قسمت کا فیصلہ
ہم تہی دامن ہیں قومی فخر سے
انحصار عزت کا امریکہ پہ ہے
مبتلاء ہیں کرب میں سب خاص و عام
فیصلہ قسمت کا امریکہ پہ ہے!
قارئین کرام یہ سطور پڑھتے وقت پاکستان میں انتخابات کا نتیجہ آچکا ہو گا اور ہمارے اندازے کے مطابق مخلوط حکومت کے قیام کی کوششیں جاری ہونگی۔ حسب توقع انتخابات میں پاکستان کی 3 بڑی جماعتیں کامیاب ہوئی ہونگی یعنی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے آزاد امیدوار۔ تحریک انصاف کا ذکر آیا ہے تو ہم اپنے اس افسوس اور ناامیدی کا ذکر کرتے چلیں جو پاکستان میں اس سیاسی جماعت کیساتھ سلوک دیکھ کر ہوا ہے۔ ہر چند کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ 9 مئی کاایک کالا داغ بھی موجود ہے پھر بھی کئی عوامی جائزے اس سیاسی جماعت کو پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت قرار دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ارباب حل عقد نے اچھا سلوک نہ کیا ۔ جس طرح بانیٔ تحریک انصاف کو دھڑا دھڑ سزائیں سنائی گئیں یہاں تک کہ ان کی نجی زندگی کو زیر بحث لا کر ان کی بیگم کو بھی سزا سنائی گئی یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک المناک حادثے کی صورت میں لکھا جائے گا۔ بات پاکستان میں ایک مخلوط حکومت کی ہورہی تھی۔ جس طرح مسلم لیگ ن لیگ قائد میاںنواز شریف کا پاکستان میں استقبال ہوا اور ایئرپورٹ سے جیل جانے کے بجائے جاتی امراء پہنچ گئے اور جس طرح ان کے خلاف تمام مقدمات چٹکیوں میں ختم کئے گئے اس عمل سے یہ واضح تھا کہ پاکستان کے ارباب حل و عقد نہ صرف انہیں دوبارہ سیاست میں لانا چاہتے ہیں بلکہ انہیں پاکستان کا وزیراعظم بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے گزشتہ چند ماہ میں جو کچھ بھی کیا گیا وہ اظہر من الشمس ہے اور یہی ہونا تھا۔ قرائن کہتے ہیں کہ اب مسلم لیگ ن اور پی پی پی مل کر ایک مخلوط حکومت قائم کریں گی۔ پی پی پی کے قائد بلاول بھٹو زرداری اپنے سیاسی حلقوں میں مسلم لیگ ن کو طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے۔ وہ سب نے سنا اور دیکھا، جواباً مسلم لیگ نے اپنا ہاتھ ہلکا رکھا یہاں تک کہ مسلم لیگ کے قائدین نے بلاول بھٹو زرداری کا نام بھی نہیں لیا۔ کراچی میں بارش نے تباہی مچائی تو محترم شہباز شریف نے اتنا فرمایا کہ جو صاحب کہتے تھے کہ ہم سے مناظرہ کر لو ہم ان سے ہمیشہ موازنے کی بات کرتے رہے اور کراچی میں جو کچھ ہوا اب وہ صاحب اس سے اپنی اور ہماری کارکردگی کا موازنہ کر لیں۔ اس ہلکا ہاتھ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ ن کو قوی امید تھی کہ انتخابات میں انہیں بڑی حد تک کامیابی حاصل ہو جائے گی جس کا ارباب حل و عقد نے انہیں یقین دلایا تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پی پی کو بھی بڑی حد تک کامیابی حاصل ہو گی لہٰذا مسلم لیگ ن اور پی پی مل کر مخلوط حکومت بنا لیں گی۔ ہمیں یہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ مخلوط حکومت کی تشکیل کو کم از کم ایک ہفتہ لگے گا۔ اس دوران دونوں بڑی جماعتیں چھوٹی جماعتوں کے کامیاب امیدواروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی بھرپور کوشش کریں گی، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملانے کی ہر ممکن کوشش ہر بڑی جماعت کرے گی۔ ہر چند کہ یہ آزاد امیدوار آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے ہونگے لیکن انتخابی ادارے میں یہ لکھ کر بتا چکے ہیں کہ ہم الگ الگ انتخابی نشانات پر انتخاب لڑیں گے لیکن بنیادی طو رپر ہم پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہیں، دیکھیئے اس ذیل میں ہماری عدلیہ کیا احکام صادر کرتی ہے۔ پاکستان میں حسب معمول اس انتخاب کے بعد بھی یہی سننے میں آئے گا کہ یہ انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہوئے اور ہمارے اندازے کے مطابق کوئی بھی مخلوط حکومت آزادی اور اطمینان سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دے سکتی اور ہمارے منہ میں خاک اس طرح کی حکومت کسی بھی طرح اپنی مدت پوری نہیں کر پائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی وہ طاقتیں جو حکومتیں قائم کرنے اور حکومتیں ختم کرنے کی مجاز ہیں وہ اب قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو آزادی سے پاکستان کی بقا کے لئے کام کرنے دے اور اپنا کردار اپنی ذمے داریوں تک محدود رکھے۔ خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان کبھی سیاسی دلدل سے باہر نہیں آسکے گا۔ اس وقت پاکستان معاشی بدحالی کے آخری درجے پر پہنچ گیا ہے اور دنیا میں بوجوہ اپنی ساکھ بھی کھو چکا ہے اب وقت کی ضرورت ہے کہ مخلوط حکومت کو آزادی سے اور تندہی سے مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے دیا جائے اور پاکستان کو مصائب سے نکالنے کا ’’آزاد‘‘ موقع دیا جائے۔ یاد رکھیئے نہ وقت رکتا ہے نہ مورخ کا قلم اس وقت لمحے لمحے کی حقیقتیں تاریخ کا حصہ بن رہی ہیں اور پاکستان کے عوام مصائب کے سمندر میں غوطے کھارہے ہیں۔ کاش مخلوط حکومت( جس کا قوی امکان ہے) تندہی اور دیانت داری سے پاکستان کو اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کرے۔ انتقام اور بدلے کو پس پشت ڈال کر نئے پاکستان کو اپنی کوشش کا محور بنا لے۔ ہم ربِ کائنات کے حضور دعا گو ہیں کہ خدا پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھے اور مایوس پاکستانیوں کو امید کا سورج نظر آئے۔