یوں معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت نہ مہنگائی کوئی مسئلہ ہے، نہ بیروزگاری کا کوئی ایشو ہے نہ ناخواندگی کوئی مسئلہ ہے اور نہ دہشت گردی کا عفریت۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ ہے وی پی این کا شرعی یا غیر شرعی ہونا ہے۔ پچھلے ہفتے سے یہ عظیم مسئلہ جاری ہے اور اب دوسرے ہفتے میں بھی اس کی اہم ترین بحث چل رہی ہے۔ نظریاتی کونسل آف پاکستان کا جب قیام عمل میں لایا گیا تو یہ کہا گیا تھا کہ یہ انتہائی معتبر اور ذمہ دار ادارہ ملک میں موجود آئینی اور دینی مسائل کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے گا اور ریاست پاکستان کے جو قوانین شرع اور دین کے ساتھ متصادم ہیں ان کو حل کرنے کے لئے کام کرے گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ راغب نعیمی نے وی پی این کو غیر شرعی، غیر مذہبی قرار دے کر پہلے سے گرتی ہوئی نظریاتی کونسل کی ساکھ کو اب گٹر میں دھکیل دیا ہے۔ سب سے پہلے تو راغب نعیمی کو اس قدر نامعقول اور لغو فتوے پر فائز کیا جانا چاہیے دوسرے پھر اس غیر نظریاتی کونسل کو بھی ختم کردیا جانا چاہیے۔ اسلامی شریعہ کے حوالے سے جو مذاق دنیا بھر میں پاکستان اور دین اسلام کا بنا ہے وہ تو اس بات کا متقاضی ہے کہ اس مولوی کو ملک اور دین کی ساکھ کو اتنا نقصان پہنچانے پر جیل واصل کر دیا جائے چونکہ X، انٹرنیٹ اور وی پی این کا سب سے بڑا فائدہ عمران خان کو ہورہا ہے لہٰذا جنرل عاصم منیر کے سالے اور سفارشی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر فوراً وی پی این کے استعمال پر پابندی لگا دی یعنی ایک شخص کی شہرت سے خوفزدہ ہو کر اور عمران دشمنی میں آپ نے پورے ملک کو پکوڑے لگا دئیے۔ پاکستان میں لاکھوں نوجوانوں کا روزگار پہلے سے دگرگوں معاشی صورت حال میں ویسے ہی محدود تھا، اب آپ نے ان سے یہ جائز ذریعہ معاش بھی چھین لیا۔ یعنی اب تک جو تھوڑی بہت نوجوانوں کی تعداد پرو رجیم تھی آپ نے اسے بھی پی ٹی آئی کی طرف دھکیل دیا پھر کہتے ہیں کہ نوجوان عمران خان کے سحر میں آئے ہوئے ہیں۔ خود مولوی راغب اتنا کنفیوژ ہے کہ عوامی ردعمل کے بعد اس نے اپنا فتویٰ تبدیل کر دیا کیونکہ کونسل کے باقی ممبران نے بھی اس فتوے سے اتفاق نہیں کیا۔ مولوی نے کہا کہ آدھا فتویٰ درست ہے اور آدھا غلط یعنی جو لوگ فحش ویب سائٹس کے لئے استعمال کریں تو یہ غیر شرعی ہے اور جو اچھے کاموں کیلئے استعمال کریں تو جائز ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو بڑے جید مفتی پاکستان علامہ تقی عثمانی نے بھی اس فتوے کی حمایت کر دی ہے یعنی چور کا بھائی گرہ کٹ، یہ بالکل درست بات ثابت ہو گئی ہے اس واقعے کے بعد کہ مولوی کسی کا نہیں ہوتا، صرف صاحب زرہوتا ہے مگر پھر یہ سن کر اطمینان ہوا کہ کچھ اصول پسند مولوی بھی موجود ہیں یعنی دنیا سے ابھی ابو جہلوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے اس فتوے کو مضحکہ خیز قرا دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے دلیل کیا ہے مگر اس وی پی این پر پابندی کی دلیل کو صحیح مان بھی لیا جائے تو سب سے پہلے سیل فونز پر پابندی لگانا چاہیے گورنمنٹ کو کیونکہ اس آلے سے بھی فحش سائٹس پر جایا جا سکتا ہے۔ مولانا طارق جمیل کی اس مضبوط دلیل کے پیچھے یقیناً ان کا ذاتی تجربہ بھی شامل ہو گا جب ہی وہ اتنے پر اعتماد بھی ہیں۔ نارتھ امریکہ کے اکثر صارفین انٹرنیٹ اور وی پی این کے ذریعے اپنے انٹرنیٹ کی سائٹس اور بزنس کا پاکستان سے کام کرواتے ہیں، اب یقینا وہ بھی بند ہو جائے گا۔ ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے،یہ ایسا ہی ہے کہ امریکہ میں سڑکوں اور فری ویز پر سب سے زیادہ گاڑیوں کے ایکسیڈنٹس ہوتے ہیں لہٰذا گاڑیوں پر پابندی لگادی جائے، پتہ نہیں جنرل سید حافظ عاصم منیر احمد کس قماش کا بندہ ہے یا کس قسم کے لوگ اس حافظ جی کو مشورے دیتے ہیں کہ بندے کا ہنس ہنس کو برا حال ہو جاتا ہے۔ بغض عمران میں جنرل عاصم منیر یوں لگتا ہے کہ بالکل اندھے ہو چلے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ اپنی اس دشمنی میں وہ فوج کو بھی بدنام کررہے ہیں اور عوام میں فوجیوں کے خلاف انتقامی جذبات ابھرتے جارہے ہیں اب آگے دیکھتے ہیں کہ 24نومبر کے بعد کیا صورت حال بنے گی مگر ہم اتنا جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام چند ضمیر فروش جرنیلوں اور کرنیلوں کو چھوڑ کر اپنے فوجی بھائیوں سے بہت محبت اور قدر کرتی ہے!۔
0