اس ہفتے ہمارے بہت ہی عزیز دوست اور باس خلیل الرحمن کا انتقال ہوگیا، انا اللہ و انا الیہ راجعون، خلیل صاحب سے ہمارا تعلق اس وقت استوارہواجب ہم اُردو ٹائمز کے ہیوسٹن میں بیورو چیف بنائے گئے۔ وہ دوستوںکےدوست تھے اور کبھی کاروباری معاملات کواپنی یاری میں دخل انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔ خلیل الرحمن کویہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے نارتھ امریکہ میں سب سے پہلے ہفت روزہ اخبار’’اُردو ٹائمز‘‘ کا اجراء کیا ۔ گو اس کے بعد کئی دوسرے ہفت روزہ شماروں کا آغاز ہوا مگرا ُ ُردو ٹائمز کی مقبولیت اپنی جگہ رہی۔ خلیل صاحب جب بھی کسی بات پر اسٹینڈ لیتے تھے تو اس پر بڑی دلجمعی کے ساتھ قائم رہتے تھے چاہے اس کے لئے انہیں کاروباری نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس زمانے میں جب افغانستان میں ڈورن حملے ہو رہے تھے اوراس میںمقامی پختون افغان لوگوں کی مخبری کا بڑا دخل تھا کیونکہ امریکی اداروںکی کارروائیوںکا براہ راست تعلق ان مخبروں کی خبروں پر ہوتا تھا ۔ مثلاً جب کبھی ڈورن حملہ ہوتا تھا اس مخصوص مقام پر افغان مخبر ایک چپ پھینک دیتا تھا اور ڈورن اس چپ کے ذریعے حملے کی جگہ کا مکمل تعین کرتا تھا۔ ظاہر ہے اس مخبری کا معاوضہ بلکہ بڑااچھا معاوضہ امریکی حکومت ان مخبروں کو ادا کرتی تھی۔ اس زمانے میں ایک امریکی جنرل نے اس مخبری کا حوالے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پختون پیسوں کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں ہم نے اپنے ایک کالم میں اس جنرل کی بات کا حوالہ دیا تھا ۔ اُردو ٹائمز میں ہمارے اس کالم کے چھپنے کے بعد نیویارک میں مقیم پٹھانوں کا شدید ردعمل سامنے آیا ، ان لوگوں نے خلیل الرحمن صاحب سے رابطہ قائم کر کے کہا کہ اگر آپ کے اخبار نے معذرت نہ شائع کی تو ہم تمام مقامات سے اُردو ٹائمز کے اخبارات اٹھالیں گے ۔ خلیل صاحب نے جواب دیا کہ اگر آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں تو یہ جان لیں کہ میں معذرت اخبار میں کبھی نہیں شائع کروں گا۔ انہوں نے ہمارا فون نمبر دیتے ہوئے کہہ دیا کہ پہلے آپ ان سے رجوع کریں کیونکہ وہ سلیم سید کا کالم تھا۔ پھر خلیل صاحب نے ہم سے بات کی تو ہم نے بتادیا کہ یہ الفاظ ہمارے ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہم نے اس امریکی جنرل کی بات کو کوڈ کیا تھا جس کا یہ بیان آج بھی انٹرنیٹ پرموجود ہے ۔ خلیل صاحب نے کہا کہ وہ اپنے اخبار میں معذرت کبھی نہیں شائع کریں گے کیونکہ آپ نے اپنے کالم میں کسی کاریفرنس دیا تھاآپ کی رائے نہیں تھی۔ خلیل صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور بالآخر بات ختم ہوگئی۔ ہاں اگر کوئی دانستہ طورپر غلطی ہو جاتی تھی تو وہ اسے قبول کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔خلیل صاحب کی اہلیہ انجم بھابھی بھی اُردو ٹائمز کے چلانے میں برابر کی شریک رہیں اور علالت کے آخری دنوں میں تو وہ ہی مکمل طور سے خلیل الرحمن صاحب کے خواب کو بخوبی پوراکرتی رہیں اور امید ہے کہ ان کے بعد بھی وہ ان کے خواب کی تکمیل کرتی رہیں گی۔ خلیل الرحمان صاحب سے ہماری بالمشافہ ملاقات ہیوسٹن میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ ہماری کتاب’’ شہر خونچکاں‘‘ کی تقریب اجراء میں شرکت کے لئے بھابھی کے ہمراہ آئے تھے۔ قیام ہمارے غریب خانے پر ہی ہوا اوران کے ساتھ گزارے ہوئے وہ دن اور گھنٹے آج بھی ہمیں یاد آتے ہیں ۔ بچوں کے ساتھ وہ ایسے ہی گھل مل گئے جیسے کہ وہ انہیں برسوں سے جانتے ہوں۔ ہمارے دونوں بچے شان اور سارہ ہماری کتابوں کی ٹیبل پرکھڑے تھے اور لوگ جوق درجوق انہیںلے رہے تھے۔رات کو گھر آ کر جب وہ کتابوں سے ہونے والے ریونیو کا حساب کر رہے تھے تو ٹوٹل بارہ سو ڈالرز بنے تھے۔ ہنسی مذاق چل رہا تھا کہ ا چانک خلیل صاحب نے اعلان کیا کہ بھئی سلیم صاحب کیونکہ دونوں بچوں نے آپ کی خاطر اپنے گھنٹے لگائے ہیں تویہ آمدنی آدھی آدھی ان میں آپ تقسیم کردیں۔ بچوں نے ہماری طرف دیکھ کر کہا کہ نہیں نہیں یہ ڈیڈی کے لئے ہیں ہم نہیںلیں گے تو خلیل صاحب نے کہا کہ آج ڈیڈی کی نہیںچلے گی یہ ہمارا حکم ہے آپ دونوں یہ پیسے لیں گے ۔ یعنی وہ ایک طرف وہ اپنی پاکستانی روایات اورکلچر کو بھی دیکھ رہے تھے اور دوسری جانب یہاں پیدا ہوئے اورپلنے بڑھنے والی امریکی نسل کی سوچ کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے ۔ ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وہ مخصوص پرانی پاکستانی اقدار کے ہی حامی نہیں تھے بلکہ ساتھ ساتھ وہ امریکن کلچر کو اپنے کاموں اوربزنس میں مدنظررکھتے تھے۔
جب لاہو ر سے اعجاز صاحب نے خلیل الرحمن صاحب کی اس خبر سے آگاہ کیا تو ہمیں یوں لگاکہ جیسے کوئی بہت ہی ا چھا دوست ، غمگسار اور یاروں کا یار جدا ہوگیا۔ ہم نے ریڈیو کی مصروفیت کے باعث جب ان سے عرض کیا کہ اردو ٹائمز آپ کسی اور کو دیں توانہوں نے بلاتاخیر ایک اورصاحب کو ہیوسٹن روانہ کیا اور ہم سے کہا کہ آپ نے اپنی مکمل سپورٹ دینا ہے۔ اُردو ٹائمز سے ہمارے علیحدہ ہونے کے باوجود وہ ہماری کتاب کی رونمائی میں بذات خود آئے بلکہ کہا کہ آپ کی اس تقریب کی خبر اورروداد میں خود لکھوں گا اُردو ٹائمز میں۔ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو آپ پر اپنی ذات کے اتنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔ خلیل الرحمان ہمارے لئے ان ہی میں سے ایک ہیں’’حق مغفرت کرے ،ایک آزاد مرد تھے‘‘۔
0