بڑے مگر مچھ

زندگی کا بیشتر حصہ پانی میں گزارنے والا جانور جسے عرف ِ عام میں مگر مچھ کہا جاتا ہے یہ خشکی پر بھی اپنے مزاج کے مطابق زندگی بسر کر لیتا ہے چونکہ اس کی خوراک مچھلیاں و دیگر آبی حیات ہوتے ہیں تو یہ خشکی پر منہ دکھانے کے لئے ہی حاضر ہوتا ہے حالانکہ یہ خشکی پر زندہ رہ سکتا ہے مگر اس کی خوراک جو زندگی کی ضمانت ہے وہ سمندر کے اندر پانی کی تہوں میںملتی ہے گویا خشکی پر بڑے مگر مچھ کا آنا یا مختصر قیام کرنا ایسے ہے جیسے ہمارے ملک میں بسے اہل ثروت خاندان کے لوگ موسمی تبدیلی کے لئے اندرون و بیرون ِ ملک سیر سپاٹے کو ضروری سمجھتے ہیں فرق یہ ہے کہ خشکی پر کچھ مدت ٹہرنے کے بعد مگر مچھ جب سمند ر کا رُخ کرتا ہے تو اس کی جیبیں اور پیٹ خالی ہوتا ہے جب کہ زمین پر بسنے والے ان مگر مچھوں کے ہاتھ ناقابل ِ بیاں رنگوں سے رنگے ہوتے ہیں جنہیںوہ بیرون ِ ملک اپنی نسلوں کی بہتری کے لئے چھوڑتے ہیں جو ان کی کاوشوں کا ضروری عمل ہوتا ہے سمندر میں رہنے والے مگر مچھ ہماری دنیا میں بسے مگر مچھوں سے زیادہ معصوم ہوتے ہیں انھیں جو خوراک ملی کھا لیتے ہیں دنیاوی مگر مچھوں کی طرح رہزنی نہیں کرتے دھوکہ و فریب سے یا بدعنوانی سے ملکی خزانے کو لوٹ کر باہر کی بینکوں میں منتقل نہیں کرتے اور نہ ہی بڑی طاقتوں سے لیس مگر مچھ اپنے ہم خیال مگر مچھوں کی مدد سے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی نسل کشی کرتے ہیں حقوق انسانی پر چیخ و پکار کرنے والے ان خونخوار درندوں نے غزہ میں چھوٹے بے یارو مددگار بچوں کے خون سے کھیلنے والوں پر اعتراض کرنے کی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیارکی جو معاشرتی زیادتیوں میں حد سے تجاوز ہے ایسے ہی مگر مچھ اقوام ِ متحدہ میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو صرف قرارداد پیش کر کے اُسے عملی طور پر نہیں اپناتے اور نہ اُس پر عمل پیر ہونے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے لئے ان کے دل میں کبھی رحم نہیں آیا جو مسلمان ملک اپنی آزادانہ پالیسیاں لاگو کرکے اُسے دہشت گردی کی فہرست میں ؓ ڈال کر معاشی پابندیاںلگانا ان کی تعصبانہ روایات کا حصہ ہے عراق و شام یا ایران کو زیر ِ عتاب رکھنے کی سازشیں ہمارے سامنے ہیں سنگدلی کے ایسے کئی واقعات کے باوجود اُمت مسلمہ کے ممالک کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھ نہ کرنا سمجھ سے بالا ہے بندہ کم مایہ کو یاد آیا کہ مسلم اُمہ کو ایک تسبیح میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پرو کر بڑی طاقتوں کو لرزہ براندام کیا تھا مگر عصر ِحاضر کے حالات متضاد صورت میں ہونے سے خوں خوار شکاریوں کے لئے فرحت و اطمینان کا باعث ہیں یکجہتی کا اُمت ِ مسلمہ سے کوچ کرنا ایک المناک واقعہ سہی افسوس یہ ہے کہ اب ان آدم خور مگر مچھوں کو اپنے ہر معاملے میں شامل کر رہے ہیں وطن ِ عزیز کے خیر خواہوں کا معاشی صورت ِ حال کے پیش ِ نظر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونا تو سمجھ میں آتا ہے مگر آئی ایم کے حکام کا معیشت سے ہٹ کر ہمارے داخلی معاملات میں ٹانگ اڑانا قابل ِ تشویش نہیں انتہائی خطرات کی پیش بینی ہے باوثوق ذرائع کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا وفد مارچ میں ہماری مالیاتی گورننس ،مالیاتی شعبہ کی نگرانی اینٹی منی لانڈرنگ اور انسداد دہشتگردی قوانین کے شعبوں میںسفارشات دے گا لیکن آئی ایم ایف کا یہ تین رکنی وفد صرف اسی پر اکتفا نہیں کرے گا اُس نے ججوں کی تقرری عدلیہ کی سا لمیت سمیت بدعنوانیوں کا جائزہ لے گا کیوں ؟ کیا ہمارے ہاں اب ججز کی تعیناتی بھی ان کی منشاء سے ہو گی کیا ہمارے ملک میں قوانین بھی پارلیمنٹ کی بجائے یہ بڑی طاقتوں کے گھمنڈی طے کریں گے تو گویا ان سے قرض لینے کی پاداش میں ہم اپنی آزادی ،اپنی ریاست کی بالادستی انھیں حوالے کر دیں یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں جو ان بڑے مگر مچھوں کی انسانیت سوز ی پر احتجاج نہیں کرتیں ؟اندرون و بیرون دونوں جانب سے ان انسان دشمنوں کے تواتر سے حملوں نے قوم کو بیشعور ی کے کنویں میں دھکیل رکھا ہے ملک میں بھی اپنے بڑے مگر مچھ اب دیگر اشیائے صرف کی مصنوعی گرانی کرنے کے بعد چینی مافیاز کو سیراب رکھنے کے لئے چینی کی قیمتوں میں مسلسل غیر ضروری اضافہ کر کے عوامی پریشانیوں کو بڑھا رہے ہیں بھارت بڑے مگر مچھوں کی صف میںنہیں آتا مگر بڑے مگر مچھوں کی سہولت کاری میں ضرور رہتا ہے حالیہ ریل کے سانحے میں جو پس ِ پردہ حقائق سامنے آئے وہ بھارت کی سیاہ کاریوں کے ترجمان ہے سلام ہے پاک فوج کے جوانوں کو جنہوں نے بڑی کامیابی سے بلوچستان میں سر اُٹھاتی دہشت کردی کو زمین بوس کر کے دشمنوں کے حملوں کو زمیں بوس اور ریاستی بغاوت میں ملوث اندرونی عناصر کے حوصلوں کو پست کیا دفاعی اداروں کو چائیے کہ ریاست استحام کے لئے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف غلط اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کرنے والی جماعتوں کے اہلکاروں کو منظر عام پر لاکر عبرت ناک سزا دے تاکہ بڑے مگر مچھ اپنے پانی میں رہیں وطن ِ عزیز کی خشکی پہ نہ آئیں ۔