشمیری وغیرہ۔ بلوچ نو جوان ہمارے بچے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے شکوے سننے چاہیئیں۔اور ملکر ان شکایات کا ازالہ کرنا چاہیئے۔یہ ناراض لوگ ہیں کہ ان کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔کوئی ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیںکرتا۔ آخر وہ کس کو اپنی تکلیف بتائیں؟ لے دے کر ان حالات کا فائدہ ، ہمارے دشمن، اٹھاتے ہیں۔ وہ ان کی سنتے بھی ہیں لیکن ان کو جو حل بتاتے ہیں وہ ان کے فائدے کا نہیں ہوتا بلکہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والا ہوتا ہے۔ یہی کہ بغاوت کرو۔ پاکستانی قانون اور انتظامیہ سے لڑ جائو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہمارے مشیر تمہاری قدم قدم پر رہ نمائی کریں گے۔بس تم ڈٹ جائو تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔
یہ مسائل آج کے نہیں ہیں۔ یہ برسوں سے ہوتا آ رہا ہے، اور بلوچ ہماری حکومتوں کی نالائقیوں سے اور وعدہ فراموشیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ سنا گیا ہے کہ فروری۸ کے عام انتخابات میں جو بلوچ رہنما جیتے تھے ان کو فارم ۴۷ میں تحریف کر کے ہروا دیا گیا اور اب وہاں ایک غیر نمائندہ حکو مت قائم کر دی گئی ہے جو جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔پاکستانی حکومتوں نے، سوائے تھوڑے عرصہ کے لیئے ،عمران خان کی حکومت نے، بلو چستان میں ان لوگوں سے مصالحت کا کچھ کام کیاتھا۔ بلوچوں کے ساتھ جو سب سے غلط کام کیا گیا وہ پرویز مشرف نے نواب بگتی کو ہلاک کروایا جو اس لیے غلط فیصلہ تھا کہ وہ ان لوگوں کا سردار تھا۔ اسے ہلاک کر کے اس نے نہ صرف اس کے قبیلہ کی دشمنی مول لی بلکہ غالباً دوسرے قبائل سے بھی ہمدردی کھو دی۔بہر حال ، نواز شریف اور اس کے خاندان نے ، بمعہ پی پی پی کے، بلوچوں کے ساتھ کوئی حقیقت پسندانہ رویہ نہیں اپنایا۔ جو بھی تھوڑے بہت مثبت فیصلے کیے گئے، ان کا کوئی دیر پا نتیجہ نہیں نکلا۔ موجودہ حکومت اگر سوچتی ہے کہ جو کچھ احتجاج بلوچستان میں ہو رہے ہیں، ان کو ایک ایس ایچ او سنبھال لے گا، بالکل بچگانہ بات ہے جو اس کے بے بی فیس وزیر داخلہ کا بیان تھا۔
ابھی بھی پانی سر سے نہیں گذرا۔ اگر شہباز شریف میں کچھ انسانیت اور ضمیر باقی ہے، وہ اپنی تمام سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک دیر پا اور طویل المدتی منصوبہ بنائے تا کہ ان کے تمام شکوے شکائتیں دور ہوں، اور پاکستان کے دشمنوں کا منہ کالا ہو۔شروعات کے طور پر، بلوچ احتجاجیوں کو دہشت گرد کہنا چھوڑ دیں۔ یہ صرف اس لیے نہ کہیں کہ بیرونی امداد لینے کا یہ آسان طریقہ ہے۔بلکہ اس لیے بھی کہ وہ اس حال میں ہیں جسے کہتے ہیں تنگ آمد، بجنگ آمد۔گولہ بارود کی زبان اپنے حقیقی دشمنوں کے لیے سنبھال رکھیں۔اور اس نیک عمل میں ذرہ بھر تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔
اسی ضمن میں راقم یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہے کہ کہ کسی کے اُکسانے پر، اپنی مسلمان ہمسایہ ریاست، افغانستان، سے بھی پنگا نہ لیں۔ وہاںطالبان نے بڑی قربانیاں دیکر آزادی حاصل کی ہے، وہ قابل احترام ہیں۔ یہ وہی طالبان ہیں جنہیں پاکستان نے پناہ دی تھی اور ان کی تربیت کی تھی۔ اگر کچھـ’’ دہشت گر ‘‘افراد وہاں پناہ لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیںکہ افغان حکومت ان کی سر پرستی کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ چند لوگ ان کے قابو سے بھی باہر ہوں۔ یہ اس لیے سوچنا پڑتا ہے کہ افغانستان کی حکومت کو کتنے نفلوں کاثواب ہو گا ایسے لوگوں کو پناہ دینے سے جو پاکستان پر حملے کریں۔ افغان حکومت امن کی خواہش رکھتی ہے، اور باقی دنیا کے ملکوں سے برابری کے تعلقات بنانا چاہتی ہے۔ اس کی مجبوری ہے کہ خواتین کے معاملے میں اس کی حکمت عملی باقی دنیا سے مطابقت نہیںرکھتی۔ بطور مسلمان کے ہم کو یہ بات سمجھنی چاہیئے۔ باقی اسلامی دنیا میں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیئے گئے ہیں، یہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ یہ مسئلہ آنحضرتؐ کی تعلیمات میں تاویل کا ہو سکتا ہے، لیکن جلد یا بدیر افغان بھی اس مسئلہ پر عالمی انسانی حقوق کے چارٹر پر عمل درآمد کریں گے۔قصہ مختصر، پاکستان کو افغانستان سے جنگ کا سوچنا بھی نہیں چاہے، خواہ اس پر کتنا بھی دبائو پڑے، کیونکہ سوائے قتل و غارت کے اس کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ایک برادر ملک کے ساتھ جنگ تو ویسے ہی حرام ہونی چاہیئے۔ ممکن ہے کہ ایک وقت آئے اورخطہ کے اسلامی ممالک کا ایک اتحاد بنے جس میں جنوبی اور وسطی ایشیاء کے غیر عرب ملک جیسے بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیاء کے ممالک بمعہ ترکی شامل ہوں۔ اس اتحاد کا مقصد باہمی اقتصادی تعلقات، تجارت، صنعتی اور ٹیکنکل تعلیم و تربیت کا تبادلہ، سپورٹس اور معاشرتی سر گرمیوں سے ملکی وسائل کو بڑھانا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے سینٹو (CENTO) میںکچھ اس قسم کا اتحاد بنا تھا لیکن وہ امریکہ نے بنیادی طور پر کیمونسٹوں سے جنگ کرنے کے لیے بنایا تھا اور اسی وجہ سے نہ چل سکا۔بحر حال پاکستان کو ، جو اکلوتی اسلامی ایٹمی طاقت ہے ، پہل کرنی چاہیے، اور اللہ کا نام لیکر اس قسم کی علاقائی تنظیم کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔
اسی مثبت سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے، پاکستان کو اپنے داخلی امور کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان واقعی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے، تو ہمیں ملک کی ترجیحات پر فیصلہ کرنا ہو گا۔ان ترجیحات میں، ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے جن سے بتدریج نہ صرف کرپشن کا خاتمہ ہو، اس کے ساتھ لڑکیوں اور لڑکوں کی تعلیم کے مواقع بڑھائے جائیں۔ اور آئیندہ پانچ سے دس سالوں میں کوئی بھی سکول کی عمر کا بچہ سکول سے باہر نہ رہ جائے۔ اور جو بچے تعلیم نہیں حاصل کر سکے ان کے لیے علیحدہ بند و بست کیا جائے جیسے کہ موجودہ سکولوں میں شام کو کلاسیں کی جائیں۔اور مساجد میں تعلیم بالغاں کا اہتمام کیا جائے۔جو مذہبی ادارے ان مدرسوں کی اعانت کرتے ہیں، وہ ان سب مدرسوں کو نہ صرف تعلیم بالغاں کے لیے حاضر کریں، اس کے ساتھ ساتھ جو مدرسہ کے طلباء ہیں ان کو کسی نہ کسی ہنر کی تربیت کا بند وبست بھی کریں تا کہ ان مدرسوں کے فارغ التحصیل طلباء کو باعزت روزگار کمانے کا راستہ مل جائے۔ان سب اہداف کے حصول کے لیے حکومت اور رفاہی رضاکاراداروں کی بھر پور امداد اور تعاون کی ضرورت ہو گی۔اگر اس کام میں عوامی عطیات، ذکات، صدقہ ،خیرات کی وصولی کا ایماندارانہ نظام مرتب کر دیا جائے تو ممکن ہے کہ بغیر سرکاری امداد کے اسے چلایا جا سکے۔مثلاً سٹیٹ بینک کی سربراہی میں ایسا ادارہ بنایا جائے جہاں مخیر حضرات اور عوام سب نقد اور عطیات جمع کروائیں اور انہیںخرد برد کا اندیشہ نہ ہو۔یہ ہدف نہ صرف انتہائی اہم اور گھمبیر مسئلہ کے حل کا ہے، اس کو ہم دیر تک التوا میں بھی نہیں ڈال سکتے۔اسپر جلد از جلد منصوبہ بندی کرنے اور عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر وزارتی کمیٹیاں بنا کر ان منصوبوں پر فوری عمل درآمد کروانا چاہیے۔سب سے اہم یہ ہے کہ ہم ان مسائل کے حل کے لیے بیرونی امداد نہ ڈھونڈیں، اور صرف اپنے وسائل کو استعمال کریں۔ بیرونی امداد آنے سے نہ صرف ہماری عزت نفس مجروح ہوتی ہے، کرپشن کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے پرہیز کی جانی چاہیے۔
پاکستان میںایک بہت بڑا مسئلہ برقی توانائی کا ہے۔ اس کے حل کے لیے مفاد پرست سیاستدانوں نے ایسے حل تلاش کیے جن میں انکو زیادہ سے زیادہ اوپر کی آمدنی ہو۔جس کی مثال وہ بجلی بنانے کے کارخانے تھے جن پر ایسے معاہدے کیے گئے جن سے پاکستانیوں کو نقصان ہی نقصان اور ان پر سرمایہ کاری کرنے والوں کو(جن میں زیادہ پاکستانی دولتمند خاندان، شریف برادران وغیرہ شامل تھے) منافع ملتا اور وہ بھی زر مبادلہ میں، خواہ یہ کارخانے بجلی بناتے یا نہ بناتے۔اتنا اندھیر۔ یہ کارخانے درآمد کردہ تیل پر چلتے ہیں۔پاکستانی حکومت نے دوسرے وہ کارخانے لگائے جو انہیں چین نے اونے پونے داموں پر دے دیے۔ یہ چین نے فارغ کر دیئے تھے چونکہ یہ کوئلے پر چلتے تھے اور ماحول میں آلودگی کا سبب تھے۔ پاکستا نی حکومت بڑا شکریہ ادا کر کے یہ نعمتں قبول کیں۔ ماحول اور عوام گئے بھاڑ میں۔ عین ممکن ہے کہ اس لین دین میں خوب پیسہ بھی بنا ہو۔
خدا بھلا کرے اس مرد مومن عمران خان کا ، جس نے بجلی کی کمی کا بحران ایسے گندے ہتھکنڈوں سے حل کرنے کے بجائے ، آبی بند بنانے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔ اس نے بیرون ملک پاکستانیوں سے مدد مانگی جو بھر پور ہوئی۔ ان کی امداد کو صاف اور شفاف رکھنے کے لیے، سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ بند کے نام پر بینک اکائونٹ بنایا جائے اور سب امدادی رقم اس میں جمع ہو۔ پاکستانیوں نے دل بھر کر آبی بند بنانے کے لیے زر مبادلہ بھیجا۔ حکومت نے جو اس بند کے نام پر سبزبانڈ جاری کیا وہ بھی لوگوں ے دل کھول کر خریدا۔وہ بند ڈائمر بھاشا ڈیم تھا۔ مکمل ہونے کے بعد اس ڈیم سے 4,800 megawatts بجلی حاصل ہو گی۔ اور بہت سا پانی اکٹھا ہو گا جس کو پینے کے لیے اورفصلو ں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال جا سکے گا۔ اس کے بننے سے تربیلا ڈیم کی مدت معیاد مزید35سال بڑھ جائے گی۔ ایک خبر کے مطابق ،یہ ڈیم فروری 2029ء تک مکمل ہونا تھا ، اب اس میں دیر ہو جائے گی اور امید ہے کہ دسمبر 2032 تک مکمل ہو گا۔اس ڈیم کی تیاری میں عمران خان کی حکومت نے بڑا کردار ادا کیا۔ ڈیم سے جو بجلی بنے گی وہ سستی ہو گی اور اور اس کی پیداوار قدرتی ذرائع سے ہو گی۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان دوسرے آبی منصوبے بنائے اور کالا باغ پر جوقدرتی ڈیم بن سکتا ہے اس پر توجہ دے۔سندھیوں کو یہ ڈر ہے کہ پنجاب اس ڈیم سے نہریں نکال کر سارا پانی کھینچ لے گا اور سندھ کا پانی سندھ تک نہیں پہنچے گا۔ اس ڈر کو مناسب تدابیر کے ساتھ ختم کیا جا سکتا ہے۔
سستی بجلی بنانے کے اور بھی طریقے ہیں۔ سولر پینل تو اب خاصے مقبول ہو رہے ہیں۔ بادبانی چکیوں کو سمندری علاقوں پر لگا کر سستی بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ان سب قدرتی طریقوںپر ، اوپر کی آمدنی کم ہو جاتی ہے جو سیاستدانوں اور نوکر شاہی کو منظور نہیں۔جس کام میں اوپر کی آمدنی نہ ہو وہ کام بھلا کریں ہی کیوں؟اس لیے راقم کی درخواست ہے کہ حاکموں نے بہت کما لیا ہے اب بس کر دیں۔ اگر ہمارا ملک بچ گیا تو اور بہت سے موقع آئیں گے۔بجلی کی مہنگائی عوام کا خون نچوڑنے کے مترادف ہے۔ جس حساب سے ملک میں سردی اور گرمی پڑتی ہیں، سستی بجلی کے بغیر جینا محال ہو جاتا ہے۔ ہمیں 75سال ہو گئے ہیں اور آج تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔یہ نواز فیملی کس بات پر اتراتی پھرتی ہے؟ انہیں شرم بھی نہیں آتی۔کرپشن، تعلیم کی کمی کے بعد سستی برقی قوت کی کمی تیسرا بڑا مسئلہ ہے۔ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیئے۔
چوتھا بڑا مسئلہ پاکستان کی نو جوان آبادی کی تعلیم ، روزگار کا ہے۔ ایک تازہ ترین اطلاع کے مطابق پاکستا ن سے ۱۶ لاکھ افراد ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ یہ تعداد سب ملکوں سے زیادہ ہے۔ کیا اسکی وجہ کوئی حکومتی حکمت عملی تو نہیں کہ حکومت کا خیال ہے کہ بیرون ملک پاکستانی زر مبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں تو کیوں نہ زیادہ سے زیادہ کو باہر جانے دیا جائے؟دوسرے نمبر پر سوڈان ہے اور تیسرے پر بھارت۔ افسوس تو اس بات کا ہے ، کہ یہ حکمت عملی بے سوچے سمجھے منصوبے کی لگتی ہے، کیونکہ نہ تو ان نوجوانوں کے پاس اکثر کوئی ہنر ہوتا ہے اور نہ اعلیٰ تعلیم، جس سے وہ باہر جا کر اچھی ملازمتیں حاصل کر سکیں۔ جو بے ہنر افراد کما سکتے ہیں وہ کم سے کم اجرت پر ہوتا ہے۔ اگر ان باہر جانے والوں پر تھوڑی سرمایہ کاری کی جائے تو یہ دوگنا اور چو گنا بھی کما سکتے ہیں ۔ یہ پورا شعبہ نا اہل نوکر شاہی کے سپرد ہے ۔ جنہیں نہ ہی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ سازی کے ہنر۔ کم از کم نظر تو ایسے ہی آتا ہے، ورنہ اس شعبہ سے ہی پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو بھارت، سری لنکا اور فلپائینز سے ہی کچھ سیکھ لیں۔
آخر میں، افرادی قوت میں عورتوں کو شامل کریں۔ اس کے لیے ماحول کو درست کریں۔پاکستانی مائوں سے منت سماجت کریں کہ وہ اپنے بچوں کو لڑکیوں کی عزت کرنا سکھائیں۔ میری ماں کہتی تھی کہ یہ لڑکیاں تمہاری بہنیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ بہنوں پر آوازے نہیں کسے جاتے، ان کی عزت سے نہیں کھیلا جاتا۔اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے لڑکیوں کی عزت پر حملہ کرنے کی سزا وہی ہو جو چور کی۔ اس میں جسمانی سزا بھی اور قید بھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں عورتوں کے لیے بہتر سہولتیں دی جائیں۔ دفاترمیں خواتین کارکنوں کو ہراسان کرنا نا قابل معافی جرم ہو۔ ایسے دفتر کے افسروں کوکڑی سزا دی جائے۔ اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تمام عوام کو نئے قوانین کی آگاہی دی جائے۔ تو شاید آہستہ آہستہ عورتیں گھروں سے باہر نکلنا شروع ہو جائیں گی اور ملازمتیں کریں گی۔