جس طرح راگ ہو یا راگنی، دونوں زمان سے مزاحم نہیں ہوتے ، بلکہ اسے استوار اور رواں رکھتے ہیں ، اسی طرح بے وقت کی راگنی بھی ہمیشہ بے وقت اور بے وقعت نہیں ہوتی۔ڈاکٹر رخشندہ پروین کی تازہ تالیف بے وقت کی راگنی دراصل بروقت اور برمحل موضوعات پر مشتمل کالموں کا مجموعہ ہے۔اگر راگ کی چھ قسمیں بیان کی جاتی ہیں تو راگنی تنہا کیسے ہو سکتی ہے ۔اس کے چھ سے زیادہ رنگ اور ہزار سے زیادہ آہنگ ہوتے ہیں ۔یہ سنائی دیتی ہے ، سجھائی دیتی ہے اور پھر اگر اس پر توجہ دی جائے تو دید اور دانش کا حصہ بن جاتی ہے۔ پاکستان میں خاتون ہونا بڑی بہادری اور جرأت کا تقاضا کرتا ہے۔اور پھر سوچنے ، سمجھنے ، بولنے اور بتانے والی خاتون کے لیے تو بہادری اور جرأت سے آگے بڑھتے ہوئے بہت زیادہ نڈر اور حوصلہ مند ہونا بھی ضروری ہے۔ جس ڈاکٹر رخشندہ پروین کو میں جانتا ہوں ،وہ ایک بہادر ، قوت برداشت کی دولت سے مالامال، خطرناک حد تک ذہین اور اس آگہی کی کفیل ہے ،کہ جس کی کفالت کرتے کرتے اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔رخشندہ پروین کو زندگی ایک سہیلی بن کر نہیں ملی ، زندگی اس کے ساتھ ہائی اسکول کی بدمزاج کلاس مانیٹر کی طرح پیش آتی رہی ،لیکن مجال ہے کہ رخشندہ پروین کے ماتھے پر کبھی بل پڑا ہو۔اس کے عوض اس نے اپنے تحمل اور دانش پرور مسکراہٹ کو اپنا شعار بنائے رکھا ۔ قلم اور قرطاس سے محکم رشتہ رخشندہ پروین کی وراثت ہے ۔اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان بھی ان کے گھر کی بولی تھی ، تو ابلاغ کے طریقے اور متنوع سلیقے اس کے سامنے حاضر اور منتظر رہتے ہیں۔ رخشندہ پروین نے پاکستانی معاشرے کے ان تضادات کو ، جو اب اس ریاست کا کل اثاثہ ہیں، بڑے صبر و ضبط سے برداشت کیا۔بطور طالبہ وہ ہمیشہ ٹاپ میرٹ پر رہی، لیکن اس کے سامنے ناانصافیوں کو سماجی زندگی کے راستوں پر اتنی ترتیب سے سجایا اور بچھایا گیا تھا ،کہ کسی کا بچ کر چل پانا ممکن ہی نہ تھا۔اس نے اس سب کے باوجود ہر محاذ پر کامیابی حاصل کی۔ بنیادی طور پر وہ جنگ آزادی لڑنے والی جنگجو مجاہد ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ میری ان باتوں کو پسند نہیں کرے گی کہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ ایک لائق فائق میڈیکل ڈاکٹر ہے ، یا یہ کہ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے مارنینگ شوز کی ایک مقبول ترین میزبان رہی ہے ،وہ ایک بڑی اور واقعتاً متحرک و مصروف این جی او کی چیف ایگزیکٹو رہی ہے ، یا یہ کہ وہ حد درجہ بہادر اور نڈر ہونے کے باوجود ایک شرمیلی شاعرہ ہے۔ یا وہ اُردو انگریزی کی با اثر کالم نگار ہے ،ہاں ان سب حیثیتوں کے خلاصے کے طور پر اگر میں اسے ایک فاتح قرار دوں تو وہ معترض تو شاید ہو،لیکن مجھ سے خفا بہرحال نہیں ہو گی۔یہاں تک پہنچ کر میں اگر رخشندہ ہی سے پوچھ لوں کہ ؛ آپ کون ہیں؟ تو آواز آئے گی کہ میں زندگی کی طالبہ اور بے ثمر کاموں کی عادی ایک پاکستانی فیمینسٹ ہوں۔زندگی کے متحارب محاذوں پر داد شجاعت دینے کے ساتھ ساتھ رخشندہ پروین نے قلم سے اپنا رشتہ کمزور نہیں پڑنے دیا۔وہ سوچتی ہے ، لکھتی ہے اور کر گزرتی ہے۔ان سارے اعمال کے لیے جو ذہنی قوت اور نفسیاتی طاقت درکار ہوتی ہے ، رخشندہ پروین اس قوت اور طاقت کی بہت بڑی ذخیرہ اندوز ہے ۔اس کے ناقابل تسخیر اعتماد کی بنیاد یہی ہے۔ مجھے محبت سے ڈر لگتا ہے۔ سال 1996ء میں شائع ہونے والا رخشندہ پروین کی شاعری کا مجموعہ ہے ۔جبکہ بے وقت کی راگنی سال(2024ء) میں منظر عام پر آنے والی کتاب ہے ۔یہ کتاب پہلے اسکرین کے طلسمی آئینے پر شائع ہوئی ہے ، ہارڈ کاپی بھی یقیناً آئے گی ،اور آج کل کے نحیف و نزار اور حد درجہ لاغر انٹرنیٹ کی وجہ سے ضرور آنی چاہیے۔ان دو اُردو کتابوں کے درمیان ان گنت انگریزی کتب و مقالات اور ریسرچ رپورٹس کا ذخیرہ ہے۔ان میں “فیمینسٹ ٹی (انگلش) کا چھ زبانوں پرتگیز، اسپینش،جرمن، اطالوی، فرانسیسی اور روسی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ پاکستان: آئی سٹل لو یو، ایک ٹیکس بریک فار اکنامک فریڈم (طلاق یافتہ ماؤں، طلاق یافتہ معذور اور کبھی شادی نہ ہونے والی ،چالیس سال سے زیادہ عمر والی پاکستانی عورتوں کا کیس)، ہارٹ اینڈ ہیڈ ٹوگیدر۔ کامیاب سوشل انٹرپینیور نمایاں ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا؛ بے وقت کی راگنی ای بک کے طور شائع ہونے والا ڈاکٹر رخشندہ پروین کے منتخب کالموں کا تازہ مجموعہ ہے۔ چار ابواب میں منقسم اس مجموعے میں ہر باب کا عنوان اپنے مشمولات کی عمدہ کفالت کرتا نظر آرہا ہے۔ یہ دیکھیئے کہ پہلے باب کا عنوان بے درد، بے حس ہے تو دوسرا باب بے شرم ، بے ضمیر کے نام سے موسوم ہے ، تیسرا باب :بے خوف بے مثل تو چوتھے باب کا عنوان ہے بے شناخت ، بے گھر یہ محض ابواب کے عنوانات نہیں ہیں ، یہ رخشندہ پروین کے سفر حیات کے متنوع تجربات ، مشاہدات اور مطالعات کے حاصلات بھی ہیں ۔ رخشندہ پروین’’ بے وقت کی راگنی ‘‘کے تعارف میں لکھتی ہیں کہ؛ مجھے نہیں معلوم کہ بے ثمر آگہی روح کو زیادہ گھائل کرتی ہے یا ان کہی کہانی۔ مجھے نہیں معلوم کہ جن کو ہم اپنا سمجھ کر اپنا سب سے قیمتی سرمایہ یعنی اپنا اعتبار، دیتے ہیں، ان ہی کی جانب سے توہین جھیلنا زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے یا تقدیر کے وار کی زد میں رہنا؟ اسی لاعلمی کی بھول بھلیوں میں کسی طرح عقل اور جذبے کے عدم توازن کے ساتھ کئی کام کیے، جن میں سے ایک اُردو زبان میں لکھنا بھی شامل ہے۔ رخشندہ پروین نے اُردو زبان میں خوب لکھا ہے ۔ رخشندہ پروین اپنے کالم عورت دکھ ، دھوکہ اور پدرسری دنیا میں موضوع اور مسلئے کی جڑ کی طرف اشارہ کرتی ہوئی لکھتی ہے ؛پدر سری ایک سوچ ہے اور صرف مردوں کی میراث نہیں ہے ۔ پدر سری کو توڑنا اہم ہے، اگر ہم ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینا چاہتے ہیں ، جہاں چھوٹے بچوں سے لے کر بزرگ افراد تک نسلی میک اپ اور جنسی شناخت کی آزمائشوں سے بالا تر ہو کر تحفظ کے احساس کے ساتھ جی سکیں اور انصاف ، صحت، تعلیم ، ملازمت ، کاروبار اور ٹرانسپورٹ تک سب کی رسائی ہو ،ان سب کی ضروریات کے مطابق ، شائد یوٹوپیا میں ایسا ہو. اس دنیا میں کیا ہو رہا ہے ؟ ہم سب واقف ہیں۔۔۔۔ لیکن وہ اس سارے قضیئے کے انجام کا شعور بھی رکھتی ہے ۔۔۔پدرسری کو ختم کرنے کے لیے جس رفتار سے دنیا بھر میں کام ہو رہا تو صرف تین سو سال میں اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس کی ایک تشریح میرے نزدیک یہ ہے کہ میری اور آپ جیسی تمام عورتیں خودار ناشکر گزار اور شاید گنہگار اس وقت تک اس دنیا میں …. اس پدر سری دنیا میں….باوجود آنکھیں کھلی رکھنے کے، دکھ اور دھوکے سے نہیں بچ پائیں گی . الله ہمارا محافظ ہے۔ اسی طرح رخشندہ پروین اپنے کالم سوالات جو کہیں کھو گئے میں ایک دلچسپ حقیقت کی تصویر کشی کرتی ہیں؛ ہم سب کے پاس کوئی نہ کوئی تاویل یا تفسیر ضرور ہوتی ہے۔ دل کے بہلانے کو کوئی نہ کوئی وضاحت دینی ضروری بھی ہوتی ہے۔ اس سارے قصے میں زندگی بن بتائے اپنا تاوان وصول کرتی رہتی ہے۔ بہت سوں کو بڑھاپے میں یا ریٹائرمنٹ کے بعد یا بے پناہ جبر کی حالت میں سچ یعنی پورا سچ جو کڑوا کسیلا بلکہ زہریلا بھی ہوتا ہے بولنے بانٹنے کا یا سنانے کا خیال آتا ہے۔ اپنی زندگی ، اپنی پسند ، اپنی تقدیر اپنا حساب ، اپنا نصیب میں اور آپ کون ہیں جو کسی کو پرکھیں ، چیریں یا ٹٹولیں ؟ لیکن اگر کوئی صحافت یا انسانی حقوق کی قیادت یا لوگوں کی خدمات کے لیے سیاست کا چغہ پہن کر غریب اور مڈل کلاس لوگوں کو بے وقوف بناتا رہے اور آخر الذکر مسلسل دلفریب دھوکے کھانے کے لیے تیار اور بیتاب نظر آرہے ہوں تو ایسے ملک کا کیا بنے گا؟ رخشندہ پروین کے اٹھائے سوالوں کا جواب کون دے سکتا ہے ،اُردو میں ان سوالات کو سننے اور سمجھنے میں کوئی دقت تو نہیں ہونی چاہیے ،ہاں دیر ہو رہی ہے تو اس کی وجوہ کچھ اور ہوں گی۔اُردو رخشندہ پروین کی طاقت بھی ہے اور بے دریغ ابلاغ کی صلاحیت بھی۔وہ جس طرح سوچتی ہے ،اس کا بیشتر حصہ لکھ لیتی ہے، اس کے جملوں کی ساخت اس کا ارادی فعل ہے۔اس کا معنیاتی نظام پیچ در پیچ ہے۔وہ جو کہنا چاہتی ہے وہ کہہ گزرتی ہے۔ اگر رخشندہ پروین کی بے وقت کی راگنی اس قدر بروقت اور بر محل ہے ،تو اندازہ کریں جب وہ اپنے فکر و خیال کی انتہائی اور انترا رقم کرے گی تو فضائے علم میں کیسے کیسے ارتعاش پیدا ہو سکتے ہیں۔
0