0

اختر مینگل کا استعفیٰ، بلوچستان کی صورت حال بہت خطرناک ہے!

سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی ممبر شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ ملک کی بہت خطرناک صورت حال ہوتی جارہی ہے۔ ہر طرف سے بلوچستان آگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے فوجی جنرلوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ ہر چیز کا حل طاقت نہیں ہوتا۔ یہ بات جنرل عاصم منیرکو سمجھ لینی چاہیے۔ ڈنڈے کی طاقت آپ صرف معصوم لوگوں، عورتوں اور نہتے عوام کو ہی دکھا سکتے ہیں یاان پر آپ ڈنڈا چلا سکتے ہیں۔ جیل میں ڈال سکتے ہیں، ان کے گھروں میں لوٹ مار کر سکتے ہیں لیکن وہ اگر آپ کے ظلم کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو وہ پھر باغی بن جاتے ہیں دہشت گرد بن جاتے ہیں۔ آپ ان کے لوگوں کو اغواء کر کے لے جائیں تو آپ محب وطن ہیں۔ دہشت گردوں کا حساب لے رہے ہیں لیکن وہ اگر آپ کے ظلم کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو وہ باغی کہلائیں۔ پاکستان کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یاد کریں ایوب خان کا دور جب ان کو قرآن پر حلف دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا پھر ان کو چن چن کر پھانسی دی گئی۔ پھر آگیا بھٹو کا دور نواب اکبر بگٹی کو گورنر بنا دیا گیا۔ سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت ختم کر دی گئی۔ پھر جو ظلم و ستم ایک بلوچ گورنر نے توڑا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے لیکن بعد میں ان کو اس کی سزا بھی ملی۔ پرویز مشرف نے ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ان کی لاش کو صندوق میں بند کر کے دفن کرنا پڑا ضیاء نے لیکن بہت ہوشیاری سے کام لیا۔ حیدر آباد ٹربیونل ختم کیا۔ ولی خان کو چھوڑ دیا ان سے ہاتھ ملایا اور سکون سے دس سال حکومت کی ضیاء الحق بہت ہوشیار آدمی تھا وہ بیک وقت کئی لوگوں کو بیوقوف بناتا تھا۔ اس نے بھٹو کو بھی نواب محمد احمد خان کے قتل میں پھانسی لگا دی ۔ دوسری طرف وہ سندھ میں علیحدگی پسندوں کو پھول بھیجتا رہا۔ علی احمد تالپور کو وزیر دفاع بنا دیا۔ وہ ہر صوبے میں چال چل رہا تھا: غیر سیاسی مجلس شوریٰ بنا دی خود امیر المومنین بننے کی کوشش میں لگا رہا۔ غیر سودی معیشت نافذ کرنے کی کوشش کی اقوام متحدہ میں پہلی مرتبہ قرآن پاک کی آواز گونجی۔ خانہ کعبہ میں نماز کی امامت کی یہ بہت بڑا اعزاز اس کے قسمت میں آیا لیکن سب چالاکیوں کے باوجود آم کی پیٹی جہاز میں رکھے جانے کے بعد دھماکے میں مارا گیا۔
اب بے نظیر اور نواز شریف کا دور آیا۔ نواز شریف نے سب سے دوستی کرنے کی کوشش کی۔ اچکزئی ان کے دست راست بن گئے۔ مینگل سے بھی ان کی دوستی تھی بلوچستان سے نئی قیادت سامنے لائے۔ مڈل کلاس قیادت سامنے آئی سب کو خوش کرنے کی کوشش کی لیکن اکبر بگٹی پر قابو نہ پا سکے پھر کارگل جنگ نے ان کا سیاسی نقشہ بدل دیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اس جنگ سے الگ رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے امریکہ جا کر جو معاہدہ کلنٹن کے ساتھ کیا وہ ان کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ واپسی پرپرویزمشرف نے ان کا تختہ پلٹ دیا۔ پرویز مشرف کو بے نظیر اور دوسری پارٹیوں کی مکمل حمایت حاصل ہوئی۔ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد سب سے زیادہ اقتدار میں رہنے والے تاریخ کے گورنر سندھ بن گئے لیکن افتخار محمد چودھری کو ہٹانے کے سلسلے میں ان کی حکومت ہل گئی۔ ان کے ساتھی ایک ایک کر کے ان کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔ پرویز مشرف کو ایمرجنسی لگانی پڑی لیکن وہ بھی کام نہ آئی۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو سے بھی معاہدہ کیا اور معافی کا اعلان کیا گیا۔ مقدمات واپس لئے گئے لیکن ساری تدبیریں الٹتی پڑتی چلی گئیں۔
اسی دوران پرویز مشرف نے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اکبر بگٹی کو للکارا اکبر بگٹی کو پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی اور وہیں ان کی شہادت ہوئی وہ دن ہے آج کا دن ہے پھر بلوچستان میں سکون نہ آیا۔ نواز شریف چائنہ سے سی پیک کا معاہدہ کیا یا چین نے اپنے مفاد میں نواز شریف کو گھرا اس کے وزیروں کو سبز باغ دکھائے۔ پروفیسر صاحب کو بہت طریقہ سے نوازا گیا۔ آج بھی وہ سی پیک کے گن گاتے ہیں احسن اقبال نے سی پیک میں جتنا مال کمایا۔ وہ نواز شریف کے حصے میں بھی نہ آیا لیکن بلوچستان جلتا رہا۔ قتل ہوتے رہے لوگوں کو فوج اغواء کرتی رہی اور مسنگ پرسن کی لسٹ بڑھتی رہی۔ ماہ رنگ بلوچ کو اسلام آباد میں دھرنا دینا پڑا لیکن عاصم منیر کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ آج اختر مینگل کو کہنا پڑا۔ پاکستان اور بلوچستان جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجارہا ہے۔ فوج تحریک انصاف کو کچلنے میں لگی ہوئی ہے ۔ عمران خان سے9 مئی ڈرامے کیلئے معافی منگوانے میں کوشش کررہی ہے۔ فوج نے عوام سے اتنی دوری بڑھائی ہے کہ اس کو ٹھیک ہونے میں برسوں لگیں گے۔ بھٹو کے قتل کی وجہ سے سندھ کے عوام فوج سے بہت دور تھے۔ اکبر بگٹی کے قتل اورمسنگ پرسن کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ سخت ناراض ہیں اور اکثریت جی ایل اے کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے پڑھی لکھی لڑکیاں خودکش حملے کررہی ہیں۔بلوچستان میں ایک ہفتہ میں ستر سے زیادہ لاشیں اٹھائی گئیں چاہے دفاعی اداروں کے لوگوں کی ہوں یا دہشت گردوں کی سارے ہی انسان تھے۔ سب کو مل جل کر بیٹھنا ہو گا۔ مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔اگر عاصم منیر نے اپنی فرعونیت نہیں چھوڑی تو اس کاانجام ملک کے لئے بہت برا ہو گا۔ ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ وہ نوشۂ دیوار پڑھ لے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں