0

خلیلِ شہر

سوچیئے ہوا زندہ رہنے کا ذریعہ ہے نہ دکھائی دیتی ہے نہ اس کا رنگ ہے نہ بو ہے شائد ہماری بات سنتی ہو مگر کچھ کہتی نہیں یہی ہوا آندھی بن کر اپنی موجودگی اور اپنی طاقت کا اظہار بھی کرتی ہے، یہی ہوا سمندروں میں لہریں بھی اٹھاتی ہے اورطوفان بھی بن جاتی ہے اور یہی سونامی بھی لاتی ہے، مگر ہماری زندگی کی ضامن ہے، جب سانس کی ڈوری ٹوٹتی ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے،اسی طرح کچھ کتابیں کچھ لوگ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور غیر محسوس طریقے پر ہمیں بدل دیتے ہیں ماحول بدل دیتے ہیں، ہماری سوچوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا اکثر لوگ اس کا تجزیہ کرنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں، جو لوگ اس کے اہل ہیں وہ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں کہ کون سی چیز کیسے بدل رہی ہے، ہوا کی نمی لوہے کو زنگ لگا دیتی ہے عام لوگ شائد اس بے خبر رہتے ہیں کچھ ہونگے جو اس کے اسباب جانتے ہونگے لطف کی بات یہ ہے کہ کچھ اور ہی لوگ ہونگے جو اس راز سے پردہ اٹھا دیتے ہیں ہماری زندگی میں بھی کچھ لوگ آتے ہیں عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں مگر اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں، اردو ادب میں ایک نثر نگار گزرے ہیں جن کا نام مہدی افادی تھا، ان کا شمار اردو کے چند بہترین نثر نگاروں میں ہوتا تھا، مہدی افادی نے نثر نگاری کی تکنیک پر کبھی بات نہیں کی مگر بعد میں آنے والے نثر نگاروں پر ان کے اثرات مرتب ہوئے ، ہمای زندگی اور ہمارے گھر پر اور کبھی کبھی شہر پر کوئی بہت گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، خلیل چلے گئے وہ کوئی قلم کار صحافی یا دانشور نہیں تھے ایک اخبار کے مالک مگر بہر حال شہر کے ان لوگوں میں ان کا نام لکھا جائیگا جو ریت پر اپنا نقش قدم چھوڑ جاتے ہیں اور ہوائیں وہ نقشِ قدم مٹا نہیں پاتیں پھر ساحل پر آنے والے پوچھتے ہیں یہ نقش پا کس کا ہے کب اردو ٹائمنر کا اجرا ہوا وہ تاریخ مجھے یاد نہیں، بہت سے لوگوں کو بھی یاد نہ نہیں ہوگی کسی اسٹور سے اخبار اٹھایا اخبار پڑھا اور بھول گئے ، یہ عام لوگوں کا رویہ ہے مگر خاص لوگوں کے رویئے بھی خاص ہوتے ہیں میں جب مجنون گورکھپوری سے ملا تو معلوم ہوا کہ مجنون صاحب اخبار کاہر اشتہار بھی پڑھتے ہیں وہ اخبار کی OBITUARY بھی پڑھتے تھے اور ضرورت رشتہ بھی، میں اس وقت کالج میں تھا یہ بات بڑی عجیب لگی تو اس کی وجہ پوچھی تو بلا تکلف بولے میں اس لئے پڑھتا ہوں کہ لوگوں کے سوچنے کے انداز کا اندازہ ہو مجھے نیو یارک میں ایسے لوگ ملے جو از راہِ تفنن کہا کرتے تھے کہ ہم اخبار بچھا کر کھانا کھاتے ہیں، اور میں سوچتا تھا کہ کون لوگ ہیں جن کو کھانا رکھنے کے لئے اخبار ہی میسر ہے ایک زمانے میں نیویارک سے دس دس اخبار شائع ہوتے تھے میں دو دن میں تمام اخبارات کا مطالعہ کرتا اور لکھنے کے لئے مجھے کبھی موضوعات تلاش نہیں کرنے پڑے، نیو یارک میں چند ہی لوگ تھے جو صحافت کی سن گن تھی ایک ظفر جن کو زعم علم کھا گیا دوسرے آفاق خیالی جن کو تعلقات چلتے رہے، چونکہ پیشہ ورانہ صحافت کے اصول مدنظر نہیں رکھے گئے تو ہر اخبار کا اپنا رنگ تھا جہاں تک PROFESSIONALISM کا تعلق تھا اس کو اردو ٹائمنر اور پاکستان پوسٹ نے برتا مگر ایک بین فرق تھا خلیل نے پاکستانی کمیونٹی پر نظر مرکوز رکھی اور اپنے اخبار میں ان لوگوں کو لکھنے کا موقع دیا جن کا IMPACT کمیونٹی پر تھا، کچھ اخبارات نے اپنا سارا اخبار پاکستان کے کالم نگاروں کی تحریروں سے بھر دیا اور کمیونٹی کو نظر انداز کردیا، خلیل نے کمیونٹی کو اہمیت دی اسی لئے خلیل کی زیادہ تر سر گرمیاں کمیونٹی کے اندر ہی تھیں ،جب کہ دیگر ناشرین سمجھتے تھے کہ انہوں نے اخبار نکال لیا ہے اب کمیونٹی کو ان کے پاس آنا چاہیے ، یہ عنصر خلیل کو سب سے جدا کرتا ہے خلیل غریب پرور بھی تھے انہوں نے کچھ افراد کو اپنے اخبار