بنگلہ دیش کی رفتہ رفتہ رخ بدلتی اور تازہ تناظرات سامنے لاتی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہمارے “دستاویزی ثبوتوں” کے رسیا دانشور اور تجزیہ ساز ابھی اپنے تخیئل کو زحمت نہ دیں۔ وہاں کی طلبہ تحریک کے ساتھ کون کون اور کہاں کہاں سے جڑا ہوا تھا، یہ دیکھنا اور سمجھنا ابھی باقی ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ ہم خالص پاکستانی ذہن سے کہیں زیادہ باشعور بنگالیوں کو اپنی مثالوں سے سمجھ نہیں سکتے۔ان کے اور ہمارے اجتماعی تجربات ،مشاہدات اور عادات بالکل جدا اور مختلف ہیں۔ ہمارے نہ رجعت پسند خالص لوگ ہیں ، نہ بائیں بازو کے اشتراکی اور کاغذی انقلابی، دونوں کی جڑیں اپنے اپنے طریقے اور سلیقے سے ایک ہی چشمے سے سیراب ہوتی رہتی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں بھی ایسے کچھ نمونے موجود و متحرک ہوں ،لیکن مجموعی طور پر بنگلہ سیاسی شعور اس پورے خطے میں سب سے زیادہ مضبوط و مستحکم خیال کیا جاتا ہے۔خطے کے ایک اہم اور ترقی کی طرف گامزن ملک میں حد سے بڑھ چکی بے چینی اور اس کے نتیجے میں طلبہ کی اتنی بڑی ، منظم اور متشدد تحریک ،کہ جس میں تین سو سے اوپر جانوں کی قربانی بھی دیکھنے میں آئی اور جس کے نتیجے میں بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کو ہنگامی طور پر ہیلی کاپٹر پر بٹھا کر بھارت کی طرف روانہ کر دیا گیا، یقینی طور پر نہایت درجہ سنجیدہ مطالعے اور تجزیے کا تقاضا کرتی ہے ۔سیاسیات برصغیر میں موروثیت کا رواج یا چلن بنیادی جمہوری رویوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔پھر بڑے اور مقبول لیڈر کے بعد اسی کا بیٹا یا بیٹی سیاسی وراثت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ اس مقبول سیاسی جماعت کے پرستار اپنے محبوب لیڈر کی اولاد کے سوا کسی پر متفق ہی نہیں ہو پاتے ، یوں بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان بھی اس چلن کے اثرات سے آشنا اور شکار رہے ہیں۔حسینہ واجد کا ایک طویل مدت تک اقتدار میں رہنا اور 1971ء کی موروثی تلخیوں کو بنیاد بنا کر پرانی نفرت کو بیچتے رہنا کسی طور سود مند ثابت نہیں ہوا۔ اکہتر کے بعد جوان ہونے والی نسلوں کو ماضی کی تلخیاں متاثر نہیں کرتیں۔وہ نئے زمانے اور نئے ماحول کی نسل ہے۔وہ کسی طور اور کسی قیمت پر بھی حسینہ واجد کی شخصی ڈکٹیٹر شپ کو قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی تھی۔ بنگلہ دیش کی مثال سے ایک سبق یہ بھی حاصل ہو رہا ہے کہ ہمیں کسی بھی مقبول وزیراعظم کو دو بار سے زیادہ عرصہ وزیر اعظم رہنے پر پابندی لگا دینی چاہیئے۔پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ؛ وزیر اعظم بننے کے لیے بالائی عمر کی بھی حد مقرر کی جانی ضروری ہے۔ایک چڑ چڑا بوڑھا یا ایک چڑچڑی اور لڑاکا بڑھیا ماحول کو بہت زیادہ خراب کر سکتے ہیں۔ شاید وزیر اعظم بننے کے لیے عمر کی بالائی حد ستر سال سے متجاوز نہیں ہونی چاہیئے۔ صورت حال کی شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسینہ واجد نے حد سے زیادہ آمرانہ رویے اپنا رکھے تھے، حتی کہ اسی زعم میں وہ کوٹہ مخالف طلبہ تحریک کی گہرائی ، تنظیم اور تسلسل کو سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہیں۔