پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل وہ ادارہ ہے جسے اول تو ہونا ہی نہیں چاہئے تھا اور اگر عسکری طالع آزماؤں نے اسے اپنی ہوس ملک گیری کو مذہب کا لبادہ پہنانے کیلئے وضع کیا تھا ، تو اسے آج سے برسوں پہلے لپیٹ دینا چاہئے تھا!
یہ ہم یوں کہنے کی جسارت، یا گستاخی ، کر رہے ہیں کہ اس کے مذہبی اسکالروں اور بہتر سے بہتر مشاہرہ پانے والے دینی بقراطوں نے آج تک، برسوں کے غور و خوض کے بعد بھی، یہ طے نہیں کیا، یا طے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ پاکستان میں بنکوں کے نظام میں سود کا کاروبار جائز ہے یا نہیں؟
برائے نام پاکستانی بنک اپنے سودی نظام کو پروفٹ اور لوس یعنی منافع یا نقصان کا اپنی دانست میں اسلامی چولا پہنا کر مطمئن ہیں کہ انہوں نے دینی شرائط پوری کردی ہیں۔ وہ اگر اس نظام پر کاربند ہیں تو اس لئے کہ مذہبی اسکالروں کا جو جمعہ بازار اسلامی نظریاتی کونسل کی سرپرستی میں لگا ہوا ہے وہی آج تک اس مسئلہ کا حتمی حل فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے!
لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ فتویٰ دینے میں گھنٹوں بھی نہیں لگے کہ ملک کے انٹر نیٹ صارفین جو، مجبوری کے تحت، وہ وسیلہ استعمال کرتے ہیں جسے انٹرنیٹ کی اصطلاح میں وی پی این کہا جاتا ہے وہ غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے !
وہ کہاوت کس نے نہیں سنی کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے تو جس سرعت کے ساتھ پارلیمان نے گھنٹوں کیا منٹوں میں 26ویں آئینی ترمیم منظور کی اور اس کے فوری بعد یزیدِ وقت کے حکم پر اس کی مدتِ ملازمت میں توسیع کیلئے قانونی سہولت بھی منٹوں میں فراہم کردی تو اسی کی دیکھا دیکھی اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کے بھی پر لگ گئے!
وہ جو برسوں سے کسی کڑک مرغی کی طرح سودی تجارت اور بنکاری کے نظام کے انڈوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جیسے ہی انہیں یزیدِ وقت کے دربار سے حکم ملا کہ وی پی این کو غیر اسلامی قرار دینا ہے تو انہوں نے فورا” کہا، سرکار، آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ تعمیل ہوگی اور ویسے ہی ہوگی جیسے پارلیمان میں بٹھائی گئی آپ کی کٹھ پتلیوں نے آپ کی بادشاہت میں توسیع کا قانونی جواز فراہم کردیا ہے!
جو ڈرامہ اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے حوالہ سے رچایا اس میں مرکزی کردار ادارہ کے سربراہ ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب نے ادا کیا۔ انہوں نے جس فدویانہ انداز میں یزیدِ وقت کے فرمان پر عمل کیا ہے تو ہمرا مخلصانہ مشورہ ڈاکٹر صاحب کو یہ ہے کہ وہ اب اپنا نام راغب نعیمی سے راغب عاصمی کرلیں!
ڈرامہ کا پورا اسکرپٹ وہیں ، جرنیلوں کی کمیں گاہ، جی ایچ کیو میں تیار کیا گیا اور اس میں تعجب کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے اس لئے کہ عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کی جو سازش اڑھائی برس پہلے اس وقت کے یزید ، قمر باجوہ (اکثر دل جلے پاکستانی، قمر کے بجائے موصوف کو کمار باجوہ کہہ کے پکارتے ہیں جو موصوف کے کردار کو دیکھتے ہوئے انتہائی مناسب بھی لگتا ہے) کی سرپرستی میں ان کے سامراجی آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے تیار ہوئی تھی اس کا اسکرپٹ بھی وہیں لکھا گیا تھا جہاں آج وی پی این کو غیر اسلامی اورغیر شرعی قرار دینے کا ناٹک رچایا گیا ہے !
لیکن ہماری اسلامی تاریخ توایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں طالع آزما یا طالع آزماؤں کے غیر قانونی اور غیر اسلامی، غیر شرعی احکامات اور افعال کو دین کا چولا پہنانے کیلئے دین فروش ملاؤں نے غاصبوں کی حمایت میں فتوے دئیے اور غاصب کے ہاتھ مضبوط کئے۔
اس کی شروعات تو ہمارے پیارے نبی کے جگر گوشہ، ان کے پیارے نواسے، شہیدِ اعظم سیدنا حسین علیہ السلام کے خلاف قتل کے فتووں سے ہوئی جو غاصب یزید کو شرعی جواز دینے کیلئے اس وقت کے دین فروش ملاؤں نے جاری کئے۔
وہ دن اور آج کا دن، ہر غاصب نے دین فروش ملاؤں سے اپنے حق میں فتوے لئے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ملاؤں نے اسلامی امہ کے مفاد کے خلاف بھی فتاوی جاری کرنے میں کبھی غفلت نہیں برتی، کبھی تساہل سے کام نہیں لیا۔
یورپ میں پندرہویں صدی میں چھاپہ خانہ، یا آسان زبان میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوچکا تھا لیکن اس دور کی عظیم الشان خلافتِ عثمانیہ کے مفتیوں نے پرنٹنگ پریس کو شیطانی ایجاد کا نام دےکر اسے غیر شرعی قرار دیا اور صدیوں کیلئے خلافتِ عثمانیہ علم و ادب کی ترویج سے محروم کردی گئی۔ یورپ میں کتابیں چھپنے کے ساتھ علوم کے اکتساب کا وہ آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے اور اسلامی دنیا کی پسماندگی کا ایک بڑا سبب وہی فتوے ہیں جن کے تحت پرنٹنگ پریس کو غیر اسلامی قرار دینے والے مفتی خدا کی بارگاہ میں جواب دے رہے ہونگے اور عذاب بھگت رہے ہونگے!
لیکن سربراہِ حکومت یا مملکت اگر حکمت اور فراست مند ہو تو اس کے پاس ملاؤں کے زہر کا تریاق ہوتا ہے۔
تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ حجازِ مقدس پر فرمانرواں عثمانیوں کے زوال کا باعث وہ سازش تھی جو اس وقت کی سب سے مضبوط سامراجی طاقت برطانیہ نے تیار کی تھی اور جس میں آلہء کار حجاز اور نجد کے قبیلے تھے۔ شاہ عبد العزیز ابنِ سعود جب سعودی عرب کے فرمانروا ہوئے تو وہ ٹیلیفون کی سہولت کو ملک میں رائج کرنا چاہتے تھے لیکن وہابی مولوی اس کے حق میں نہیں تھے اور انہوں نے بھی فتویٰ دے دیا تھا کہ ٹیلیفون شیطانی ایجاد ہے اور غیر اسلامی ہے !
شاہ عبد العزیز نے لیکن اس کا توڑ یوں نکالا کہ اپنے ایک نائب کو ہدایات دیں کہ ان کی طرف سے جب سگنل ملے تو وہ فون پر قرآن شریف کی قرأت شروع کردے۔ یہی ہوا کہ بھرے دربار میں جب فون کا معاملہ پیش ہوا اور مولویوں نے حسب دستور اس کی مخالفت کی تو شاہ کی ہدایت پر فون کی گھنٹی بجی اور قرأت شروع ہوگئی۔ شاہ نے مولویوں سے کہا، سنو، جس ایجاد پر قرآن کی قرأت ہو وہ کیسے شیطانی یا غیر شرعی ہوسکتی ہے ؟
لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو اوپر سے لیکے نیچے تک منافقت کا دور دورہ ہے۔ سو ایسے ماحول میں یزید عاصم منیر کیلئے کوئی پریشانی نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل میں براجمان دین فروش مولویوں سے اپنے غیر قانونی اقدام کیلئے دینی جواز حاصل کرلے۔ آخر راغب نعیمی، معاف کیجئے راغب عاصمی، جیسے کٹھ ملا اسی مقصد کیلئے تو پالے جارہے ہیں کہ غاصبوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے جہالت زدہ معاشرہ کو دین اور شرع کی غلط تاویلات سے خاموش کردیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ نے اپنا جاہلانہ فتویٰ جاری کرتے ہوئے یہ مطلق نہیں سوچا کہ ہزاروں لاکھوں پاکستانی نوجوان جو انٹر نیٹ کی سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے نت نئے سوفٹ وئیر پروگرام بناتے ہیں ان کے مستقبل پر اس فتویٰ کا کیا اثر ہوگا؟
ستم بالائے ستم یہ کہ حکومتِ وقت اپنے یزیدی سہولت کاروں کی رضا کیلئے ہر وہ کام کرتی آئی ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف انہیں اور ان کے وردی والے آقاؤں کے مفاد میں ہے۔ 8 فروری کی رات عوامی فیصلہ پر جوشب خون مارا گیا وہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کا بلیک آؤٹ کرکے ہی کامیاب ہوا تھا۔
گذشتہ مارچ کے مہینے سے پاکستان میں ٹویٹر یا ایکس کی سہولت پر عوام کیلئے پابندی ہے اگرچہ عسکری طالع آزما اور ان کی سیاسی کٹھ پتلیاں باقاعدگی سے اسے استعمال کرتے آئے ہیں۔ اب اگر عوام اس دنیا میں باخبر رہنے کیلئے متبادل وی پی این کی سہولت مجبورا” حاصل کرتے ہیں تو وہ بھی غاصب حکمرانوں کو منظور نہیں ہے۔
جرنیلوں اور ان کی سیاسی کٹھ پتلیوں کو عوام یا ان کے مفاد سے کوئی غرض نہیں۔ ان کا ہدف تو صرف اور صرف اپنے غاصبانہ اقتدار کو دوام بخشنا اور اس کے ذریعہ عمران خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا ہے۔ باقی ملک و قوم جائے بھاڑ چولہے میں ان کی بلا سے!
تو اب پاکستان کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ظلم و بربریت کی یہ نئی گولی بھی خاموشی سے ہضم کرلینے کیلئے تیار ہیں یا دنیا میں ، جہاں ٹیکنالوجی کا بول بالا ہے وہ ایک غیر متعلقہ اور جاہل قوم کی حیثیت میں رہنا چاہتے ہیں ؟
اگر عوام کی غیرت اس تازہ ترین حملہ کو بھی خاموشی اور صبر و شکر سے برداشت کرلینے کیلئے آمادہ ہے تو پھر پاکستان کے مستقبل کیلئے فاتحہ پڑھ لینی چاہئے ! جرنیل اپنی عوام دشمن سرگرمیوں سے اور ان کے سیاسی گماشتے اپنی گندی زبانوں سے اشتعال دلاتے رہتے ہیں اب یہ عوام کا کام ہے کہ وہ اشتعال میں آکے گھروں سے نکلتے ہیں یا یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے فردا کے منتظر ہوتے ہیں! بھانڈ خواجہ آصف کا شمار ان غلیظ اور مےعفن افراد میں ہوتا ہے جن کا منہ جب بھی کھلتا ہے اس سے بدبو کا طوفان جیسے نکلتا ہے۔
اس بدزبان، بد کردار اور انتہا درجہ کے رذیل انسان نے ایک کروڑ پاکستانیوں کو جو بیرونِ ملک رہتے ہیں اٹھائی گیرا قرار دے دیا ہے اور طعنہ دیا ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانی وطن سے فرار ہوگئے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کے مجرم ہیں!
اس بھانڈ کی ہرزہ سرائی تو اس کی گراوٹ اور پستی کا منہ بولتا اعلان ہے لیکن اس جیسے متعفن اور بدبودار انسان کا پاکستان کا وزیر دفاع ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یزیدی جرنیل کن بداطوار سیاسی گماشتوں کے پردے میں پاکستانی قوم کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔
برطانیہ سے تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ مہا چور نواز شریف کا لاڈلا حسن نواز بنک کرپٹ یا کنگال ہوگیا ہے۔ لندن کی عدالت نے اس کے کنگال ہونے پر یوں مہر لگائی ہے کہ اس نے لاکھوں پاؤنڈ کے محصولات یا ٹیکس ادا نہیں کئے!
ٹیکس دینے کی بری عادت تو اس کے پرکھوں نے بھی کبھی نہیں اپنائی تو حسن نواز کیسے برطانیہ میں ٹیکس دیتا۔ اس کے باپ دادا نے بھی یہ بری عادت کبھی نہیں ڈالی۔ اور کہاوت آپ کو یاد ہی ہوگی کہ
پتا پر پوت نسل پر گھوڑا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
اس کے ساتھ ہی حسن نواز کے نامی چور بابا نواز شریف اور بلیک میلر بہن مریم نواز پاکستانی سرکار کے خرچہ پر جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں اپنے کاروباری معاملات نمٹانے میں مصروف تھے۔
طائرانِ باخبر کی اطلاع یہ ہے کہ وہاں جنیوا میں ان کے قیام کا اصل مقصد میکسکو کے بدنامِ زمانہ منشیات کے کلیدی اراکین سے مالی معاملات طے کرنا تھا۔ طیور نے بتایا کہ تیس ارب، جی ہاں، تیس (30) ارب روپے کے کالے دھن کو جو پاکستان کے وسائل پر ڈاکہ ڈال کے جمع کیا گیا ہے، ڈرگ کارٹیل کے ماہرین کی مدد سے سفید کروانا ہے تاکہ دھلی ہوئی رقم سے پی آئی اے خریدی جائے۔ جس کے بعد تو گنگا شریف خاندان کے گھر میں بہے گی، وارے نیارے ہوجائینگے، ہر دن عید کا دن ہوگا اور ہر شب، شبِ برات!
ظاہر ہے کہ یہ کام یزید عصر کی تائید اور بھرپور تعاون کے بغیر تو نہیں ہوسکتا تھا!
اور یزید کو پاکستان کے عوام سے یہ گلہ ہے کہ بقول اس کے بہت زیادہ تحریر و تقریر کی آزادی معاشرہ میں بے راہ روی کا سبب بن رہی ہے اور اخلاقی قدریں پامال ہورہی ہیں!
اب کوئی اس نیم خواندہ یزید سے پوچھے کہ ملک میں کوئی آزادی اس نے برقرار رہنے دی ہے جس کا ناجائز استعمال معاشرہ کو برباد کر رہا ہے؟
وہ جو ہم نے کہا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے تعاون سے ناٹک رچایا گیا ہے تو اس کی شروعات یزید عاصم منیر کے اس بھاشن سے ہوئی تھی۔
کیا وقت آگیا ہے قائد اعظم کے پاکستان پر کہ شیاطین اور ان کے چیلے اب قوم کو یہ بتائینگے کہ کیا اخلاقی ہے اور کیا غیر اخلاقی!
تو چلئے ہمارا یہ قطعہ پڑھئے اور ہمارے ساتھ ملک کے حق میں دعا کیجئے کہ اللہ قوم پر رحم کھائے اور ان یزیدیوں سے قوم کو نجات عطا فرمائے !
یزیدِ وقت کا یہ زعم بھی ہے غور طلب
کہ وہ بتائے گا اخلاق کیا ہے، کیا تہذیب
ہمارے ٹکڑوں پہ پل کر ہمیں بھی بھونکتا ہے
نہ جانے اور دکھائے گا کیا ہمارا نصیب
0