0

دیار غیر میں ایک قد آور ادبی شخصیت

ابھی حال ہی میں، یہاں ایک پاکستانی نیوز چینل پر ، خیبر پختون خوا میںہونے والی ایک ریلی میں، پی ٹی آئی کے جھنڈوں کے ساتھ، ایک امریکی جھنڈا لہرانے کا ذکر ہوا۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ امریکی جھنڈا ، ایک مقامی سیاسی جماعت کی ریلی میں کس نے اور کسِ لیے لہرایا تھا، اس کے منظر سے الگ، پس منظر میں مزید کوئی اور مقصد یا مقاصد تھے یا نہیں، ان سوالات کے جوابات پاکستان میں بسنے والے عام شہری اور سیاست سے منسوب ارباب، نظر، مجھ سے زیادہ بہتر انداز میں دے سکتے ہیں۔ ۔۔ہاں، وہاں ایک امریکی جھنڈے کے ذکر نے ، میرے ذہن و دل میں، ایک پاکستانی نژاد، امریکی شہری،حال مقیم نیو یارک شہر، کا وجود ضرور لہرایا۔اس وجود کا نام ہے مامون ایمنؔ۔
مامون ایمنؔ صاحب کا مختصر سا تعارف حاضر ہے۔
ایمنؔصاحب کا تعلق شہر لاہور سے ہے۔ وہ تقریباً چھ دہایئوں سے نیو یارک میں مقیم ہیں اور ساڑھے بیالیس برس انگریزی زبان ، و ادب پڑھانے کے بعد، ہیڈ ڈین کی حیثیت سے، وظیفہ یاب ہیں۔ ۲۸ شعری و نثری کتابوں کے مصنّف ہیں، زبان و بیان اور عروض پر دسترس کے باعث، بابائے اردو کہلاتے ہیں، دو بیچلرز، چار ماسٹرز اسناد، دو اعزازی اسناد: پی ایچ۔ ڈی ۔اورڈی لِٹ اسناد کے حامل ہیں۔یہ بیان جاری رہتا ہے۔۔۔ ایمنؔ صاحب کی تنقید نگاری ، مذہبی شاعری اور مستزاد رباعیاّت پر (چار) ایم فل ۔ مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ ان دنوںایک طالبہ قرطبہ یونیورسٹی سے، بابائے رباعیاّت، مامون ایمنؔکی رباعی گوئی پر ڈاکٹریٹ مقالہ لکھنے میں مصروف ہے۔ ۔۔ایمنؔ صاحب منہاج یونیورسٹی ، لاہور کے ایم ۔اے ، ۔۔۔ایم فِل ۔۔۔ اور ڈاکٹریٹ مقالوں کے بیرونی ممتحن ہیں۔ موصوف کے نام کے ساتھ ، بہت سے سابقے ہیں۔ بہت سے لاحقے ہیں، لیکن وہ اپنے احباب اور پاک و ہند کے کے اعلیٰ ادبی حلقوں میں، صرف مامون بھائی کے نام سے مشہور ہیں۔
یہ تعارف کِس لیے؟ کہاں امریکی جھنڈا اور کہاں مامون ایمنؔ؟۔
مامون ایمنؔ میرے قریبی دوست ہیں۔ ان سے میری قرابت ۵۰ برسوں سے بھی زیادہ ہے۔میں ان کے خیالات سے پوری طرح نہیں ، نہ سہی؍بہت حد تک ضرور آگاہ ہوں۔ لہٰذا یہ عرض کرتا ہوں۔
مامون بھائی بر ملاانداز میں یہ کہتے ہیں:
’’پاکستان میرا وطن ہے۔ ۔۔۔امریکہ میرا دیس ہے۔۔۔مجھ پر یہ لازم ہے، کہ میں ان دونوں ممالک سے محب رہوں۔، ان کے ما بین، قرابت، دوستی اور امن کا ذریعہ بنوں، ذریعہ بنا رہوں۔‘‘ وہ سدا یہی کہتے ہیں کہ یہ دونوں ممالک شک و شبہ، اور روابط میںتذ بذب سے باہر نکلیں۔امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے۔یہ دنیا اب ایک عالمی گائوںہے۔ اس عالمی گائوں کو ہر خطہ میں اعتبار اور قرب کی ضرورت ہے۔
