زمین سے محبت فطری عمل ہے، جس جگہ پیدا ہوتے ہیں، پرورش پاتے ہیں، بڑے ہوتے ہیں اس جگہ سے وابستگی ہوتی ہے، حب الوطنی کی باتیں پرانی کتابوں میں کم ملتی ہیں، ساری تاریخ مہم جوئی سے بھری پڑی ہے، مورخ کیا لکھتا ہے اس کا تعلق مورخ کی اپنی شخصیت اور سوچ سے بھی ہوتا ہے، اس کی کسی زمین سے تعلق کی نوعیت بھی اہم ہو جاتی ہے، سکندر اعظم کے بارے میں یونانی کتابوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ان تحریروں اور کتابوں سے مختلف ہے جو مسلمانوں اور ہندوئوں نے لکھیں، سکندر کو سکندر اعظم مغربی مورخین نے لکھا، یونانی آج بھی اسے یونان کا بیٹا کہتے ہیں مگر وہ مورخین جن کا تعلق برصغیر سے ہے وہ کہتے ہیں کہ پورس نے وطن کا دفاع کیا، اسی طرح مسلمان محمد بن قاسم کے حملے کا دفاع کرتے ہیں اور اس کی مہم جوئی کو شاندار کارنامہ کہتے ہیں تو سندھی قوم پرست راجہ داہر کواپنا ہیرو مانتے ہیں، جس نے سندھ کا دفاع کیا، سراج الدولہ اور ٹیپو کی محبت میں بڑے بڑے مورخین کاقلم اعتدال برت نہ سکا، اقبال بھی بہت مداح تھے، مگر جب سے تاریخ کے جدید ضوابط طے ہوئے ہیں مہم جوئی اور ملک گیری کو مختلف انداز سے دیکھا جاتا ہے، سکندر اعظم کی تربیت میں مہم جوئی اور ملکوں کو فتح کرنا بہت سحر انگیز اور جب کسی ملک کا بادشاہ اس FASCINATIONکا شکار ہو جائے تو مورخین FANTACIZEتو کرتے ہیں پورس ہویا راجہ داہر، ٹیپو سلطان ہو یا سراج الدولہ ان میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے اس زمین کا دفاع جو ان کے قبضے میں ہوتی تھی ٹیپو نے میسور کا دفاع کیا اور سراج الدولہ نے بنگال کا، ہماری نصابی کتب کے لکھنے والوں نے بہت ظلم ڈھایا جب ٹیپو اور سراج الدولہ کو اسلام کا ہیرو بنا دیا بات اتنی سی ہے کہ دونوں اپنی اپنی ریاستوں کا دفاع کررہے تھے ایسا ہر گز نہیں کہ ٹیپو اور سراج الدولہ نے کوئی اسلامی حکومت قائم کررکھی تھی یا وہ کوئی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے، اسلامی حکومت یا مسلم ریاست کا بھی ایک بڑا ILLUSIONہے ذرا غور کریں کہ سولہ سو سالوں سے تو آپ ملوکیت کا رونا رو رہے ہیں یہ بتایا جائے کہ اسلامی حکومت یا اسلامی حکومت کب تھی کہاں تھی، اس کا جواب نہیں ملتا، جو ذہن بند ہیں وہ پوچھنا بھی نہیں چاہتے اور اسی وہم میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں کہ اسلامی ریاست یا حکومت کوئی ایسی طلسماتی جگہ ہو گی جہاں کار جہاں کا تو تصور تو ہو گا ہی نہیں زمین پر ایک جنت پوچھا جائے کہ جب تک براعظموں پر حکومت تھی تب کون سے آسمان جھکا لئے، بہرحال بات ہورہی تھی زمین سے محبت کی اور عجیب بات ہے کہ یہ جذبہ گزشتہ صدی کے NATIONALISMکا ردِ عمل ہے، برصغیر میں اور لاطینی امریکہ میں کچھ وطن پرستوں نے استبداد کے خلاف جنگ لڑی اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مگر یہ بھی ہے کہ کچھ قومیں ایک HALLUCINATIONکا شکار ہیں، افغانی ابھی تک ملک گیری اور لوٹ مار کو ہی اسلام سمجھتے ہیں، ارسطو نے کہا تھا کہ جس ملک سے نوجوانوں کا مستقبل اٹھ جاتا ہے وہاں سے حب الوطنی اٹھ جاتی ہے، جب تک زمین اپنے باسیوں کی ضرورتیں پوری کرتی رہتی ہے لوگ اپنی زمین سے محبت کرتے ہیں ورنہ ہجرت کر جاتے ہیں، سدا سے یہ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہوتا ہے پاکستان میں ہری پور کے کافی خاندان انگلینڈ چلے گئے تھے وہ پچھلی صدی کے اوائل سے انگلینڈ میں آباد ہیں وہ پاکستان اپنے عزیز و اقارب سے ملنے جاتے ہیں بس یہی وطن سے محبت کا اظہار ہے 1976میں انگریز کوئی دو ہزار خاندان ویسٹ انڈیز لے گئے تھے ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی ان کو ویسٹ انڈیز میں تقریباً دو صدیاں ہونے کو آئیں اب وہی ان کا وطن ہے اور ان کا مستقبل اسی سرزمین سے جڑا ہوا ہے، کچھ ہندوستان اقدار اب بھی ان میں ملتی ہیں، اچھے مستقبل کے لئے آج بھی قانونی یا غیر قانونی طور پر برصغیر کے لوگ دیگر ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اسی ملک میں ان کا مرنا جینا ہوتا ہے، افغانیوں کو ہی دیکھ لیں ہزاروں خاندان نام نہاد افغان جہاد کے زمانے ہیں آج پاکستان آ کر بس گئے ہیں انہوں نے ناجائز طریقے سے پاکستان میں شناختی کارڈ بھی حاصل کر لیا اور پاسپورٹ بھی اب وہ افغانستان واپس جانا نہیں چاہتے، اسی طرح پاکستان کے ڈاکٹرز، انجینئرز حتی کہ وزیر اور سفیر بھی امریکہ اور کینیڈا آ کر آباد ہو گئے ان کو زندگی کی ہر آسائش میسر ہے یہ لوگ پاکستان واپس جانا نہیں چاہتے تو بنیادی بات یہ ہے کہ ہجرتیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی بس ایک بات اہم ہے کہ وطن چھوڑنے کے بعد وطن کو گالی دینا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے ایک انگریزی نظم میں کہا گیا کہ وہ شخص بہت کمینہ ہے جو وطن چھوڑ گیا پھر اس کے پاس طاقت ،دولت، ثروت اور عزت آئی اور اس نے اپنے وطن کو گالی دی، ایک طالب علم رہنما ہوتے تھے ان کا تعلق این ایس ایف سے تھا اشتراکی سمجھے جاتے تھے وہ بھارت چلے گئے، بھارت میں انہوں نے پاکستان کو بہت برا بھلا کہا، بھارتی شہریت چاہتے تھے جو ان کو مرنے دم تک نہ مل سکی حال ہی میں وفات پاگئے۔
پنجاب کو دولتانہ کے دور سے ہی حکمرانی کا نشہ سوار ہوا پنجابی CHAUVINISMنے سر اٹھایا ایک بیوروکریٹ نے دولتانہ کو ایک کتاب دی تھی جو 1950ء میں لندن سے شائع ہوئی تھی THE NEW PATH FOR NEW DEMOCRACIESجس میں کہا گیا تھا کہ آزادی کی تحریکوں نے فرد کو بے لگام کر دیا ہے لہٰذا انکو لگام ڈالنے کے لئے پولیس اور فوج کا موثر کردار کارگر ہو سکتا ہے پھر کیا تھا پوری پاکستان پولیس اور پاک آرمی کو پنجابیوں سے بھر دیا گیا، اس کے جو سیاسی اثرات تاریخ پر مرتب ہوئے وہ سب جانتے ہیں مشرقی پاکستان میں پنجابی فوج اور پنجابی پولیس کے خلاف نفرت نے جنم لیا، پنجاب سمجھتا تھا کہ بنگالی اکثریت سے جان نہ چھڑائی گئی تو پنجاب کو بھی اکثریت نہیں ملے گی پھر ایوب دور میں بنگالی اکثریت سے جان چھڑانے کے لئے کچھ اقدامات کئے گئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، اس سے قبل پنجاب کے رہنمائوں نے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا شروع کر دئیے تھے خان عبدالغفار خان کو غدار کہا گیا پھر مجیب کو مگر یہ الزامات کبھی ثابت نہیں ہوئے اصل غدار تو وہ تھے جنہوں نے ملک تقسیم کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے، ان میں جنرلز، ججز اور صحافی شامل تھے، جب ان میں سے کسی کو سزا نہیں ملی تو حوصلے بڑھ گئے وہ جو کہتے تھے کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں وہ اس سرچشمے پر خاک ڈال کر آزاد پھررہے ہیں مشرف پر غداری کا مقدمہ چلا سزا بھی ہو گئی مگر سزا پر عمل نہ ہو سکا، مرتے دم تک ملک سے باہر رہے مگر جس جنرل کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی اس کو وطن واپس لایا گیااور ایم کیو ایم نے اس غدار کو کراچی میں اعزاز کیساتھ دفن کیا، غلام محمد، ایوب خان، یحییٰ خان، مشرف، جسٹس منیر، مولوی مشتاق، جسٹس نسیم شاہ، ضیاء الحق سب اپنی قبروں میں آسودہ، حب الوطنی کی تعریف اگر یوں کر لی جائے کہ وہ شخص کس نے عوامی مفاد کا قتل کیا، آئین توڑا ہو تو بہت سے سر اُڑانے ہونگے، عوامی مفاد کے خلاف کام کرنے والوں میں ملاوٹ کرنے والا، ذخیرہ اندوز، اسمگلر، سب ہی شامل ہیں، مگر یہ سب کلمہ گو ہیں جھوٹا حلف اٹھانے والے، جھوٹی قسمیں کھانے والے! تو جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو لاکھوں سر کون کاٹ سکتا ہے، چلو تو یہی مان لیتے ہیں کہ
؎ہر شخص پُر خلوص ہے، ہر شخص باوفا
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی ہمیں!
0