انہوں نے طلبہ پر سیدھا فائر کرنے تک کی اجازت دے ڈالی۔اس سے پولیس کے خلاف بھی شدید ردعمل آیا ۔پاکستانیوں کے لیے بوجوہ بنگلہ دیش کی آرمی اور خاص طور پر سپہ سالار کے طرز فکر و عمل کا مطالعہ دلچسپی کے ان گنت سامان اپنے اندر رکھتا ہے۔ بنگلہ دیش کے سپہ سالار حسینہ واجد کے رشتے دار بھی ہیں۔اور ہیں بھی ان کے مرحوم شوہر کی طرف سے۔ بقول ستم ظریف یہ تو پھر سیدھا سیدھا “شریکے” کا معاملہ ہوا۔میں نے اس نادان کو سمجھایا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو دیہی گھریلو نفسیات سے اوپر اٹھ کر سمجھنے کی کوشش کیا کرے۔سیاست میں سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ فوری اور پھر اس کے بعد دیرپا مفاد کا ہوتا ہے ،اور بس۔وہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پولیس والے کی نہ دوستی اچھی ہوتی ہے اور نہ دشمنی۔بالکل اسی طرح اب یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آرمی جنرلز ،خاص طور پر آرمی چیف کی بھی نہ دوستی اچھی ہوتی ، نہ رشتے داری ,اور اگر یہ رشتہ داری کسی خاتون وزیراعظم کے شوہر کی طرف سے ہو ،تو پھر بالکل محتاط اور بچ بچا کر رہنا چاہیئے۔حسینہ واجد نے اپنے سیاسی مخالفین خصوصاً مذہبی پس منظر کی سیاسی جماعتوں کو ان کے ماضی میں کردار کے حوالےسے خوب مطعون کئے رکھا ۔پابندیاں لگائیں، یہاں تک کہ بعضوں کو تختہ دار تک پہنچایا۔اس کے باوجود ان کی حس انتقام ٹھنڈی نہ ہو سکی ۔ماضی کی تلخیوں کی قید میں رہنا دنیا کی سب سے اذیت ناک سزا ہوا کرتی ہے۔حسینہ واجد غالباً اسی تلخ ماضی میں رہنےکی عمر قید کی سزا بھگت رہی تھیں ۔اگر وہ 1971 ء کی تلخیوں سے اوپر اٹھ کر اکیسویں صدی میں جوان ہونے والی نسل کی سوچ اور مفاد کو سمجھنے کی کوشش کر لیتیں ،تو شاید انہی بڑی بے آبرو ہو کر اقتدار کے کوچے سے نہ نکلنا پڑتا۔ حسینہ واجد کی بھارت نوازی اور ہند پرستی بھی ان کے زوال کی وجوہات میں شامل ہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہیں کہ 1971ء میں جو بنگالی نسل بھارتی مداخلت اور سرپرستی کی احسان مند تھی ،وہ کب کی گزر چکی، بھارت کی روایتی ممنونیت سے عام نوجوان بے زار تھے۔وہ بھارت سے دشمنی تو نہیں چاہتے تھے ، مگر حد سے زیادہ رعب بنگالی نفسیات کے لیے قابل برداشت نہیں تھا،حسینہ شیخ اس نکتے کو سمجھنے میں بھی ناکام رہیں۔ ستم ظریف کے خالص پاکستانی دماغ کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں مداریوں نے نسخہ نمبر 9 استعمال کیا ہے ، اور اس میں بھی ہمارے ہی “جگے” کا ہاتھ ہے۔ نوجوانوں کی سہولت کے لیے بتادوں کہ “جگا” ایک روایتی ڈاکو کا کردار ہے۔جو بعد ازاں گلی محلے کے اکڑ باز، نوسر باز اور نمائشی و فرمائشی بدمعاشوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔محلے یا شہر میں ہونے والی ہر واردات یا جرم میں اپنی شمولیت کو فخر سے قبول کرنے اور اپنے رعب اور اپنی خود تشکیل کردہ عظمت کے اشتہار کو دوام دینے کے لیے وہ نمائشی اور فرمائشی حرکتوں سے کبھی باز نہیں آتا ۔ستم ظریف اسی نفسیات کے زیر اثر یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات میں “اپنے والے جگے” کا کوئی کردار نہ ہو۔اب جبکہ معاملہ فوری انتخابات کی بجائے عبوری حکومت تک پہنچ گیا ہے، طلبہ تحریک کے مطالبے پر ایک نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور بینکار محمد یونس کو عبوری حکومت کا مدارالمہام تجویز کر دیا گیا ہے ۔ تو پھر لازم ہے کہ؛اب کچھ مدت تک “خلق خدا” راج نہیں کرے گی۔ اسی سال سے متجاوز بزرگ محمد یونس کا ایک حوالہ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کے معتوب کا بھی ہے ۔مائیکرو فنانس کا ماہر ہونے کے علاوہ محمد یونس ماضی میں سیاسی جماعت بنانے کے آرزو مند بھی رہے تھے۔یوں اس نئے انتظام میں ان کا کردار غالب قوتوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہونے کے قوی امکانات رکھتا ہے۔لیکن آنے والا وقت ان مناظر کو مزید واضح اور روشن کر دے گا۔بنگلہ دیش کی صورت حال نے چند اہم سوالوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک میں شدید بحران کی صورت میں، وزیر اعظم سے “آرمی چیف” ہی استعفٰی کیوں لیتا ہے؟ وزیراعظم کے مستعفی ہو جانے کے بعد “آرمی چیف ” ہی کیوں خطاب کر کے آئیندہ لائحہ عمل کا اعلان کرتا ہے؟ دراصل وہ وفاق کا محض ایک اہلکار ہی تو ہوتا ہے ، جسے ٹیکس گزاروں کے پیسے سے بھاری تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں۔کیا نیشنل اسمبلی کا اسپیکر کسی وزیراعظم کے استعفے کے نتیجے میں عبوری حکومت یا نئے الیکشنز کا اعلان نہیں کر سکتا ؟۔ اگر بنگلہ دیش جیسے جمہوری ملک میں بھی ابھی تک آرمی چیف ہی طاقت کا مرکز ہے تو پھر اس سارے ہنگامے ، مظاہروں، تصادم ،سب میں خفیہ ہاتھوں کی مداخلت و معاونت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔خاص طور پر بنگلہ دیش کی آرمی کے اندر وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی خبریں بھی آرہی ہیں ۔گویا اب آرمی چیف شطرنج کی ایک بازی جیت لینے کے بعد دوبارہ سے گوٹیاں ترتیب دے رہے ہیں۔چونکہ وزیر اعظم کے استعفٰی کے بعد اسمبلی اپنا نیا لیڈر آف دی ہاوس منتخب کر سکتی تھی ،اس لیے طلبہ تحریک کے لائق فائق رہنماوں نے بنگلہ دیش کے صدر کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ فلاں وقت تک اسمبلی تحلیل کر دی جائے ،اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر آئیندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔اعلان کیا ہونا تھا ،صدر نے اسمبلی تحلیل کردی۔اب عبوری حکومت، اس میں فوج کا حصہ، اور انتخابات کا اس وقت تک انتظار کیا جائے گا جب تک جیل سے رہا ہونے والی خالدہ ضیاء دوبارہ سے اپنی سیاسی جماعت کو متحرک کر کے الیکشن کی تیاری نہ کر لیں۔تب تک عبوری حکومت بنگلہ دیش کے نظم ریاست کی ذمہ دار ہو گی۔بنگلہ دیش کی “کوٹہ مخالف طلبہ تحریک” کی بظاہر کامیابی کے بعد نظر آنے والے مناظر کی تہہ میں ایک معتوب مذہبی سیاسی جماعت اور ملٹری کی مشترکہ ساز باز بھی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ عبوری حکومت جس میں آرمی کا نمایاں حصہ ہوگا اور یہ سب مل کر الیکشنز سے گریز کی راہ اپنائیں گے۔یہ سارے کھیل تماشے پاکستانیوں کے لیے اپنے اندر کوئی نئی بات یا تازہ پہلو نہیں رکھتے۔
0