0

شریفوں اور زرداریوں کو کوڑے دان میں ڈالیں !

پاکستان کی سیاست پر قابو پا کر، مارشل لاء لگائے بغیر ہماری پیاری فوج حکومت کرنا چاہتی ہے، تو کیا پاکستانیوں کو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے یا جمہوریت کے گلے پر چھری پھرنے کا ماتم کرنا چاہیے؟ ۔ اس وقت جب کہ پاکستانی قوم نے ایک ایماندار اور ذی شعور رہنما کا انتخاب کر لیا، اور اپنے ووٹ کی طاقت سے اس کی جماعت کو اپناحاکم مان لیا، تو فوج کو چاہیے تھا کہ وہ دودھ میں مینگنیاں نہ ڈالے۔ اب بجائے عوام کے انتخاب پر سر تسلیم خم کرنے کے، ملک بھر میں الیکشن کے نتائج کو دھونس ماری کے ساتھ بدل کر پرانے بد عنوان ٹولے کو جتوانے کی بھونڈی حرکت نہ عوام بخشیں گے اور نہ ہی وہ جماعت جس کے ساتھ یہ بد نما، غیر قانونی اور مجرمانہ کھیل رچایا گیا ہے۔دو سال سے فوج عوام کی خواہشوں اور امنگوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہماری فوج میں بد عنوان عناصر ہیں جو اپنی کرپشن اور اس سے حاصل کردہ وسائل پر کسی ایماندار حکومت کا سایہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کو تو ایک برائے نام، کرپٹ پٹھو یا ان جیسے بہت سے پٹھوؤں کی مخلوط حکومتیں چاہییں جو ان کے اشاروں پر ناچیں۔ خود بھی کھائیں اور ان کو بھی کھانے دیں۔یہ سب ٹھیک تھا اگر تو پاکستان کا خزانہ لبا لب بھرا ہوتا۔اس سے سب کھاتے اور پھر بھی حکومتی کاموں کے لیے کچھ بچ جاتا۔بد قسمتی تو یہ ہے کہ ملک کا خزانہ تقریباً خالی ہے، اور اس میں اتنا بھی نہیں کہ جو کھربوں روپے ان حرامخور حکومتوں نے قرض لیے ان کا سود ہی اتار سکیں۔ اس کے علاوہ، ایک سو بیس ارب ڈالر کا قرضہ ہے اس کی ادائیگی کا کیا ہو گا؟ کیوں نہ آپ سعودی عرب کے بادشاہ کو بہلا پھسلا کر یا سیدھی سیدھی دہمکی دیکر بیس تیس ارب ڈالر لے لیتے؟ آپ کے پیٹی بھائی کے پاس تو بہت بڑی طاقت ہے وہاں پر۔جو جب چاہے محل پر قبضہ کر کے مارشل لاء لگا سکتا ہے؟لیکن شاید نہیں کیونکہ امریکہ بہادر کی خفگی کا ڈر ہو گا، جو مناسب نہیں۔اور سعودی عرب پاکستان نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ سار کھیل پیسے کا ہے۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اب آپ اس بھوکے ننگے ملک سے کتنا اور نچوڑیں گے؟ خاص طور پر جب آپکی لائی ہوئی حکومتیں علیحدہ لوٹ مار کر رہی ہوںگی، تو آپ کے حصہ میں کیا آئے گا؟ ماشا اللہ اتنی بڑی فوج کی تنخواہیں اور مراعات کو پورا کرنا بھی مشکل، کیا نا ممکن ہو جائے گا، عوام تو گئے بھاڑ میں۔پچیس کروڑ کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا خالہ جی کاگھر نہیں جب کے کمانے والے صرف پچیس لاکھ ہوں؟ (وہ تعداد جو کہ ٹیکس دیتی ہے)۔ان حالات میں وہ پنجابی کی مثل ہے کہ بھوکا جب بھوکے کی۔۔۔ خیر جانے دیں ۔ یہ کوئی شریفانہ مثال نہیں۔ لیکن ہے لاگو! آپ نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ اربوں ڈالر آنے والے ہیں۔ کہاں ہیں وہ اربوں ڈالر؟ اب تو بہت جلد بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا وقت آنے والا ہے جس کو ادا کرنے کے لیے پاکستان صرف ٹھینگا دکھا سکتا ہے جس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ پاکستان اپنی مالی ذمہ واریاں پوری کرنے سے قاصر ہو گا اوردیوالیہ ہونے کا اعلان کر دے گا۔ یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس کو کوئی مہذب قوم برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اربوں ڈالر ان قوموں نے پاکستان کو دئیے۔ یہ نہیں کہ وہ ادارے اور قومیں جن کا قرضہ آپ نے دینا ہے، ان کو جب پتہ چلے گا کہ آپ کی مہربانی سے حکومت ایک بد عنوان ٹولے کو دے دی گئی ہے، تو کیا وہ آپ کو بخش دیں گے؟ممکن نہیں پر شاید؟ اس کے لیے آپ کو ایٹمی اثاثے دینے پڑیں۔ اگر وہ دے دیئے تو آپ بھارت کی ایک ہفتہ کی جنگ بھی نہیں برداشت کر سکیں گے؟ پوری سات لاکھ کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑیں گے؟ بھارت تو دور کی بات ہے، افغانستان کے طالبان ہی آپ کی فوج کو عبرت کا نشان بنا دیں گے؟ یہ سب کچھ نہ بھی ہوا، تو جب فوجیوں کو تنخواہیں نہیں ملیں، اور مراعات بھی ختم ہو گئیں تو کیا وہ بغاوت نہیں کریں گے؟اللہ خیر ہی کرے۔ اب بھی وقت ہے کہ خان سے معافی مانگیں اور الیکشن میںجتنی دھاندلی کی گئی ہے اس کو واپس کریں۔تحریک کے قیدیوں کو رہا کروا دیں اور ان سے بھی معافی مانگیں۔ اور خان کو حکومت بنانے دیں، جس کو دنیا والے دیکھیں گے تو شاید آپکو قرضوں کی واپسی کی مدت میں کچھ رعایت مل جائے جیسے کہ صدر مشرف کو ملی تھی۔
غیر ملکی میڈیا پاکستان کے الیکشن میں بے ضابتگیو ں کے ذکرسے بھرا پڑا ہے۔ان لوگوں کو پاکستان اور پاکستانیوں کی فکر نہیں کھائے جا رہی۔ انہیںفکر اس بات کی ہے کون سی پارٹی اور حکومت ان کے قرضے واپس کر سکے گی؟ چوروں اور بد عنوانوں کا ٹولہ نہ صرف عوام نے مسترد کر دیا ہے، اس کی نا اہلی اور ماضی کا ریکارڈ ہر گز یقین نہیں دلاتا کہ وہ ٹولہ بیرونی قرضے ادا کر سکے گا۔ اگر کوئی ایسا کر سکتا ہے تو عمران خان ہے جسے عوام کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے۔اور اس نے اپنے مختصر سے دور میں ثابت بھی کر دیا تھا کہ وہ پاکستانی کی معیشت کو سنبھال سکتا ہے اوربڑھا بھی سکتا ہے۔ اس لیے دوستوں، عالمی ممالک اور ادارے چاہتے ہیں کہ پاکستان جلد از جلد عمران خان کی حکومت کا راستہ ہموار کر کر دے، اور ایک مستحکم حکومت بنے جس پر غیر ملکوں کی ہی نہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کی حمایت بھی شامل ہو۔۔
پاکستان کے انتخابات میںدھاندلی بھی کوئی معمولی دھاندلی ہوئی ہے؟، نون لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سب عبرتناک شکست سے دو چار تھیںاور ان کودھاندلی سی سیٹیں دلوائی گئی ہیں۔ اب ذرا ایم کیو ایم کی پاکستان سے حب الوطنی کی کہانی سنئے:
مصطفیٰ کمال جو کہ پاکستان سر سبز پارٹی کے سر براہ ہیں، انہوں نے جو ایم کیو ایم کے صدر خالد مقبول صدیقی کے بارے میںحیرت انگیز انکشاف کیا ہے وہ نہایت معنی خیز اور حیران کن ہے جس سے زیادہ تر پاکستانی غالباً بے خبر تھے۔ ایک حالیہ وڈیو میں فرماتے ہیں کہ ’’ ایم کیو ایم کے سر براہ خالد مقبول صدیقی وہ ہیں، جو سن دو ہزار میں انڈیا گئے، الطاف حسین کی ہدایت پر، اور وہاں پر را کے ساتھ بیٹھ کر، وہاں کے میڈیا کے سامنے انہوں نے پاکستان کے خلاف بات کی اور پاکستانی پاسپورٹ پھاڑ دیا۔وہاں سے پاکستان آنے کے بجائے را نے انہیں انڈین سفارتی پاسپورٹ دیا ، تو اس پاسپورٹ پر وہ امریکہ چلے گئے، سن ۲۰۰۰ء میں۔جب انہوں نے امریکہ میں لینڈ کیا تو اتھاریٹیز نے انہیں گرفتار کر لیا، اور انکا نام دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈال دیا۔ پھر وہ ضمانت پر باہر آ گئے۔تیرہ سال تک امریکہ میں رہے۔انہوں نے امریکن نیشنیلٹی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا نام چونکہ دہشت گردی کی لسٹ میں تھا ان کو شہریت نہیں دی گئی۔تو خالد مقبول صدیقی صاحب تیرہ سالوں کے بعد پاکستان آتے ہیں، تو ایم این اے بن جاتے ہیں، وزیر بن جاتے ہیں، اور پھر ایم کیو ایم کے سر براہ بن جاتے ہیں۔‘‘(ان واقعات سے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صدیقی ابھی بھی بانی اور را کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں)
یہ عمران خان کی اندھی مخالفت ہے یا واقعی بھارتی را سے تعاون کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کو کراچی سے دس سیٹیں دلوا دی ہیں تا کہ وفاق میں میاں صاحب کو مخلوط حکومت بنا نے میں آسانی ہو جائے۔ویسے ایم کیو ایم یہ سیٹیں تحریک کو ہار چکی تھی۔یہ ایک اور لمحۂ فکریہ ہے۔سب جانتے ہیں کہ صدیقی کے گورو الطاف حسین بھی بھارت یاترا میں پاکستان کے مخالف باغیانہ بیان دے چکے ہیں۔۱۹ نومبر ۲۰۱۹ کے ٹائمز آف انڈیا کی اشاعت میں، خبر شائع ہوئی کہ’’ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین، جو پاکستان سے بھاگے ہوئے انگلینڈ میں پناہ لیے ہیں ، نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے درخواست کی ہے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بھارت میں پناہ دے دی جائے اور ان کو اپنا کیس انٹرنیشنل کوٹ آف جسٹس میں دائرکرنے کے لیے مالی معاونت بھی دی جائے۔‘‘ ظاہر ہے کہ بانی نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیے بغیر ایسی درخواسست بھارتی وزیر اعظم سے نہیں کی ہو گی۔
سچ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو بنوایا ایک فوجی جرنیل نے بھٹو کے خلاف ایک سیاسی محاذ کے طور پر، جس کے پرچم تلے مہاجروں کو اکٹھا کیا گیا۔ اور مہاجر بھی وہ جن کی زیادہ تعداد، مہاجر نہیں ہے۔ان حضرات کو ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ پاکستان میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، اگرچہ وہ سب سے زیادہ سول سروس کے اعلیٰ عہدوں پر قائم رہے، پاکستان میں جہاں کہیں متروکہ جائدادیں ملیں، انہیں اپنے نام الاٹ کروایا۔، اور کراچی میں خصوصاً اپنا راج قائم کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مہاجر آبادی کا موازنہ پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں اور پٹھانوں سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مہاجر اوسطاً زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، زیادہ سرکاری عہدوں پر ہیں اور زیادہ متمول ہیں۔ ایک دلچسپ موازنہ ہو گا کہ مہاجروں کا بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا جائے جس سے پتہ چلے گا جو لوگ پاکستان آ گئے انہوں نے زیادہ بہتری پائی یا جو بھارت میں رہ گئے؟لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود انہیں ہمیشہ گلہ رہا کہ پنجابی ان کا استحصال کرتے ہیں۔اس لیے وہ ہندوستان واپس جانا چاہتے ہیں۔پاکستان کے ساتھ ان کی وفاداری ہمیشہ مشروط اور مشکوک رہی۔ جب الطاف نے نریندر مودی کو درخواست دی تو وہ صرف درجن دو درجن ساتھیوں کی بھارت میں واپسی کی نہیں بلکہ بیشتر مہاجرین کی واپسی کی تھی جسے مودی نے رد کر دیا اور کہا کہ تم پاکستان میں رہ کر اس کی بنیادیں کھوکلی کرو تو شاید ہم اس پر پھر بات کریں گے۔الطاف حسین نے کراچی میں اپنی کارکنوں کی فوج بنائی۔ انہیں بھارت سے دہشت گردی کی تربیت دلوائی، اور پھر کراچی میں بھتہ خوری سے پیسہ اکٹھا کیا، اور اس میں جس نے تعاون کرنے سے انکار کیا، انہیں بلا دریغ موت کے گھاٹ اتار دیا۔الطاف کی قیادت میں کراچی میں روزآنہ تقریباً دس لاشیں گرائی جاتی تھیں۔
ایم کیو ایم ہمیشہ سے مہاجروں کی جماعت رہی جس کا صرف ایک ہی سیاسی منتہائے نظر تھا کہ جو پارٹی بھی حکومت بنانے کے قابل ہو اس کے ساتھ اتحاد کرو اور حکومت کے مزے اٹھائو۔مہاجرین جو زیادہ تر اردو بولتے اور سمجھتے تھے، ان میں سے اکثر نے ۷۵ سالوں میں بھی اپنے رہائشی علاقہ کے رہنے والوں کی زبان نہیں سیکھنے کی کوشش کی۔ اس میں انہیں کچھ مدد پاکستان کی لسانی حکمت عملی سے بھی ملی جب پاکستان نے اُردو کو قومی زبان کا درجہ دے دیا۔خیر یہ ایک دوسری بحث ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں