اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کھڑی ہوئی جو دو بار کے این آر او زدہ ہیں، عمران خان کا آرمی چیف کو خط
راولپنڈی:فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے آج سابق وزیراعظم ہونے کے ناطے آرمی چیف کو خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ موجودہ حالات میں پالیسیز میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے، فوج ملک کی ہے کسی ایک شخص کی نہیں، جب صلح کی باتیں یا اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بہتر ہونے کی بات آتی ہے تو حکومت کو نیندیں اڑ جاتی ہیں۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فیصل چودھری کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کو لکھے گئے خط میں کہا گیا دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کے فوج کے پیچھے کھڑے ہونے سے جیتی جاسکتی ہے، خلیج عوام اور فوج کے درمیان پیدا کی گئی جس سے دوری کا تاثر آتا ہے، بانی نے خط میں 6 نکات پیش کیے، خلیج پیدا کرنے کی وجوہات بھی بیان کیں۔ایک پہلی وجہ یہ بیان کی کہ 8 فروری کے انتخابات دھاندلی زدہ ہیں جس کے تحت منی لانڈرنگ کرنے والوں سے مل کر الیکشن رگ کیا گیا، اس وجہ سے عوام اور اداروں میں دوری پیدا ہوئی، دوسرا 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرلیا گیا، یہ نظام عدل کو تہس نہس کرنے کے لیے لایا گیا۔ یہ ترمیم مقدمات اور الیکشن فراڈ کو کور فراہم کرنا ہے، 190ملین ریفرنس کا فیصلہ لیٹ کرنے کا مقصد کورٹ پیکنگ کے تحت من پسند ججز کے پاس اپیلوں کو لگانا ہے۔تیسرا نکتہ یہ کہ پیکا کا کالا قانون لاکر سوشل میڈیا پر پابندی لگائی گئی، اس سے اظہار رائے پر پابندی اور من پسند آوازوں کو آگے لانے کے لئے لایا گیا، اس قانون کے تحت آئی ٹی انڈسٹری کو 2 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، اس قانون سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس بھی خطرے میں ہے، 4 ملک میں تمام اداروں کو پی ٹی آئی کو کرش کرنے کے لئے لگایا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی اصل کام سے توجہ ہٹ گئی ہے۔انہوں ںے کہا کہ ہمارا مغربی بارڈر حساس ہے فوجی شہداء ہمارے ہیں پانچ عدلیہ اور عدالت کے احکامات سے پہلو تہی کی جا رہی ہے، اس کا نزلہ بھی پاک فوج پر گر رہا ہے جیل میں نادیدہ قوتیں عدالتی احکامات پر عمل درامد نہیں ہونے دیتیں۔ بشری بی بی سے تفتیش کرنے پولیس جیل کے اندر آئی تو کسی نامعلوم قوت کے اشارے پر تفتیش نہیں کرنے دی گئی، ضرورت اس امر کی ہے کہ تیزی سے یہ پالیسیاں بدل کر آئین وقانون کے مطابق رکھی جائیں تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہو اور معاشی استحکام کی جانب بڑھا جائے، ملک کے مستقبل کے لئے گزشتہ تین سال سے جاری پالیسیز میں تبدیلی لائی جانی چاہئیں۔