0

کیا ظلم کی رات اب ڈھل جائے گی؟

پاکستانیوں، تمہیں مبارک ہو۔ بالآخر پاکستان کے عام انتخابات ہوگئے، جن میں آزاد امیدواروں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی جو مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی ، اور وہ دھاندلی کر کے نتائج بدلنے کی کوشش میں مصروف ہیں تا کہ نواز کو نواز سکیں۔لیکن نون کو جتنی سیٹیں ملی ہیں،نواز مخلوط حکومت بنا کر بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ دھاندلی اتنی واضح اور کھلی ہے کہ جس کے ثبوت موجود ہیں اور کوئی بھی عدالت ان کو رد نہیں کر سکے گی۔لیکن جب سب کچھ کہا اور سنا جا چکا ہے، پاکستانی کی اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں سے انصاف ملنا کوئی آسان کام نہیں۔ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ شاید لوگ ہوش کے ناخن لیں۔
پاکستانیوں۔آج کے حالات کو سمجھنے کے لیے، پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔قرائن بتاتے ہیں کہ خلائی مخلوق نے پاکستان پر مکمل قبضہ کرنے کامنصوبہ بنایا ہوا ہے۔ اس منصوبے کوبڑھانے کا سہرا چیف قمر جاوید باجوہ کے سر جاتا ہے، جس نے اپنی پوزیشن کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے، ایک ایسی سازش کی جس کے نتیجے میں پاکستان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، اور ایک بد عنوان اور لالچی سیاستدانوں کے ٹولہ کو حکومت سونپ دی گئی۔اتنی بڑی سازش کی آشیر باد خلائی مخلوق کے غیر ملکی آقا نے دی۔وہ آشیرباد اس حد تک تھی کہ عمران خان کو ہلاک کر دیا جائے اور اس کی پارٹی تحریک انصاف کو تتر بتر کر دیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ بنایا گیا۔اس کے خد و خال یہ تھے:
سب سے پہلے شہباز شریف ، اس کے اہم حمائیتیوں اور پولیس افسروں کے ساتھ ملکر منصوبہ کے ان اقدامات پر مکمل تعاون کی مکمل یقین دہانی لی جائے۔ہدایات خلائی مخلوق کے مخصوص افسرسے ملیں گی۔اس تعاون کی کئی وجوہات بتائی گئیں: غیر ملکی آقا کا حکم ہے اور نا فرمانی کی صورت میں پاکستان کو کہیں سے زر مبادلہ کے قرضے نہیں ملیں گے۔اس پر پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ، خان کو عین ممکن ہے کہ اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل جائے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ کہ وہ تمام آئینی تبدیلیاں کروا سکے گا، جن سے مخالفین پر مقدمے چلیںگے اور سزائیں ملیں گی۔ ان لوگوں میں موجودہ حکومت اور ان سے پہلے کی حکومت کے شرکاء شامل ہو نگے۔اس لیے خان اور اس کی پارٹی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ آقا کے نزدیک خان کا سب سے بڑا جرم تھا کہ وہ امت مسلمہ کو اتحاد بنانا چاہتا تھا، جو آقا کے قریبی دوست کو نا پسند تھا۔ اس کے لیے جو بھی قدم اٹھائے جائیں گے، سب اس کی مکمل حمایت کریں گے۔ان میں ایسے قدم بھی ہوں گے جو عام حالات میں نہیں لیے جاتے، جیسے تحریک کی عورتوں کو حراساں کرنا، قید کرنا اور تحریک کے قائدین کے گھروں پر دہشت پھیلانے کی غرض سے حملے کرنا، وغیرہ ۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے قانونی مدد بھی لی جائے گی جیسے ایف آئی آریں کاٹنا خواہ وہ بغیر ثبوت کے ہوں، اور ججوں کے تعاون سے لمبی سزائیں دلوانا۔وغیرہ۔
عمران خان کو نشانہ باز کسی جلوس میں گولیوں سے ہلاک کریں۔ یہ حرکت وزیر آباد کے قریب خان کی ریلی پر کی گئی جس کے نتیجے میں خان کو ٹانگوں پر ۳ گولیاں لگیں لیکن جان بچ گئی۔
اگلا منصوبہ ایک نہایت خطرناک ڈرامہ تھا جس کا انجام تحریک کے کارکنوں اور قائدین پر دہشت گردی کے مقدمے چلا کر ، فوجی عدالتوں میں بد ترین سزائیں دلوانا تھا، اور خان پر سارا ملبہ ڈال کر کسی فوجی عدالت سے سزائے موت دلوانا تھا۔ منصوبہ کا آغاز عمران خان کی گرفتاری سے ہوا جس سے عوام طیش میں آ کر سڑکوں پر نکل آئے۔ انہیں ہانک کر فوجی تنصیبات کی طرف لے جایا گیا جہاں ان کے اپنے گلو بٹوں نے آگ لگانے کا پورا انتظام کیا ہوا تھا۔ کچھ کو ہانکا گیا کہ وہ اندر جائیں جہاں اور گلو بٹ توڑ پھوڑ کر رہے تھے۔اس سب منظر کی وڈیو بنا کر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ تحریک کے کارکنوں اور قائدین نے خان کے اکسانے پر فوجی تنصیبات پر حملے کروائے جو انتہائی غلط اور مجرمانہ حرکت تھی۔ اس ڈرامہ کے نتیجے میں تحریک کے ہزاروں کار کن اور سینکڑوں قائدین کو گرفتار کر لیا گیا اور بغیر مقدمہ چلائے انہیں کال کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا۔ تحریک کے کارکنوں کے علاوہ میڈیا کی ایسی شخصیات کو پکڑا گیا جو خان کے بارے میں مثبت تجزئے دیتے تھے۔اس کاروائی میں تحریک کے قائدین اور میڈیا والوں کو پہلے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور پھر انہیں کہا جاتا تھا کہ اگر وہ وعدہ کریں کہ چھٹنے کے بعد یہ اخباری بیان دیں کے وہ تحریک کو چھوڑ رہے ہیں، تو ان کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ اس مرحلہ پر کئی کمزور دل حضرات آزادہو گئے اورحسب وعدہ بیان دئیے۔اس ڈرامہ میں بڑے جھول تھے، جیسے کہ وہ عمارت جس پر حملہ دکھایا گیا اس میں کوئی حفاظتی گارڈنہیں تھی جو عام دنوں میں پوری شان کے ساتھ حفاظت کرتی نظر آتی تھی۔ اور اس سارے واقعہ میں کئی گھنٹے پولیس نہیں آئی، کیوں؟ اور بھی کئی سقم تھے، جس کی وجہ سے فوجی کمان نے حکومت سے کسی انکوئری کا مطالبہ نہیں کیا۔لیکن ان کی یہ چال نسبتاً ناکام ہو گئی جب عدالت عالیہ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے سننے پر پابندی لگا دی۔
پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوئی تو نگران حکومت بن گئی اور الیکشن کمیشن کے چیئرمین سردار سکندر سلطان نے حکم صادر کیاکہ وہ ابھی الیکشن نہیں کروا سکتے، لیکن معاملہ سپریم کورٹ نے سنا اور حکم دیا کہ ۸ فروری کو ، آئین کی شق کے مطابق ، عام انتخابات کروائے جائیں۔ادھر عالمی ادارے جیسے آئی ایم ایف بھی الیکشن کی طرف اشارے دے رہے تھے۔
خلائی مخلوق تو انتخابات پرراضی نہیں تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اگر صحیح انتخابات ہوئے تو عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جائے گا۔ اگر وہ جیتا تو وہ فوج کے کتنے بڑے بڑے منصوبے، اپنی صنعتی اور کاروباری ایمپائر بڑھانے کے خواب، پورے نہیں ہو سکیں گے۔بلکہ وہ فوج کی نفری بھی بجٹ کے ذریعے کم کروائے گا۔اور بھی کئی قدغنیں لگ سکتی ہیں۔ اس لیے خان کی حکومت نا منظور۔ فوج کئی طریقوں سے زر مبادلہ بھی کما رہی تھی جو سرکاری خزانہ سے بالا ہی بالا ان کی جیبوں میں پہنچ جاتا تھا، اس پر پابندی کا امکان تھا۔یہی وہ نقاط تھے جن سے باجوہ نے اپنے ساتھی جنرلوں کو اپنی سازش میں شمولیت پر اضی کیا۔ اس سازش کو کامیاب بنانے میں ضرورت تھی کہ خان کے بجائے اگر معاملہ کسی ایسے حکمران سے طے کر لیا جائے جو فوج پر کوئی پابندی نہیں لگائے اور ان کی ہر بات بھی مانے؟ اگر ایسا امیدوار مل جائے تو بیشک الیکشن ہو جائیں۔چنانچہ ان کی نظر کرپشن کنگ نواز شریف پر پڑی، جس کا انتظام باجوہ پہلے ہی کر آیا تھا۔اس کی حکومت، پٹواریوں، بہت سے سیاستدانوں اور سرکاری ملازموں میں مقبول عام تھی۔لیکن اس پر بہت سے الزامات اور کرپشن کے مقدمے تھے ۔ لیکن خلائی مخلوق کی قسمت اچھی تھی کہ سپریم کورٹ جو نواز کے سارے مقدمے ختم کر سکتی تھی اس کا سب سے بڑا جج نواز کا قدر دان تھا۔ چنانچہ نواز کے خلاف ہر الزام اور مقدمہ ختم کروایا گیا اور جہاں مقدمہ نیب کی طرف تھا وہاں بھی انچارج ایک سابق جنرل تھا اس نے نواز شریف کے مقدمات کی پیروی سے ہاتھ کھینچ لیا اور نواز شریف ایک نو زائیدہ سیاستدان کی طرح دھلا دھلایا پاکستان کی سیاست میںداخل ہو گیا۔ اب ملین ڈالر کا سوال تھا کہ کس طرح سے عوام کی اکثریت کو خان کی پارٹی کو ووٹ دینے سے روکا جائے؟ اس کے کئی طریقے اختیار کیے گئے:
الیکشن کمیشن نے بہانہ بنا کر، کہ تحریک نے جو اندرونی پارٹی کا انتخاب کروایا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا، اس لیے تحریک کا انتخابی نشان بلا چھین لیا۔یہ بہت بڑی ضرب تھی۔ اور قاضی عیسٰی نے اپیل پر بھی بلا واپس نہیں کیا۔ جس سے تحریک کے امیدوار وں کو بحیثیت آزاد امیدوار الیکشن لڑنا پڑا۔اس کے بہت سے نقصانات ہیں۔ پہلے یہ کہ ہر امیدوار کو الگ انتخابی نشان ملا جس سے انکی پی ٹی آئی سے وابستگی نہیں دکھائی پڑتی۔اس کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ آزاد امیدوار الیکشن تو تحریک کے نام پر جیتیں گے لیکن منتخب ہونے پر کسی بھی پارٹی میں کسی بڑ ی رقم کے لیے شامل ہو سکتے ہیں ۔اسمبلی میں اگر آزاد امیدوار رکن بن کر آ بھی جائیں تو بھی پارٹی کو خواتین کی اور اقلیتی سیٹیں نہیں مل سکیں گی خواہ ان کی تعداد کتنی بھی ہو۔یہ بہت بڑا نقصان ہے جو الیکشن کمیشن کے نواز کے چمچے اور قاضی عیسٰی نے پہنچایا ہے۔شایدہی اس کا ازالہ کیا جا سکے؟
تحریک کیخلاف خلائی مخلوق کا پسندیدہ ترین ہتھیار ہے گرفتاریاں اور تشدد، جوبغیر کسی عدالتی اجازت نامے کے کیا گیا، مثلاً الیکشن سے چند دن پہلے ہی تحریک کے اہم قائدین اور ایسے امیدواروں کو گرفتار کیا گیا ہے جنکے مقابلہ میں کوئی خاص نون لیگی امیدوا ر کھڑا تھا۔ پورے ملک میں پولیس اور گلو بٹوں کو کھلی چھٹی تھی جس شہری کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں۔ ماریں ، پیٹیں، اس کی املاک کو نقصان پہنچائیں، یا ڈالے میں ڈال کر نا معلوم مقام پر لے جائیں۔ اندھیر نگری، چوپٹ راج کا سما ںتھا۔نگران حکومت آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔ وزیر اعظم کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں۔یا یہ نگران حکومت کی حکمت عملی تھی کہ الیکشن میں دھاندلی سے تعرض نہ کیا جائے۔جو بھی تھا، پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو PSB کا صدر بنا دیا گیا اگرچہ کہ ان کی کرکٹ میں مہارت کا کوئی ثبوت نہیں۔ کاکڑ کو بھی اپنی کارکردگی پر تمغہ حسن کارکردگی دے جائے گا؟
اب ساری دنیا میں پاکستان کے الیکشنز میں دھاندلی پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ دنیا والے تو بڑی تیز آنکھ رکھتے ہیں۔ ان سے کچھ چھپا ہوا نہیں۔بین الاقوامی مبصرین نے کیا رپورٹ دی ہے، اس کا ابھی تذکرہ نہیںدیکھا۔لیکن ایک بات پر سب کو اتفاق ہے کہ دھاندلی نے اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت کو بالکل ننگا کر دیا ہے۔ اب یہ کہاں سر چھپائیں گے؟پر بے شرموں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔سب سے بڑی بات کہ دھاندلی کے سب ثبوت کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیے ہیں اور دستاویزات بھی موجود ہیں۔ دھاندلیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ انشاللہ ، عمران خان جلد ہی حکومت بنائے گا، اور پھر خود وزیر اعظم بھی بن جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں