پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہونے کے باوجود جرنیلوں کی تمام تر کوششوں اور بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کے باوجود ان دھاندلہ زدہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی قیادت نے اپنی ہر دلعزیزی کو ثابت کر دیااور آزاد امیدوار کی حیثیت سے سب سے بڑی تعداد میں سامنے آئی۔ اب دل کو بہلانے کیلئے شکست خوردہ پارٹیاں چاہے لاکھ ان جیتنے والوں کو آزاد کہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ وہ سارے جیتنے والے آزاد، پی ٹی آئی کے نامزد کردہ ہیں اور پی ٹی آئی ان فوجی انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ نون لیگ دوسرے نمبر پر اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے فوجی جرنیلوں کی دونوں کنگ پارٹیز شرمناک حد تک ناکام ہوئیں۔ استحکام پاکستان کے بانی اور چیئرمین جہانگیر کو تمام تر فوجی اور نام نہاد نگران حکومتی حمایت کے باوجود شرمناک اور ذلیل ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جہانگیر ترین نے نہ صرف استحکام پاکستان پارٹی کو چھوڑ دیا بلکہ پاکستان کی سیاست سے ہمیشہ کیلئے باہر ہو جانے کا بھی اعلان بھی کردیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو ناکامی کے بعد اپنی پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ دوسری فوجی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے بانی اور سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے اور سابق وزیر دفاع اور اصل تحریک انصاف کو چھوڑ کر جانے والے پرویز خٹک کو بھی سیاست کو خیر آباد کہنے کا اعلان کرنا پڑا۔ دودنوں افراد نے نہ صرف تحریک انصاف کو چھوڑنے کے بعد عمران خان پر بھاری الزامات لگائے بلکہ خود کو جتوانے کیلئے ہر قسم کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربے استعمال کئے۔ جہانگیر ترین نے اپنے مقابل کھڑا ہونیوالے پی ٹی آئی کی ایک خاتون امیدوار سمیت تین امیدواروں کو اغوا کر لیا۔ ہر بار تحریک انصاف کو ایک نیا امیدوار کھڑا کرنا پڑا۔ آخر کار چوتھے امیدوار سے بھی جہانگیر ترین نہ جیت سکے۔ آج وہ جس عبرتناک صورتِ حال پر کھڑے ہیں وہ ان انتخابات میں دھاندلی کرانے والے ان فوجی جرنیلوں، کرنیلوں کیلئے نہ صرف لمحۂ فکریہ بلکہ لمحۂ عبرت ہے۔ جے یو آئی کے مالک مولوی فضل الرحمن نے بھی تسلیم کر لیا کہ ان فوجی انتخابات میں کھل کر پچھلے انتخابات سے بھی کہیں زیادہ دھاندلی کاالزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ شاید وہ جو ایک دو سیٹیں جیتے ہیں انہی بھی واپس کر دیں گے یا پھر اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ کراچی سے جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ یہ کہہ کر واپس کر دی کہ اس سیٹ پر جیتنے والے اصل امیدوار پی ٹی آئی کا ہے۔ سب سے بڑا دھچکا ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کو لگا ہے جو لندن پلان کے تحت چوتھی مرتبہ ملک کا وزیراعظم بننے کا دعویٰ کر کے آئے تھے اور ان کو ملک کی جعلی نگران حکومت نے فوج کے چند اہلکاروں کے حکم پر ایک وزیراعظم جیسا ہی پروٹوکول دیا گیا تھا۔ مگر ہائے رے کہ،
افسوس ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے!
اس مرجھائے ہوئے پچھتر سال غنچے کو تھوکا ہوا چاٹنا پڑا اوروہ بھی وڑ گئے۔ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ جعلی نگران حکمرانوں اور جرنیلوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک انصاف کس طرح جیت گئی۔ اس کا سادہ جواب ہے، انتقام اور مظلومیت کا ووٹ، ایک پارٹی جس کا سربراہ جیل میں بند ہو جس کی پارٹی کاانتخابی نشان لے لیا گیا ہو جس کی تمام تر پہلے اور دوسرے درجے کی قیادت مقید یا روپوش ہو۔ جس کے کارکنوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر ہی گرفتار کر لیا جاتا ہو جس کو کسی قسم کا سیاسی جلسہ کرنے کی اجازت نہ ہو، جس کے سربراہ کا نام، تصویر یا ویڈیونشر کرنے پر سارے ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا میں پابندی ہو، جس پارٹی کے سربراہ پر دو سو جعلی مقدمات درج ہوں، جس کی کردار کشی کرنے کیلئے اس کی بیوی پر عدت اور ماہواری کے مقدمات میں سرعام جرح کر کے ذلیل کیا جارہا ہو، جس کے لیڈروں کی تشدد زدہ برہنہ ویڈیوز جاری کر کے خوف پھیلایا جارہا ہومگر پھر بھی وہ الیکشن والے دن خوفناک حد تک باہر نکل کر اپنے ووٹ کا استعمال کر کے ان تمام چیرہ دستیوں اور مظالم کا حساب لے لیا۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیاان تمام نتائج کے آنے کے بعدپاکستانی فوج کے سربراہ جنرل حافظ سید عاصم منیر نے کوئی سبق سیکھا، یا نہیں کیونکہ اگر اب بھی ہٹ دھرمی رہی تو پھر مقابلہ عوام بامقابلہ جرنیل سڑکوں پر ہی ہو گا۔
0