چولستان میں رومانس کی بہار، بلوچستان میں دہشت گردی کی مار! جنرل کی ترجیحات کیا ہیں؟

مسلسل کئی اخبار کالموں اور ریڈیو کالمز میں ہم پاکستان آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کے جنرلوں کی ناکامیوں کا ذکر کررہے ہیں کیونکہ ملک کے دو صوبوں خبرپختونخوا اور بلوچستان میں بی ایل اے کے دہشت گرد اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو اور فیڈرل انویسٹمنٹ بیورو کا خفیہ اطلاعات کے تبادلے کا نیٹ ورک ان ساری پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے نیٹ ورک سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ بی ایل اے والے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی باریک سے باریک تفصیلات سے باخبر رہتے ہیں، انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئٹہ سے روانہ ہونے والی جعفر ایکسپریس میں کتنی بوگیاں ہیں، کتنی بوگیوں میں سویلین بیٹھے ہیں، کتنی بوگیوں میں فوجی اہلکار سادہ کپڑوں میں سوار ہو کر عید کی چھٹیوں پرجار ہے ہیں، کتنے سادہ لباس میں ٹرین میں موجود سکیورٹی اہلکاروں کے پاس اسلحہ ہے اور وہ کتنی دیر مقابلے کے بعد ختم ہو جائے گا۔ کس ٹنل نمبر سے پہلے پٹڑی دھماکے سے اڑائی جائے گی، کس پوائنٹ پر پہاڑوں میں چھپے ہوئے اسلحہ بردار دہشت گرد نیچے اتر کر آئیں گے، کس پوائنٹ پر پہاڑ پر بنی ہوئی ایف سی کی چوکی سکیورٹی اہلکاروں سمیت اڑائی جائے گی۔ کتنے فوجیوں کو اپنے ساتھ پہاڑوں کے پیچھے پوائنٹ پر لیجایا جائے گا اور کتنے دہشت گردوں کو 36گھنٹے بعد آرمی اور فضائیہ کے ریسکیو کے لئے آنے والو سے خودکش مقابلہ کرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ کس پہاڑ کی چوٹی پر کیمرے نصب کئے جائیں گے اور کس کس نشریاتی اداروں کو وہ دہشت گردی کی ویڈیوز فراہم کی جائیں گی اور ان کی کامیاب کارروائی کی ذمہ داری قبول کی جائے گی۔ خیال رہے کہ بی ایل اے کی ان کارروائیوں کی وڈیوز بڑے پروفیشنل طریقوں سے تیار کی جاتی ہیں بمعہ میوزک، سائونڈ ایفکٹس اور اینگل جبکہ پاکستان آرمی کا پروپیگنڈا کرنے والا ISPRادارہ لاکھوں روپے خرچ کر کے ، نوجوان اور خوش شکل ماڈلز لے کر اور گلوکار ساحر علی بگا سے گانے گوا کر بھی وہ ایفکٹس پیدا نہیں کر پاتا۔ باالفاظ دیگر بی ایل اے کا سیکرٹ سروسز ادارہ، BLAکا خفیہ معلومات کا نیٹ ورک، بی ایل اے کا وڈیو پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ اور بی ایل اے کا کامیاب آپریشن ہماری افواج کے اداروں آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر سے کہیں زیادہ ایڈوانس اور کئی درجے آگے ہے۔
ہمارے آرمی کے ادارے اور ایف اے پاس جنرلز اس قدر احمق اور ناقص العقل ہیں کہ جعفر ایکسپریس کے ایک ناکام اسٹرٹیجی استعمال کرنے کے بعد دوبارہ اسی کو استعمال کرتے ہیں۔ نوشکی میں جانے والے آرمی کے کانوائے میں دہشت گردوں کو دھوکہ دینے کیلئے ایک مرتبہ پھر جعفر ایکسپریس کی طرح سینکڑوں فوجی جوانوں کو سویلین کپڑوں میں سویلین بسوں میں بٹھا کر نقل و حرکت کرنے کی کوشش کی گئی۔ بی ایل اے والوں کو ایک ایک بس کی معلومات تھیں اور انہوں نے ان بسوں کو ایسے اڑایا کہ ان کا جلا ہوا ڈھانچہ دیکھ کر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ذی روح بھی زندہ نہ بچا ہو گا۔ حسب معمول احمق اعظم حضرت جنرل سید عاصم منیر شاہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس مرتبہ بھی جعفر ایکسپریس میں جاں بحق ہونیوالوں کی جھوٹی تعداد بتا کر وہ چوبیس کروڑ پاکستانیوں کو بیوقوف بناسکیں گے مگر بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا مرنے والوں کی تعداد بی ایل اے کی ویب سائٹ سے پہلے ہی بتا چکا ہے۔ اب معلوم یوں ہورہا ہے کہ ہمارے نوجوان فوجی جوانوں کو اپنی غلط حکمت عملی سے ہر دوسرے دن دہشت گردوں سے مرانے والے جنرل عاصم منیر کا تختہ اب جونیئر فوجی جوان ہی الٹے گا اور ہم جیسے کروڑوں پاکستانی ان جوانوں کے ہم رکاب ہوں گے کیونکہ ہم ان جوانوں سے محبت کرتے ہیں۔