مامون بھائی کا دوسراجز وقتی پیشہ صحافت ہے۔وہ اپنی زندگی کا فلسفہ ریڈیو پاکستان (نیو یارک؍یو۔این، یو ایس)۔۔۔۔ بی بی سی ریڈیو (لندن) اور ریڈیووائس آف امریکہ، (نیو یارک آفس) کے ذرائع سے ، اداریوں، تبصروں، عالمی حیثیتوں کے سیاست دانوں؍حکمرانوں سے بالمشافہ انٹرویوز،میںدہراتے رہے ہیں (ترکی کے یو این سفیر عثمان اولجائے اور لبنانی نژاد ، سعودی یو این سفیر (ڈاکٹر جمیل برودی) مامون ایمنؔ نامہ نگار کو بہت پسند کرتے تھے۔
میں اپنے دوست مامون ایمنؔ سے اپنی دوستی پر بے پایاں فخر کرتا ہوں۔ میں بھی امریکہ میں ایک پاکستانی نژاد تارکِ وطن ہوں۔ میری بھی یہ تمنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین قرابت، دوستی، اور امن کے تعلّقات قائم رہیں، آگے بڑھتے رہیں۔
القصہّ مختصر، بہ قول مامون بھائی، ہم غلط بات کو غلط کہیں اور اس کی درستی کے لیے عمل پیرا ہوں، جھنجھلائے بغیر، کسی تند و تیز ردّ عمل کے بغیر ۔
مامون ایمنؔنے شہرت کی جن بلندیوں کو چھوا تو لا محالہ بحیثیت ایک پاکستانی نژاد ہونے کے پاکستان کا نام روشن کیا۔اردو ادب کی جو خدمت انہوں نے دیارغیر میں رہ کر کی ، اس کے لیے اردو ادب کے اداروں سے جو شناخت ان کو ملی وہ علیحدہ لیکن ان کی وجہ سے جو شناخت پاکستان کو ملی اس کے لیے ان کا آبائی وطن احسان مند ہے۔اپنی امریکی سفارت خانے کی ملازمت سے جو تجربہ حاصل کیا، اس سے انہوں نے کئی پاکستانیوں کو بلا معاوضہ فائدہ پہنچایا۔ ان کو جو امیگریشن کے محکمے میں مشکلات پیش آتی تھیں، اس میںان کی رہنمائی کی۔بطور استاد کے ہائی سکول کے ہزاروں طلباء کو پاکستان سے روشناس کروایا۔انہوں نے اس پاکستانی کی عمدہ صفات کو دیکھ کر پاکستانیوں کے متعلق اچھی رائے قائم کی۔مامون بھائی کوجب بھی وہ پاکستان عزیز و اقارب سے ملنے گئے، ادبی درسگاہوں اور اداروں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مشاعروں کی محفلیں برپا کیں اور انہیں مسند صدارت پر بٹھایا۔مامون نے ایک نہایت مشکل صنف شاعری پر طبع آزمائی کی اور اس میں مزید جدتیں پیدا کیں جو آنے والی نسلوں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوں گی۔مامون بھائی نے اپنی کتابیں پاکستانی مطبع خانوں سے شائع کروائیں اور پاکستانی لائبریریز کو تحفتاً پیش کیں۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اتنی نابغہ روزگار شخصیت اس کا نام دیار غیر میں روشن کر رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مامون ایمنؔ کو سرکاری طور پر ایک گراں قدر شخصیت تسلیم کیا جائے تا کہ آنے والی نسلوں کو ادب میں دلچسپی پیدا ہو اور وہ ان کے کام کو آگے بڑھائیںاور جو لوگ پاکستان کی طرف تنقیدی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، انہیں بھی معلوم ہو کہ پاکستان ادبی بلندیوں کو چھونے والوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اور اس میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر کام کرنے والے سب پاکستانی شامل ہیں۔
مامون ایمن کی غزلوں سے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
ازل سے ہے مری فطرت میں جھکنا تو پھر سجدوں سے مجھ کو عار کیا ہے
صبا سے پوچھتا پھرتا ہوں ایمن وفا میں پھول کیا ہے خار کیا ہے
مرنے کے لیے شوق سے جینا کیا ہے کیا کہیے زمانے سے کہ دنیا کیا ہے
جھونکے نے بدل ڈالا ہے خوشبو کا چلناک پھول نے ایک خار کو چوما کیا ہے
کرتا ہے با ت بات پہ اس کی ہی بات کیوں آگاہ اپنے دل سے بشر ہے کہاں ابھی
صحرا تکے ہے راہ سمندر کی رات دن ذرات کی دعا میں اثر ہے کہاں ابھی
مامون بھائی ، کی ایک کتاب’’ عیار‘‘ پر راقم کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصہ میں ’’نظم‘‘ کے تحت ایک حمد ہے، ایک نعت ہے، ایک منقبت ہے اور دس عدد طویل ، غیر مقفّہ نظمیں ہیں۔ دوسرے حصے میں ۷۲ عدد قطعات، شاعر کی طبعی عمر کی مناسبت سے ہیں اور تیسرے حصے میں۱۷۵ غزلیں ہیں۔ تمام کاوشات ایک ہی بحر ( بحر ہزج مسدس سالم محزوف ؍م فاعی لنُ ، ف عولنُ) میں ہیں۔ اس شاعر کا ایک مجموعہ کلام اس مجموعہ سے پہلے ’’تکرار‘‘ نام سے شائع ہو چکا ہے جس میںتما م کلام بحرِ مضارع میں ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے اس مجموعہ کو بھی گذشتہ مجموعہ کی طرح اول؍ منفرد قرار دینا چاہیے۔ یہ شاعر اپنے کلام میں حسن زبان کی شہرت رکھتا ہے۔ اس کتاب میں تین مقتدر نقادین کے فنی مضامین شامل ہیں جنہوں نے اس شاعر کی زبان دانی اور عروضی دسترس کا بھی اعتراف کیا ہے۔
جناب فقیر سیدّ آصف حسین، قونصل جنرل آف پاکستان، نیو یارک اپنے پیغام میں اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ اس کتاب میں ایمن صاحب کی قادرالکلامی مسلم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ متون میں پائی جانے والی گہرائی بھی اور گیرائی بھی، تہہ داریوں کے باوجود قاری کو زبان کی روانی اور بیان کی معجز بیانی سے الگ نہیں کر سکتی۔ ایک ایک مصرع اپنی ذات میں وسعت سے معمور ہے۔ اس وسعت میں تاثیر ہے اور تاثیر میں زندگی، ماحول اور لمحات کی صراحت‘‘۔
سردار خان سوزؔ نے اپنا تبصرہ ان اشعار میں کیا ہے: مسدس بحر کی جو روشنی ہے ۔ ہزج کے نام سے جگ میں سجی ہے
مبارک آپ کو ، مامون ایمنؔ۔ کہ یہ کاوش عیاری بن گئی ہے
علامہ ذوالفقار آغا گل ، سینٹ کلاوڈ، کینیڈا، اپنے مقالے میں کہتے ہیں: ’’بحیثیت مجموعی ’’عیار‘‘ دورِ حاضر کے خوش فکر اور ماہر فن شاعر پروفیسر مامون ایمنؔ کا خوبصورت، معیاری اور غیر معمولی کلام ہے جس میں انہوں نے اردو شاعری کی تین نمائندہ اصناف نظم، قطعہ اور غزل میں طبع آزمائی کی ہے لیکن پوری کتاب میں مفاعلین، مفاعیلن، فعولن کے علاوہ کوی دوسرا وزن نہیں استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی ہماری شاعری میں مثال نہیں ملتی۔ ـ‘‘
عیار، شعری مجموعہ ۔ سیف اللہ رانا کی نگرانی میں سپوتنک پرنٹرز میں چھپی اور کلاسیک لاہور نے جنوری ۲۰۱۴ء میںشائع کی ۔ اس کی قیمت دس ڈالر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں