ملبے کی ڈھیر!
جوشِ وحشت میں ہوئے ہیں اندھے
ہوش کو اپنے صدا کیا دیں گے
عقل پہ ان کی پڑے ہیں پتھر
ڈھیر ملبے کے بھلا کیادیں گے!
موجودہ حکومت مہنگی بجلی کے معاملے میں بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے اور قرائن کہہ رہے ہیں کہ خدانخواستہ آزاد کشمیر کی طرح مہنگی بجلی سے نجات پانے کے لئے عوام سڑکوں پرنکل آئیں گے۔ گزشتہ دنوں مہنگی بجلی سے تنگ آئے ہوئے لوگ آزاد کشمیر میں سڑکوں پر نکل آئے زبردست احتجاج کیا اور حکومت نے افراتفری اور کشت و خون سے بچنے کے لئے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے اب آزاد کشمیر کے باسیوں کو بجلی بہت کم اور مناسب قیمت پر دستیاب ہو گی۔ حکومت نے طے شدہ معاہدے کے مطابق بجلی ٹیکس فری کے بل جاری کر دئیے جس کی رو سے 100یونٹ تک کا بل فی یونٹ 3 روپے 200یونٹ تک کا بل فی یونٹ 5 روپے اور 300یونٹس سے زیادہ کا بل فی یونٹ 6 روپے کا ہو گا اس کے علاوہ بلوں پر بینک کے 8 روپے سر چارج لگے گا۔ عوام کے لئے یہ نرخ بہت مناسب ہیں۔ حکومت کے اس نئے ٹیرف پر آزاد کشمیر کے عوام خوشیاں منارہے ہیں اس ذیل میں یہ بات قابل غور ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت عوام کو کس طرح سستی بجلی دے پائی۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لئے بھی آزاد کشمیر کے اس فیصلے کو مثال بننا چاہیے اور کسی نہ کسی طرح عوام کو آسانی فراہم کرنی چاہیے۔ فی الوقت پورا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے۔ صبح، شام، رات، بجلی تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے رخ دکھاتی ہے پھر ایک طویل مدت کے لئے غائب ہو جاتی ہے۔ غریب عوام بلاشبہ اس گرم موسم میں ’’عذاب‘‘ میں مبتلا ہیں۔ بجلی بنانے والی کمپنیز عوام کا خون چوسنے پر آمادہ ہیں۔ روزانہ محترم شہباز شریف نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم نے عوام کو اندھیروں سے نکالا اور پاکستان کو روشن کیا۔ یقینا ایسا ہوا لیکن جس قیمت پر عوام کو روشنی دی گئی وہ زیر بحث ہے۔ بجلی بنانے والے اداروں سے بہت مضحکہ خیز قسم کے معاہدے کئے گئے۔ مثلاً پاکستان بجلی اگر ضرورت کے مطابق بھی بنائے تو اسے کمپنی کے مقرر کردہ پیسے دینے ہونگے۔ ادھر بجلی کمپنیز کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ذرا سی بوندیں پڑیں اور بجلی غائب ہو گئی۔ اگر تھوڑی بہت بجلی بن بھی رہی ہے تو اسے عوام تک پہنچانے کے ذرائع بہت محدود ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ بجلی کی مد میں حکومت کو بجلی کمپنیز کو جتنی ادائیگی کرنی پڑتی ہے وہ سب عوام کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ نتیجتاً مختلف ٹیکسز لگا کر 52 روپے فی یونٹ تک وصول کرلئے جاتے ہیں۔ بجلی کے اداروں کو برملا کہنا ہے کہ جہاں بجلی زیادہ چوری ہوتی ہے وہاں لوڈشیڈنگ کے اوقات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے لیکن اس وقت تو ہر علاقے، ہر شہر، ہر سڑک، ہر گلی، بجلی کمپنیز کے رحم وکرم پر ہے۔ لوگ عموماً وقت پر بل ادا کرتے ہیں پھر بھی وہ بجلی سے محروم ہیں۔ اس وقت بجلی کے جو بلز آرہے ہیں وہ غیر توکیا متوسط طبقہ بھی آسانی سے ادا نہیں کر سکتا۔ لوگ جمع پونجی ختم کرنے کے بعد قرض ادھار دے کر بجلی کا بل ادا کرتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بیٹیوں کے جہیز کے لئے مختص رقم بھی بجلی کمپنی کو چلی جاتی ہے۔ حکومت سندھ تو یہ روح فرسا خیال بھی ظاہر کر چکی ہے کہ ہائوس ٹیکس بھی بجلی کے بل میں شامل کر دیا جائے تاکہ غریب آدمی بل بھرنے کے قابل ہی نہ رہے۔پورے ذرائع ابلاغ چیخ رہے ہیں۔حکومت کے بجلی کمپنیز کے معاہدوں پر تبصرے کررہے ہیں اور ان کمپنیز نے لوٹ مار کا جو بازار گرم کررکھا ہے۔ اس کے خلاف مستقل لکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ہر آدمی حکومت سے توقع کررہا ہے کہ حکومت اس لوٹ کھسوٹ پر بجلی کمپنیز سے بات کرے اور انہیں قائل کرے کہ عوام کو سہولت دینے کے لئے اپنے نرخوں پر غور کر کے انہیں کم کرے۔ ریکوڈک کمپنی سے عمران خان نے مذاکرات کر کے اربوں روپے بچا لئے تھے تو موجودہ حکومت یہ کام کیوں نہیں کر سکتی۔ حکومت کے ایک مقتدر رکن محترم طلال صاحب کا فرمانا ہے کہ اگر ہم کسی کمپنی سے نرخ کم کرنے کے لئے کہیں گے تو وہ بجلی بنانا بند کر دے گی اور ملک ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے گا۔ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے ہم یقینا دوسرے ممالک سے بجلی، گیس اور تیل بہت کم قیمتوں پر خرید سکتے ہیں لیکن موجودہ بجلی بنانے والی کمپنیز سے مسلم لیگ ن نے جو معاہدے کئے ہیں وہ حکومت کی مجبوری بنے ہوئے ہیں۔ شنید ہے کہ ان کمپنیز میں بہت سے ’’اپنے‘‘ بھی شامل ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حکومت اس مسئلے کو چھونا ہی نہیں چاہتی۔ موجودہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 200یونٹ تک خرچ کرنے والے کو رعایتی نرخ پر بجلی دی جائے گی لیکن یہ ’’گڑ بڑ‘‘ بھی پکڑی گئی کہ مزید قیمت وصول کرنے کے لئے 200یونٹ کو ’’بیک جنبش کمپیوٹر‘‘ بڑھا کر لوگوں سے رقم وصول کر لی گئی جس پر حکومت نے بھی خفگی کا اعلان کیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر موجودہ حکومت اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھی تو اس کا ایک بڑا سبب یہ مہنگی بجلی ہی ہو گی۔ خدارا ارباب اختیار حالات پر سنجیدگی سے غور کرسکیں، اس سے قبل کے چنگاری آگ بن جائے۔