میں جاب بھی دیں، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اخبار کی اشاعت میں تکنیکی مدد کہاں سے لی جا سکتی ہے، ان کا حلقہ احباب وسیع تھا اور اکثر کے بارے میں خلیل مکمل معلومات بھی رکھتے تھے خالد عرفان کو حنیف اخگر نے پاکستان سے ایک مشاعرے کے لئے مدعو کیا تھا خالد عرفان پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے تھے وہ میرے گھر کے BASEMENT میں کافی عرصہ رہے میں نے ان کی نوکری کا بھی انتظام کر دیا تھا ، خالد عرفان شائد کام کرنے میں دلچسپی نہ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے خلیل سے رجوع کیا وہ شائد پاکستان میں کسی اخبار میں کام کر چکے تھے خلیل نے ان کی مشکل آسان کردی اور وہ اخبار سے منسلک ہو گئے ، مگر یہ تعلق تادیر برقرار نہ رہ سکا، خالد عرفان دلچسپ آدمی ہیں ایک زمانہ تھا وہ شہر بھر میں گاتے پھرتے تھے اک وکیل انصاری سارے شہر پر بھاری پھر وہ وقت آیا جب خالد عرفان کو وکیل انصاری کے خلاف قطعات لکھنے پڑے یہ بات ضمنی طور پر زیر بحث آگئی ،مقطع میں آپڑی سخن گسترانہ بات، بات تو خلیل کی ہو رہی تھی کہ وہ لوگوں کی مدد کر دیا کرتے تھے، خلیل نے کچھ کام پس پردہ رہ کر بھی کئے رئیس وارثی سے ان کے اچھے تعلقات تھے رئیس شہر کے ادبی حلقوں میں بہت متحرک تھے رئیس وارثی نے خلیل کی مدد سے نیو یارک میں کامیاب مشاعرے کرائے، خلیل بزلہ سنج تھے مامون ایمن جب اپنا کلام پڑھتے تو وہ کہتے تھے کہ مامون نے کلام تو بہت اچھا پڑھا مگر سمجھ میں نہیں آیا ، پھر کھل کھلا کر ہنستے تھے،ایک مشاعرے میں منیر نیازی بلائے گئے منیر نیازی بلانوش تھے طبیعت خراب ہو گئی اس وقت تو خلیل نے ان کو سنبھال لیا بعد میں یہ واقعہ سناتے اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے خالد مقبول صدیقی نیو یارک میں کافی عرصہ مقیم رہے ایم کیو ایم کے معاملات چلاتے تھے اب تو خیر سے وفاقی وزیر ہیں انہوں نے مجھ سے ایک انٹر ویو کا وعدہ کیا ہم نے سارے انتظامات کر لئے مگر خالد مقبول صدیقی نیو یارک سے ہیوسٹن چلے گئے ہم نے خلیل سے رابطہ کیا صورتِ حال بتائی خلیل نے موصوف سے وقت لینے کی کوشش کی مگر وہ خطرے کی بو سونگھ چکے تھے ہاتھ نہیں آئے، خلیل لسانی سیاسی جماعتوں کے خلاف رہے ترقی پسند نظریات رکھتے تھے اور ان کا اظہار ببانگ دہل کرتے تھے ،انہوں نے دین فروش مولویوں کو کبھی منہ نہیں لگایا اور ان پر پھبتی کسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ یہ مولوی قوم کو گمراہ کر رہے ہیں، انجم خلیل ایک ہاؤس وائف رہیں ، ساتھ ساتھ رہتیں تھیں خلیل ان کا بہت احترام کرتے تھے، مجھے حیرانی ہے کہ خلیل نے کس طرح آہستہ آہستہ انجم خلیل کو اس طرح بدل دیا کہ انہوں نے اخبار کا سارا کام خود سنبھال لیا، وہ بہت غیر محسوس طریقے سے اپنی اہلیہ کو اخبار کی تمام باریکیاں سمجھاتے رہے وہ جب اپنی بیماری سے نبرد آزما تھے تو انجم خلیل ہی اخبار کا سارا کام سنبھالتی رہیں ،کوئی غیر مرئی طاقت تھی جو وقت سے پہلے ہی ان کو آئندہ کے حالات سے باخبر کر رہی تھی یا یہ سب وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا چلا گیا اک معمہ ہے سمجھنے کا نا سمجھانے کا، میں نے آرٹیکل کی ابتدا ہوا کی سرشت سے کی خلیل جب امریکہ آئے ہونگے تو شائد ان کو پتہ بھی نہ ہوگا کہ ان کو نیویارک میں اخبار نکالنا ہوگا، مجھے اتنا پتہ ہے کہ خلیل نے ابتدا میں ایک ریسٹورنٹ طباق کے نام سے شروع کیا تھا، اگر یہ کاروبار چمک جاتا تو شائد خلیل اخبار کی طرف کبھی نہ آتے ، مگر خلیل کے جوہر کھلنے تھے وہ اخبار کے اجرا سے ہی کھلے، خلیل کی بہت توانا LRGRCY ہے ایک ایسا نقش قدم جو ہوا مٹا نہ پائے گی اس نے عشروں تک اس شہر کو اپنی گرفت میں رکھا اور عشروں تک جب بھی نیو یارک میں اخبارات کی تاریخ لکھی جائے گی اس تاریخ سے خلیل کا نام حذف نہ کیا جا سکے گا، ایک پل ٹوٹ گیا جو سرکاری اداروں اور کمیونٹی کے درمیان تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں