کم ظرف ملت فروش !

کم ظرف ملت فروش !

ملت فروشوں کی کتنی ہی اقسام ہیں !
ایک تو ملت فروش ہوتے ہیں میر جعفر جیسے جس نے اپنے حکمراں کے خلاف غیر ملکی طاقت سے ساز باز کرکے اپنے لئے تاریخ میں دائمی لعنت کا سامان فراہم کیا۔
ایک میر صادق کی قسم ہے جس نے دکن کے مسلمان حکمراں کو ورغلایا کہ وہ ٹیپو سلطان ، جو فرنگی سامراج کے غلبہ کے خلاف جہاد کر رہا تھا، کا ساتھ دینے کے بجائے فرنگی سامراج کا ساتھ یوں دے کہ ٹیپو سلطان کی حمایت نہ کرکے سامراج کے ہاتھ مضبوط کرے !
پاکستان دنیا کا عجوبہء روزگار ملک ہے تو اس نے قمر باجوہ جیسا ملت فروش پیدا کیا جس نے اپنی ذات میں میر جعفر اور میر صادق دونوں کو جمع کرلیا اور دنیا کو دکھایا کہ وہ تاریک کے رسوائے زمانہ ملت فروش کیسے تھے !
اب اسی قمر باجوہ کے لے پالک پاکستانی قوم کے سینے پر گزشتہ تین برس سے مونگ دل رہے ہیں اور اپنی اوچھی حرکتوں سے دنیا میں پاکستان کو رسوا اور بدنام کر رہے ہیں۔
باجوہ کا چیلا یزیدِ عصر عاصم منیر ہے جس کا زعم ہے کہ وہ حافظِ قرآن ہے لیکن اس نام نہاد حافظ نے عمران خان کی دشمنی میں جو نام کمایا ہے اس نے بھی ملت فروشی کی کتاب میں ایک نئے اور سیاہ باب کا اضافہ کیا ہے۔
اس ملت فروش عاصم منیر کا تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ اپنے ایک کٹھ پتلی جج، ناصر جاوید رانا، سے اس نے عمران خان کو القادر ٹرسٹ مقدمہ میں چودہ برس کی سزا دلوا دی ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ اس کا دشمن مطعون ہو۔ نہیں، یہ ملت فروش عمران دشمنی کی آگ میں اس حد تک جل رہا ہے کہ اس نے عمران کی شریکِ حیات، بشری بی بی کو بھی اپنے کٹھ پتلی اور مہرہ کے ذریعہ سات برس کی سزا سنوادی ہے !
القادر ٹرسٹ کے جعلی مقدمے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس جج کی کیا تاریخ ہے، کیا ماضی ہے جس کی خدمات کی ضرورت یزیدِ وقت کو عمران کو نشانہ بنانے کیلئے پڑگئی!
ناصرجاوید رانا وہ بدنہاد، عدالت کے نام پر وہ سیاہ دھبہ ہے جس کے خلاف آج سے بیس برس پہلے، 2004ء میں اس وقت کے چیف جسٹس نے یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ یہ شخص کسی بھی مسندِ عدل پر بیٹھنے کے لائق نہیں ہے اسلئے کہ اس کی بے ایمانی اور بد دیانتی کا یہ عالم تھا کہ اس نے وقت کے انتہائی مقبول اور لائقِ احترام وکیل، وہاب الخیری کے خلاف ان کے عدالت میں پیش ہوئے بغیریہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ پولیس کو ان کا جسمانی ریمانڈ عطا کردیا تھا!
لیکن اس ننگِ عدالت کو عمران کا تختہ الٹنے کے بعد پھر سے بحال کردیا گیا، یزیدیوں کی بھرپور اشیر واد کے ساتھ کہ اس جیسے ہی ضمیر فروش تو یزیدیوں کی سرپرستی میں پھل پھول رہے ہیں اور پھر اسی بے ایمان اور بے ضمیر شخص کو عمران کے جعلی مقدمہ کا جج بنایا گیا تاکہ جو یزید چاہے اس پر یہ ملت فروش آنکھ بند کرکے عمل پیرا ہوجائے۔!
ملت فروشی کی ایک اور مثال اس چھٹ بھیے محسن نقوی نے اپنے تا حال جاری دورہء امریکہ میں قائم کی اپنی اوچھی، گھٹیا اور سفلی حرکات سے !
ٹرمپ کے عہدہء صدارت کی تقریب میں کسی پاکستانی کو مدعو نہیں کیا گیا البتہ ٹرمپ کے قریبی حلقوں سے یہ سننے میں آیا کہ اگرعمران خان آزاد ہوتا تواسے یقینی طور پہ حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا جاتا۔
کٹھ پتلی شہباز حکومت نے بہت ہاتھ پیر مارے کہ ان رسوائے زمانہ چھٹ بھیوں میں سے کسی کو تو تقریب کیلئے دعوت نامہ مل جائے لیکن ہر کوشش بے سود رہی۔
آخر میں یزیدِ وقت نے اپنے لے پالک، چھٹ بھیے محسن نقوی کو نامزد کیا کہ وہ حکومت کے خزانے کو بیدریغ استعمال کرتے ہوئے تقریب کا مہنگا ٹکٹ خریدے اور جائے اور کوشش کرے کہ اسے ٹرمپ کے قریبی حلقوں تک رسائی نصیب ہوجائے۔
کوشش تو بلاول بھٹو نے بھی بہت کی تھی، بہت ہاتھ پیر مارے تھے اور ان کے والدِ بزرگوار نے بھی اپنے امریکی آقاؤں کو اپنی خدمات کے واسطے دئیے تھے لیکن ٹرمپ اور ان کے مشیروں کے دل نہیں پگھلے۔ لہٰذا بلاول نے بھی وہی کیا جو چھٹ بھیے محسن نقوی نے کیا تھا کہ مہنگا ٹکٹ خرید کے واشنگٹن وارد ہوئے لیکن ان کی دال بھی نہیں گلی، ان کو بھی تقریب میں شرکت کرنے کا سرکاری پروانہ نصیب نہیں ہوسکا !
لیکن بلاول نے وہ گھٹیا حرکتیں نہیں کیں جن کا چھٹ بھیا محسن نقوی مرتکب ہوا۔
اللہ نے ایک توایسی پھٹ ماری صورت دی ہے اس کم ظرف کو کہ جب دیکھو لگتا ہے شکل پہ ٹھیکرے ٹوٹ رہے ہیں۔ لیکن صورت شکل بری بھی ہو تو اچھے لوگ اپنے اطوار و کردار سے اس کا مداوا کرلیتے ہیں۔ لیکن محسن نقوی کو اللہ نے اس حسنِ سیرت سے قطعا” نہیں نوازا جو اس کی مسمسی صورت کا مداوا کرسکے۔
واشنگٹن میں اپنی حرکات و سکنات سے اس کم ظرف نے یہ ثابت کردیا کہ یہ ازلی بدنہاد ہے۔
ٹرمپ کے حلقوں تک رسائی حاصل کرنے کے جنون میں یہ چھٹ بھیا تمام حدیں پار کرگیا لیکن اس کے باوجود کامیابی اسے نصیب نہیں ہوئی ۔ اس کے سفلے پن نے اسے اس حد تک اندھا کردیا کہ یہ اس میٹنگ میں جو ہمارے سب سے معتبر حلیف اور دوست چین کو مطعون کرنے کیلئے ٹرمپ کے چندجنونی اور انتہا پسند مشیروں نے رکھی تھی بن بلائے گھس گیا اور وہاں اس نے چین کے خلاف ہونے والی تقاریر میں گرم جوشی سے تائید میں نعرے بھی لگائے!
ظاہر ہے کہ پاکستان میں یزیدیوں نے فسطائیت کا جو نظام رائج کیا ہوا ہے اس میں اس کم ظرف محسن نقوی سے نہ کوئی سوال ہوگا نہ کوئی مواخذہ کہ اس نے اپنی گھٹیا حرکتوں سے کیسے ملک و قوم کو رسوا کیا۔ اس کا سرپرست، جس نے اسے گمنامی سے نکال کے پاکستان پر مسلط کیا، عاصم منیر تو عمران دشمنی کے جنون میں تہذیب و شائستگی کی ہر حد پار کر رہا ہے۔
تو یزید اپنے معتمد کارندے کا اس پیش رفت پربھی مواخذہ کرنے سے رہا کہ اس چھٹ بھیے نے نہ جانے کتنے جتن، اور کس کس کی مدد سے، امریکہ کے دو سینیٹرز سے ملاقات کی تھی اس کے بعد دونوں نے فوری ٹویٹ جاری کئے جس میں بہ آوازِ بلند مطالبہ کیا کہ عمران خان کو قید و بند سے آزاد کیا جائے!
قدرت دکھاتی ہے کہ شیطان کے چیلے کیسے ہی ہاتھ پیر مار لیں اور گھٹیا حرکتوں سے اس رہنما کو مطعون کرنے کی کوشش کریں جو پاکستانی قوم کی آنکھوں کا تارا اور دلدار ہے عادلِ ازل اسی کو سرخرو کرتی ہے جو حق پہ ہوتا ہے۔ یزید اور اس کے چیلوں اور گماشتوں کا نصیب رسوائی اور جگ ہنسائی ہے اور شہیدِ مظلوم حسین کی سنت پر چلنے والوں کے مقدر میں سرخروئی اور کامیابی ہے!
لیکن یزیدیوں کا وطیرہ سنگدلی اور ہٹ دھرمی تاریخ کے ہر دور میں رہا ہے اور پاکستان کے یزیدی بھی اپنے افعال سے اس کا بھرپور ثبوت ہر قدم اور ہر گام گراہم کر رہے ہیں۔
پاکستانی یزیدیوں کیلئے سب سے زیادہ پریشانی کا سبب یہ ہے کہ ملک کو ہر طرح سے انہوں نے اپنے فسطائی چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ عدلیہ کی آزادی آئین میں 26 ویں ترمیم کے ذریعہ سلب کرلی گئی ہے اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان ان دنوں جس طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کا نظامِ عدل، جو پہلے ہی دنیا میں کسی لائق نہیں تھا، وہ کیسے ایک بھیانک مذاق بن کے رہ گیا ہے۔
ملک کے ذرائعِ ابلاغ، یا آسان زبان میں نیوز میڈیا کو بھی مکمل طور پہ پابندیوں کی رسیوں سے جکڑ دیا گیا ہے اور ضمیر فروش صحافیوں کی ایک پوری کھیپ تیار کی گئی ہے جو یزیدیوں کے ہر غلط کام پہ پردے ڈالنے کیلئے ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں چور اور بد دیانت حکومتی پارلیمانی نمائندوں کا فیصلہ شامل ہونے لگا ہے۔ سندھ میں ڈکیت زرداری نے اس سے فائدہ اٹھا کر سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی آسامیاں اپنے ہی جیسے بدمعاش جیالوں سے بھر دی ہیں۔
انتہا تو اب یہ ہوگئی کہ سرکاری افسران کی اعلیٰ گریڈ میں ترقی میں بھی ان چوروں کا عمل دخل ہوگا۔ گریڈ 21 سے گریڈ 22 میں ترقی کا جو بورڈ ہوتا ہے اس میں اب حزبِ اقتدار کی جانب سے وہ بھانڈ خواجہ آصف بیٹھے گا اور پیپلز پارٹی کی نمائندگی بلاول بھٹو کرینگے جنہوں نے آج تک کوئی کام نہیں کیا، کوئی ملازمت نہیں کی لیکن اعلیٰ افسروں کی ترقی میں اب ان کا حصہ ہوگا۔
میں ہر روز اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اس وقت سے بہت پہلے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوگیا تھا۔ ترس آتا ہے مجھے ان پر جو اب ان چھٹ بھیوں کے اسیر ہیں۔ میں اکثراپنے فارن سروس کےجونیئر افسروں سے کہتا ہوں کہ اللہ نے مجھے اس رسوائی اور جگ ہنسائی سے بچالیا کہ میرے اسنادِ سفارت پر زرداری جیسا ڈکیت صدر دستخط کرے !
لیکن یزیدیوں نے شطرنجِ ریاست کے ہر خانے میں اپنے مہرے بٹھانے کا مکمل بندوبست کرلیا ہے۔ بقول عالی جی مرحوم کے
تہہ میں بھی ہے حال وہی جو تہہ کے اوپر حال
مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جل ہی سارا جال
لیکن ایک شعبہء زندگی ہے جس پر یزید عاصم منیر اور ٹولے کا بس نہیں چل رہا اور وہ ہے سوشل میڈیا!
سوشل میڈیا پر ہر طرح سے ان یزیدیوں نے قدغن لگانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ وہ جن ہے جو ان کے بس میں نہیں آرہا۔ سوشل میڈیا، خاص طور پہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی حد تک، عمران خان کا حامی ہے اور ان کی آواز یزیدی نہ دبا سکے ہیں نہ دبا سکیں گے اگرچہ ہر ممکن شیطانی اور فسطائی حربے اس مقصد کیلئے یہ استعمال کرچکے ہیں۔
چھٹ بھیے محسن نقوی کی رسوائی اور جگ ہنسائی میں امریکہ میں آباد پاکستانیوں کا بڑا ہاتھ ہے اور کیوں نہ ہو کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو اپنی عزت اور تو قیر کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی عزت اور ساکھ بھی پیاری ہے اور جس کا کوئی احساس یا شائبہ یزیدیوں کے ہاں نہیں ہے !
سو اب کٹھ پتلی حکومت نے سوشل میڈیا کی آواز دبانے کیلئے ایک کالا قانون منظور کیا ہے تحریکِ انصاف کی شدید مخالفت کے باوجود۔
اس کالے قانون سے پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر نظر رکھنے والی اتھارٹی کو ہر طرح سے انٹرنیٹ کو اپنی آواز پہنچانے کیلئے استعمال کرنے والے صارفین کا گلا گھونٹنے کا اختیار مل گیا ہے جس کی شدید مذمت پاکستان میں حقوقِ انسانی کے علمبرداروں نے کی ہے اور مسلسل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کی متعدد تنظیموں نے اس کالے قانون کی شدید مذمت کی ہے۔ لیکن یزیدی بے غیرت اور بے شرم ہیں ۔ چکنے گھڑے جن پر کتنا ہی پانی پڑجائے ان پر اثرنہیں ہوتا۔
ہاں، البتہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی آواز دبانے کا کوئی زہر ان یزیدیوں کو دستیاب نہیں ہوا، اور نہ ہوسکے گا۔ پاکستان ان کی فسطائیت کے چنگل میں ہے لیکن باقی دنیا تو آزاد ہے جہاں آباد پاکستانی آزادی کے ساتھ سانس لے سکتے ہیں اور اپنی آواز بلا خوف و خطر بلند کرسکتے ہیں۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کی آزادی، حریت اور جذبہء حب الوطنی کے مضبوط قلعہ تک یزیدیوں کی رسائی ممکن نہیں ہے اور چھٹ بھیے محسن نقوی میں اگر ذرا سی بھی شرم اور غیرت ہے تو اس لعین نے واشنگٹن میں اپنی ہزیمت اور رسوائی سے اس امر اور اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہوگا۔ لیکن اس ادراک سے اس شیطان کے چیلے کے رویہ اور کردار میں کوئی تبدیلی آجائے گی یہ ناممکنات میں سے ہے۔ شیطان شیطان ہی رہے گا اور یزیدیوں کی ہمنوائی ہی اس کا مقدر ہوگی۔
اس چھٹ بھیے کی ملت فروشی پر یہ چار مصرعے پڑھئے اور ہمیں اجازت دیجئے :
طاغوت کے گماشتے ویسے بھی ہیں پلید
کم ظرف ہوں تو جھیلنا دشوار ہے شدید
اوقات اپنی روز ہی دکھلاتے ہیں لعین
ان کا عمل بتاتا ہے یہ ہیں سگِ یزید !

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے