ملک میں عوام کا آفات کا ، بیماریوں کا یا کسی بلائے ناگہانی کا شکار ہونا اک عام سی بات ہو گئی ہے یہ اللہ کا کرم ہوتا ہے اپنے بندوں پر کہ وہ صحت مندانہ زندگی میں واپس لوٹ آتے ہیں حکومت یا اُس کے سرکاری نجی ہسپتال صرف فنڈ اکٹھا کر کے اپنے قرضوں کی قسطیں برابر کرنے کی کوششوں میں رہتی ہیںعوامی زندگی کے ٹمٹماتے چراغ تو بس جلنے کی ضدمیںاپنے وجود کی تگ و دو میں رہتے ہیں حکومتوں نے کبھی بھی عوام الناس کو درپیش مشکلات کا ، لامتناہی مسائل کا ادراک نہیں کیا وعدے کئے جو وفا کے دائرے میں کبھی نہیں آئے مگر سیاست میں راقم نے یہ دیکھا ہے کہ یہ لوگ مرضی کے مفہوم اخذ کرنے لینے کے ماہر ہیں تو وعدہ خلافی کو عوامی بےشعوری کی چادر میں لپیٹ کر دوبارہ نئے نقاب میں آجاتے ہیں اس المیے سے بھی جمہوری نظام اپنے شباب کی چوکھٹ پر قدم نہیں جمارہا وہ جھولے میں پڑا لوریاں سننے کا عادی ہو چکا ہے کبھی کبھی آمرانہ جھڑکیوں سے اٹھ بیٹھتا ہے بصورت دیگر عوام کی چیخ و پکار سے اسے بیداری کبھی نہیں آئی ایم ایف سے قرضہ جاری ہونے کے بعد میرے محترم دوست میاں ریاض گل کا کا خیل نے بتایا کہ وفاق نے اور پنجاب حکومت نے کڑور ہا روپوں کی گاڑیاں خرید لیں ہیںریاض گل کاکا خیل کہتے ہیں کہ عوام کے یہ نام نہاد ہمدرد فضول شاہ خرچیاں اُس وقت کر رہی ہے جب 70فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے اک محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہے سیاست کی یہ نظر اندازی اس بات کی غماز ہے کہ سیاست میں ڈینگی جیسی بیماری ہونے سے جمہوریت بے دست وپا ہو چکی ہے اور اس کا کارن کوئی اور نہیں ہمارے اپنے سیاسی رہنماء ہیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں یہ دونوں متحارب گروپ مسند کے لئے لڑتے ہیں مگر عوام کی سہولت کے لئے کبھی مشت و گریباں نہیں ہوتے ۔خیبر پختوں خواہ حکومت میں شاید ڈینگی کا علاج ممکن نہیں اسی لئے تحریک ِ انصاف حکومت کے نمائندگان پنجاب جا کر ڈینگی کا علاج کرانا چاہتے ہیں تنازعے کی وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ پنجاب حکومت ڈینگی کے خطرناک مریضوں کو مکمل علاج کے لئے اپنے صوبے میں رکھنے سے کترا رہی ہے کیونکہ یہ مریض علاج کے لئے داخل تو ہوتے ہیں مگر پرہیز نہیں کرتے جس سے علاج طویل ہو کر 9مئی کی صورت بن جاتا ہے میرے خیال میں سیاست میں ڈینگی کی موجودہ وجہ 9مئی والے ڈینگی کا علاج نہ ہونا ہے اگر آپریشن سے اس کا علاج ممکن ہے تو ریاست کو ان اجسام ِ خطرناک سے محفوظ کرنا کسی کی تو ذمہ داری بنتی ہے نا ؟سیاست میں ڈینگی کے ان مریضوں پر اسرائیل ٹائمز اور یرشلم پوسٹ اپنے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کر چکے ہیں حکیم سعید نے تو اس خطرے سے سیاست کے اس ڈینگی کی پرورش کے متعلق برسوں پہلے آگاہ کر دیا تھا اُن کی صحیح بات یا پختہ پیشن گوئی کو نظر انداز کرنے کی سزا ہے یہ کہ سیاست میں ڈینگی کے شامل ہونے سے ملکی معیشت کو ملکی استحکام کو ،اداروں کی حُرمت کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ نو مئی کو ہونے والی اس بیماری کے حملوں کا سدباب اگر بروقت کر دیا جاتا تو دوبارہ اس بیماری کا خیبر پختون خواہ میں سر اُٹھانا ممکن نہ ہوتا اور نہ ہی دیگر صوبوں پر اس کے حملہ آور ہونے کی سکت باقی رہتی یہ واحد صوبہ ہے جس میں پولیو کے قطرے نہ جانے کس اعتقاد کی بناء پر بچوں کو نہیں پلائے جاتے نہ پالنے والی بات اپنی جگہ مگر جو ٹیمیں گھر گھر پھر کر ان کے بچوں کو معذوری سے بچانے کی کوشش میں ہوتی ہیں انھیں ہراساں بھی کرتے ہیں اور قتل بھی کر دیتے ہیں اسی لئے سیاست میں پیوست اس ڈینگی نے اپنی تعداد کو بڑھانے کے لئے افغانستان سے بھی ڈینگی اپنے قافلے میں شامل کئے ہیں اب تو کوئی صلاح الدین ایوبی آئے اور ان کا قلع قمع کرے ریاست کب تک یہ تماشے دیکھے گی بابا سیاست میں ڈینگی سے ملک کو عوام کو بچانا ہے بس اس پر عملی ایکشن لینے کی ضرورت ہے تا کہ ریا ست کا استحکام سلامت رہے۔
0