0

اب آخری آپشن بھی فوج کے پاس ہی ہے اور وہ ہے جنرل عاصم منیر کے خلاف فوجی بغاوت!

سقوطِ ڈھاکہ کے دور کا واقعہ ہے جب ڈھاکہ میں سڑکوں پر پاکستانی فوج کے جوان گشت کررہے تھے، کرفیو لگا ہوا تھا اور کسی کو بھی باہر نکلنے پر گولی ماردینے کا حکم تھا، ایسے میں ٹرک پر سوار ایک پٹھان فوجی نے ایک بنگالی کو دروازے کے باہر دیکھا تو اس سے سوال کیا کہ تم کون ہے؟ اُس زمانے میں ایسٹ پاکستان کے بنگالی پاکستانی فوج کو پنجابی فوج کہتے تھے اور ان کے خیال میں فوج میں یا تو پنجابی شامل ہیں یا پھر پٹھان تو وہ بنگالی گھبرا گیا اور فوجی کے سوال پر جواب دیا، ہم تو پٹھان ہیں یقینا!
آج کل اسلام آباد میں کچھ یوں ہورہا ہے کہ چن چن کر دارالحکومت میں پختون اور پٹھان نسل کے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ قومیت کی بنیاد پر خوانچہ فروشوں ، پتھارے داروں، ریڑھی والوں، ہوٹلوں کے ملازمین یہاں تک کہ گھروں میں کام کاج کرنے والے باورچیوں، چوکیداروں اور ڈرائیوروں کو بھی گرفتار کر کے پولیس تشدد کرنے کے بعد شہر بدر کررہی ہے، ہم سوچ رہے تھے کہ ایسٹ پاکستان کے بنگالیوں کی طرح جب اسلام آباد کی پولیس ان لوگوں سے پوچھتی ہو گی کہ تم کون ہو توہ پھر کس لہجے میں جواب دیتے ہوں گے، پاکستان کے جرنیلوں نے عمران خان کی حکومت کو سازش کے ذریعے گرا کر دیکھ لیا کہ شاید ملک کی صورت حال ان کے قبضے میں آجائے مگر ایسا نہ ہوا، پھر اس کے بعد عام انتخابات میں عدلیہ کے ذریعے بلے کے نشان پر پابندی لگا کر دیکھ لیا مگر آٹھ فروری کو عوام نے پھر عمران خان کی جماعت کو کروڑوں کی تعداد میں ووٹ دے کر ایک خاموش انقلاب کے ذریعے عمران خان کی جماعت کو جتوا دیا جبکہ اس میں الیکشن کمیشن کے ذریعے ریکارڈ دھاندلی کی گئی، عمران خان کی آواز، تصویر، نام، بیان اور ویڈیو کو بلیک آئوٹ کر کے دیکھ لیا مگر عوام پھر بھی اسی مرد قلندر کے ساتھ وابستہ رہے، PTIکے جلسوں، جلوسوں پر مکمل پابندی لگا کر بھی آزما لیا مگر عمران خان کی مقبولیت پھر بھی کم نہ ہوئی، نو مئی کا فوجی تنصیبات پر حملے کرنے کا ڈرامہ رچا کر بھی دیکھ لیا مگر سب پر واضح ہو گیا کہ یہ ایک سازش تھی اور خان کی پاپولیرٹی کا گراف اوپر سے اوپر تر ہوتاچلا گیا اور اب ڈی چوک یعنی فوجی چوک میں فوج نے عمران خان کے ووٹرز اور سپوٹرز پر سیدھی گولیاں مار کر اور ان گنت لاشیں گرا کر بھی دیکھ لیا مگر اس کاالٹا اثر یہ ہوا کہ لوگوں کے دلوں میں فوج کے خلاف نفرت میں شدید تر اضافہ ہو گیا، ان سب حرکتوں کا ذمہ دار صرف ایک سائیکو پاتھ جنرل ہے جس کا نام عاصم منیر ہے، یہ وہ جنرل ہے جس کیلئے جنرل باجوہ نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ اس شخص کا دماغ متوازن نہیں ہے، ذہنی طور پر یہ شخص چیف آف آرمی سٹاف بننے کا اہل نہیں ہے مگر ہمارے خیال میں نواز شریف کو شاید ایسے ہی ذہنی مریض کی ضرورت تھی جسے وہ استعمال کر سکے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان اپنے مطالبات سے ہٹنے کو تیار نہیں اور اپنے تازہ بیان میں انہوں نے عاصم منیر کو آج کا جنرل ڈائر اور یحییٰ خان ٹو قرار دے دیا ہے، دوسری طرف جنرل عاصم منیر صاحب ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ اب اگلے دس سالوں تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے یعنی بقول شخصے، قبر ایک ہے اور مردے دو، اس صورت حال میں کسی بھی وقت ملک میں سول نافرمانی اور خانہ جنگی ہو سکتی ہے، ہمارے خیال میں اب صرف ایک ہی حل رہ گیا ہے، فوج کے دیگر افسران جرنیلوں اور جونیئر افسران نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح سے جنرل عاصم منیر نے اپنے ہی پاکستانی شہریوں پر سیدھی گولیاں مار کر نفرتیں سمیٹ لی ہیں لہٰذاوہ فوجی جو اس ذہنی مریض جنرل منیر سے اب عاجزآرہے ہیں وہ ایک سوفٹ ’’کو‘‘ لیکر آئیں، جنرل عاصم منیر کو ہٹائیں اور ملک میں فوراً نئے الیکشن کے تحت فری اور نیوٹرل الیکشنز کرائیں اور جو بھی اکثریت میں ہو اسے اقتدار سونپ کر فوج واپس بیرکوں میں چلی جائے۔ ویسے بھی اس ملک میں اس وقت غیر سرکاری طور پر ڈیکلیئرڈ مارشل لاء تو لگا ہوا ہے تو بہترین موقع ہے کہ اس طرح سے ملک میں سکون بھی آجائے گا اور عوام الناس کی نگاہ میں ہماری فوج کا وقار اور اس کی ساکھ بھی بحال ہو جائے گی۔ اگر آپ کے پاس کوئی دوسرا حل ہے تو ضرور آگاہ کیجیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں