ہفتہ وار کالمز

ٹرمپ زیلنسکی شو ڈائون

صدر زیلنسکی واشنگٹن آنے سے پہلے ہی صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک تلخ مکالمے میں الجھے ہوئےتھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی صدر امریکہ کو جواب دینے پر مجبور تھے۔ صدر ٹرمپ نے بارہ فروری کو روس کے صدر پیوٹن کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک فون پر بات کرنے کے بعد کہا تھا کہ امریکہ اور روس جلد ہی جنگ بندی کے مذاکرات کا آغاز کر دیں گے۔ اسکے جواب میں اگر یوکرین کے صدر خاموش رہتے تو اسکا مطلب یہی تھا کہ انہیں ان مذاکرات پر اعتراض نہیں ہے۔ دو عالمی طاقتوں کے رہنمائوں کی گفتگو کےفوراً بعد صدر زیلنسکی نے کہا کہ انہیں ایسے مذاکرات کا نتیجہ قبول نہ ہو گا جس میں یوکرین شامل نہ ہو ۔ صدر ٹرمپ نے اسی روز زیلنسکی سے فون پر بات کی اور انہیں مذاکرات میں شامل کر نے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اسکے بعد چودہ فروری کو میو نخ کانفرنس کے دوران امریکی وزیر دفاع Pete Hegseth نے کہا کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بن سکتا اور نہ ہی اسے اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس مل سکتے ہیں۔ یہ انکشاف یوکرین کے اڑتیس ملین لوگوں کے لیے نہایت پریشان کن تھا۔ زیلینسکی روس کے ساتھ تین سالہ جنگ کے دوران مسلسل یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا لیا جائے تا کہ اسے روس کی طرف سے مزید حملوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صدر پیوٹن کو یہ خدشہ تھا کہ یوکرین اگر نیٹو کا ممبر بن گیا تو نیٹو افواج اسکی سرحدوں پر آ کھڑی ہوں گی۔ صدر پیوٹن کئی مرتبہ کہہ چکے تھے کہ یوکرین ہمیشہ سے تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے روس کا حصہ رہا ہے اس لیے اسے ایک ملک نہیں کہا جا سکتا۔ انہی خدشات کے پیش نظر صدر پیوٹن نے مارچ 2014 میں روس کی سرحد پر واقع یوکرین کے جنوبی صوبے Crimeaپر حملہ کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کر لیاتھا۔
ولادیمیر زیلنسکی مئی 2019 میں روس کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار Petro Poroshanko کو ایک بڑے مارجن سے شکست دے کر صدر بنے تھے اس لیے صدر پیوٹن شروع ہی سے اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ زیلنسکی دوسرے پاپولسٹ لیڈروں کی طرح سوشل میڈیا پر کرپشن کے خلاف مہم چلا کر اقتدار میں آئے تھے۔ صدر پیوٹن زیلنسکی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ پیوٹن کے خدشات اس لیے درست ثابت ہوئے کہ صدر بائیڈن نے یورپی ممالک کے ساتھ ملکر تین برس تک یوکرین کو بھاری تعداد میں اسلحہ فراہم کیا۔ اس جنگ میں روس کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ یوکرین آرمڈ فورسز کے جنرل سٹاف کے مہیا کردہ اعدادو شمار کے مطابق فروری 2025 تک روس کے آٹھ لاکھ انتالیس ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے سینکڑوں ارب ڈالر کا معاشی نقصان اسکے علاوہ ہے۔ روس ا ب تک یوکرین کے بیس فیصد علاقے پر قبضہ کر چکا ہے اور وہ اسے کسی صورت واپس کرنے پر آمادہ نہیں۔
سابقہ صدر بائیڈن کی پالیسیوں کے برعکس صدر ٹرمپ یوکرین جنگ کو امریکہ پر ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ وہ اس جنگ کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایک غیر ضروری مداخلت گردانتے ہوئے اسے جلد از جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انکی نگاہ دنیا بھر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رُسوخ پر ہے۔صدر امریکہ اگر یہ جنگ پیوٹن کی شرائط پر ختم کرکے اسکی خوشنودی حاصل کر لیتے ہیں تو وہ اپنی حکمت عملی کے مطابق چین روس دوستی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر صدر پیوٹن اپنی شرائط پر ہونیوالے کسی معاہدے کے نتیجے میںنیٹو افواج کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنے پر صدر ٹرمپ کے شکر گذار ضرور ہو ں گے۔اس صورت میںوہ امریکہ چین محاذ آرائی میں کھل کر چین کا ساتھ دینے سے گریز کریں گے۔ دوسری طرف صدر زیلنسکی اس جنگ میں لاکھوں افراد کی ہلاکت اور کئی شہروں کی تباہی کے بعد آسانی سے پسپائی اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں وہ جب 28 فروری کو وائٹ ہائوس صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے پہنچے تو ماحول انکے لیے سخت ناسازگار تھا۔ صدر ٹرمپ انکی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھے اور زیلنسکی انہیں کیمروں اور رپورٹروں کے سامنے اپنی کہانی سنانے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔اس شو ڈائون کے بعد پورا یورپ متحد ہو کر صدر زیلنسکی کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔ برطا نیہ کے وزیر اعظم کئیر سٹارمر نے فرانس ا ور جرمنی کے تعاون کیساتھ اتوار کے روز لندن میں یوکرین سمٹ کاا نعقاد کیا جس میں جنگ جاری رکھنے یا امن مذاکرات کے شروع ہونے تک یوکرین کو بھرپور مالی اور عسکری امداد دینے کا اعلان کیا گیا۔
یورپی ممالک یہ جانتے ہیں کہ وہ امریکہ کی امداد کے بغیر یوکرین کا دفاع نہیں کر سکتے۔ اسوقت میدان ِجنگ میں روس کو برتری حاصل ہے اور وہ مزید پیشقدمی بھی کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اسی لیے بار بار صدر زیلنسکی سے کہتے رہے کہ تمہارے ہاتھ میں کوئی کارڈ نہیں ہے اس لیے میری بات مان لو مگر زیلنسکی مصر رہے کہ صدر پیوٹن مذاکرات سے پہلے انہیں یہ ضمانت دیں کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ صدر ٹرمپ انہیں یہ ضمانت نہیں دینا چاہتے۔ انکا کہنا ہے کہ یوکرین اپنی قیمتی معدنیات میں امریکہ کو حصہ دیکر اسکے قرض ادا کرے۔ اسکے بعد جب امریکہ یوکرین میں نئی صنعتیں لگائے گا تو روس اس پر حملہ کرنے کی جرا ء ت نہ کر سکے گا۔ زیلینسکی کو یہ ضمانت قبول نہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یورپ ااور یوکرین کب تک یہ جنگ جاری رکھ سکتے ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button