0

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی ۔۔۔۔!

جب بر صغیر ہند کی تقسیم ہونے والی تھی اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح کی بیدار کرنے والی مسلم لیگی قیادت ہندوستان کے مسلمانوں کی بیداری کیلئے یہ شعر ایک نعرہ کے طور پہ استعمال کیا کرتی تھی:
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!
قائد کی دیانت اور راست گوئی میں تو کسی کو شبہ ہی نہیں تھا لیکن اس دورکی مسلم لیگی قیادت بھی ایماندار قائدین اور باصلاحیت افراد پر مشتمل تھی لہٰذا ہند کے مسلمانوں کی اکثریت کتنے ہی محاذوں سے منفی اور مفسدانہ مخالفت اور پروپیگنڈا کے باوجود بیدار ہوگئی اور پاکستان کے حصول کیلئے متحد ہوکے جد وجہد کی، ایسی جد و جہد جس کی منزل پاکستان تھی اور خداوند تعالی نے اس دیانت اور خلوص کا صلہ ایک آزاد مملکت، پاکستان کی صورت میں عطا کیا!
لیکن پاکستان بننے کے بعد یوں لگا، خاص طور پہ نئے ملک کے مغربی نصف میں، کہ وہ بیداری محض وقتی تھی اور آزادی کی لہر کے ساتھ وہ فوری طور پہ رخصت بھی ہوگئی۔ دیانت، خلوص اور بیداری کے خلاء کو پُرکرنے والا وہ جاگیرداری کلچر تھا جس میں دیانت تھی نہ بیداری اسلئے کہ اس نظام کی جڑیں تو یزیدیت اور فرعونیت کی اس زمین میں تھیں جس میں انسان کے احترام کیلئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ جگہ تھی تو اس فسطائیت زدہ ذہنیت کیلئے جس میں ایک فردِ واحد کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ حکم کا درجہ رکھتا ہے اور حکم کی تعمیل نہ کرنے والے کیلئے زندہ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
بابائے قوم خوش نصیب تھے کہ اللہ نے انہیں جلد ہی طبعی موت کے ذریعہ اپنے پاس بلالیا اور ان کے جانے کے بعد جاگیرداری نظام نے اپنے راستے کے کانٹے، قائد کے دستِ راست قائد ملت لیاقت علی خان کو سازش کے ذریعہ قتل کروادیا اور اس کے بعد ان کیلئے میدان صاف تھا، ہموار تھا، کہ وہ پاکستان پر پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑ دیں اور انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر یہی کیا!
جاگیرداروں اور وڈیروں کو پاکستان اپنے شکنجہ میں کسنے کیلئے ایک سہارے کی ضرورت تھی جو انہیں اس فوج کے جرنیلوں کے تعاون سے میسر آگیا جو پاکستان بننے سے ایک لمحہ پہلے تھے ہر طرح سے فرنگی راج کی حلیف بھی اور باجگذار بھی۔
پاکستان کو شہید ملت کی شہادت کے بعد ایک سیکیوریٹی اسٹیٹ، یعنی ایک ایسی ریاست جسے مفروضہ بیرونی خطرہ لاحق تھا، میں بدل دیا گیا۔ جرنیل اور جاگیرداری کے اس گٹھ جوڑ کو بیرونی سرپرستی امریکہ کی بھرپور حمایت اور امداد کی صورت میں مل گئی۔
آج، ستر برس بعد بھی، ملک کی یہ معروضہ حقیقت جوں کی توں ہے۔ ستر برس سے، سات دہائیوں سے، جاگیردار-جرنیل گٹھ جوڑ پاکستان کو اپنے باپ دادا کی میراث اور جاگیر سمجھ کر اس پر قابض ہے اسکے باوجود کہ اس ابلیسی گٹھ جوڑ نے آزادی کے محض چوبیس برس بعد ہی ملک کو دو لخت کردیا تھا اور دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی پیش رفت اس صورت میں وقوع پذیر ہوئی کہ ملک کی اکثریتی آبادی والے مشرقی پاکستان نے پاکستان سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا اسلئے کہ جاگیردار-جرنیل گٹھ جوڑ نے اس کیلئے کوئی اور راستہ چھوڑا ہی نہیں تھا!
آج، بنگلہ دیش بنے ہوئے تریپن برس ہوگئے لیکن پاکستان میں من و عن وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے جس کا انجام ملک کے دولخت ہونے کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا تھا۔ بنگلہ دیش اقتصادی طور پہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے، ذلت اور رسوائی کے کھڈ کی کگر پر جہاں ایک غلط قدم اسے اس نشیب میں ڈھکیل دے گا جہاں سے نکلنا شاید پھر ممکن نہ ہو۔ لیکن جاگیردار اور ان کے ساتھی جرنیل یوں لگتا ہے کہ نیند میں چل رہے ہوں۔ انہیں کوئی ہوش نہیں ہے کہ ان کا یہ عمل ملک کو کس قعرِ مذلت میں دھکیلنے کے انتہائی قریب لے آیا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ تعلیم نہ جاگیرداروں میں ہے اور جرنیلوں سے تو اس کی توقع رکھنا ہی حماقت ہے کہ وہ تاریخ کو پڑھتے ہونگے۔ پڑھتے ہوتے تو ان حالات کو دہرانے سے پہلے یہ ضروری آگہی انہیں مل جاتی کہ تاریخ جب اپنے آپ کو پہلی بار دہراتی ہے تو وہ ایک مذاق ہوتا ہے لیکن دوسری بار دہرانے کی شکل میں وہ مذاق المیہ بن جاتا ہے۔
ارسطو سکندرِ اعظم کا استاد تھا اور استاد بھی ایسا جس نے اپنے شاگرد میں چھپے ہوئے ہنر کو دریافت کرنے کے بعد اسے صیقل بھی کیا اور ایسا صیقل کیا کہ یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست، مقدونیہ، کا شہزادہ تاریخ میں آج بھی دنیا کے مشہور ترین فاتحین میں شمار کیا جاتا ہے۔
ارسطو نے اپنے ہونہار شاگرد کو پڑھایا تھا کہ داستانیں صرف چسکہ یا مزا لینے کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ وہ سبق آموز ہوتی ہیں اور وہی فرد یا قوم کامیاب و کامران ہوتی ہے جو تاریخ کی داستانوں میں اپنے لئے سبق تلاش کرے اور آگے بڑھنے کی راہ کا تعین کرے۔
سکندرِ اعظم نے اپنے استاد کی اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو عمر تو بہت تھوڑی ملی، صرف بتیس برس کی زندگی پائی سکندر نے لیکن اس دنیا سے جاتے وقت وہ تاریخ میں اپنے لئے ابدی نام بنا چکا تھا!
عمران خان سے پاکستان پر قابض چھٹ بھیے جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں کی دشمنی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ان میں سرِ فہرست دو ہیں:
ایک تو یہ عمران پاکستان کو کرپشن کی وبا سے پاک و صاف کرنا چاہ رہا تھا اور کرپشن کے بغیر نہ عاصم منیر کی یزیدیت برقرار رہ سکتی ہے نہ زرداری اور نام کے شریفوں کی ملک پر عملداری۔
عاصم منیر کو عمران سے مخاصمت یوں ہے کہ یہ بے ایمان جرنیل جب سرگودھا یا گوجرانوالہ کا کور کمانڈر تھا تو عمران نے اس کی رشوت خوری پکڑ لی تھی اور ملت فروش باجوہ سے کہا تھا کہ اسے فوج سے فارغ کردیا جائے۔ اس کے بعد اس نے اپنی بقا کیلئے اپنے ہی جیسے گلے گلے تک کرپشن میں دھنسے نام کے شریفوں سے گٹھ جوڑ کیا تھا جس کے بعد لندن معاہدہ کے تحت یہ ریٹائر ہونے کے باوجود پاکستانی فوج کا سربراہ بن گیا۔
بد دیانتی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ یہ سید نہ ہونے کے باوجود اپنے نام کے ساتھ سید کا لاحقہ لگاتا ہے۔ شریکِ حیات اگر سیدانی ہو تو غیر سید شوہر سید نہیں ہوجاتا لیکن جہاں آوے کا آوا ہی ٹیڑھا ہو وہاں ہر طرح کی جعلسازی کا دور دورہ ہوتا ہے اور بناسپتی سید بھی بڑے فخر و تمکنت سے اپنے آپ کو سید کہلوانے لگتے ہیں۔
لیکن عمران سے ان نیم خواندہ جرنیلوں اور ان کے اتنے ہی کم علم سیاسی گماشتوں کی دشمنی کی ایک اور، دوسری بڑی، وجہ یہ ہے کہ عمران پاکستانیوں میں علم کی روشنی پھیلانا چاہتا ہے۔ اسی طرز کی بیداری اپنی قیادت سے پیدا کرنا چاہتا ہے جو قائدِ اعظم نے اپنی ولولہ انگیز قیادت سے ہند کے مسلمانوں میں پھونکی تھی۔
اور کونسا پاکستانی سیاسی لیڈر ہے، عمران کے سوا، جس نے انگلستان کی بریڈفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا اعزاز حاصل کیا ہو؟
عمران کے علاوہ اور کونسا پاکستانی سیاسی قائد ہے جس نے گومل یونیورسٹی جیسا تعلیمی ادارہ نجی شعبہ میں محض اپنی صلاحیت سے بنایا ہو؟
عمران کے سوا اور کونسا پاکستانی لیڈر ہے جس نے ملک میں ایک نہیں تین کینسر ہسپتال قائم کئے ہوں؟
کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کیلئے پاکستان میں تو اس نوعیت کا کوئی ہسپتال نہیں تھا جس کا بیڑہ عمران نے اپنی والدہ کی یاد میں، ان کے نام سے شوکت خانم ہسپتال بنانے کا اٹھا یا تھا اس وقت جب وہ پاکستان کا ایسا ہیرو تھا جس نے دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا تھا 1992ء میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر؟ عمران کی قیادت نے وہ کارنامہ سر انجام دیا تھا جس کے بعد کوئی کپتان وہ نہیں کرسکا اور اب تو پاکستانی کرکٹ کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ امریکہ جیسے کرکٹ میں نوآموز ملک کی ٹیم سے بھی ہماری ٹیم جیت نہیں سکتی۔
پاکستان پر یہ نحوست یزیدی جرنیلوں کی ہے یا ان کے سیاسی گماشتوں کی جو ملک کا ہر قدم تباہی اور بربادی کی سمت جارہا ہے۔
ارسطو نے اپنے شاگرد سکندر کو جو پڑھایا تھا کہ تاریخ اور اس کی داستانیں محض لطف لینے کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ ان سے سبق بھی لینا چاہئے اور ان غلطیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہئے جو پہلے ہوچکی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ تو یہ ہے کہ اس کا بانی وہ وکیل تھا جو قانون کی حکمرانی پر ایمان رکھتا تھا۔
پاکستان کی اعلی عدلیہ میں بیداری کی لہر آئی ہے اس کے باوجود کہ فائز عیسی کی شکل میں ایک عدل دشمن اور ذہنی انتشار کا مارا ایک مرد بیمار پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کا سربراہ ہے۔ لیکن جرنیل-جاگیردار گٹھ جوڑ اس بیداری سے بہت پریشان ہے، بہت خوفزدہ ہے کہ اس بیداری میں اسے اپنی موت دکھائی دے رہی ہے۔
سو جرنیلوں کے ہاتھ میں جن سیاسی کٹھ پتلیوں کی ڈور ہے وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف کہ پارلیمان میں مخصوص نشستوں پر حق، قانونی طور پر عمران کی تحریکِ انصاف کا ہے ہرزہ سرائی کر رہی ہیں۔
عاصم منیر کی عنایت سے پنجاب کی وزیر اعلی بننے والی مریم نواز، جو مریم نام کی تقدیس پر کلنک کا ٹیکہ ہے، اب عدالت عالیہ پر دشنام طرازی میں پیش پیش ہے۔ بھول گئی ہے وہ آج جس عدالت کے خلاف وہ قانون اور آئین شکنی کا بہتان تراش رہی ہے وہی عدالت ہے جس نے عمران خان کا تختہ الٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
مریم نواز اپنی ہرزہ سرائی میں بھول بیٹھی ہے کہ اسی عدالتِ عالیہ کی عنایات سب سے زیادہ شریف خاندان پر ہوئی ہیں۔ یہی عدالت تھی جس نے نواز شریف کا وہ بہانہ کہ وہ بیماری سے مر رہا تھا سچ تسلیم کرکے اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔
یہی عدالت تھی جس نے شہباز شریف کے خلاف کرپشن اور لوٹ مار کے تمام ثبوتوں کے باوجود تمام مقدمات میں اسے بیگناہ قرار دیا تھا اور اسے وزیر اعظم کے منصب، جس کا یہ چھٹ بھیا نہ کل حقدار تھا نہ آج ہے، عطا کیا تھا۔
پاکستان کی تباہی تو اس دن شروع ہوگئی تھی جس دن بھٹو اور شریف خاندان جیسے ننگِ ملت پاکستان کی سیاسی بساط پر ان ہی جیسے کرپٹ اور عیاش جرنیلوں کی سرپرستی میں مسلط کئے گئے تھے، مہروں کی طرح بٹھائے گئے تھے۔
آج بھی یہ سیاسی گماشتے یا تو اپنے مفاد کیلئے سرگرداں ہیں یا اپنے سرپرست جرنیلوں کے مفادات کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی عوام سے تو نہ ان چھٹ بھیوں کو کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی عاصم منیر جیسے یزید کو!
عمران نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے، اپنے وکیل کی وساطت سے انگلستان کے کے معروف اخبار سنڈے ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا ہے جو اخبار کی اتوار، 21 جولائی کی اشاعت میں شامل ہے۔ اس انٹرویو میں عمران خان نے اس کال کوٹھڑی کا ذکر کیا ہے جہاں اسے عادی مجرموں کی طرح رکھا گیا ہے۔ سات فٹ اور آٹھ فٹ کا ایک تنگ و تاریک کمرہ ہے جہاں پاکستان کا مقبول ترین سیاسی لیڈر قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہا ہے ، محض اسلئے کہ پاکستان پر جرنیلوں کا وہ یزیدی ٹولہ قابض ہے جس کا سربراہ نام نہاد حافظ ہے لیکن اس کی قرآن کی تعلیمات سے شناسائی اتنی بھی نہیں ہے کہ وہ کائنات کے بنانے والے کا یہ فرمان بھی یاد رکھ سکتا کہ کسی کی دشمنی میں اس حد تک نہ جاؤ کہ انصاف دشمنی پر اتر آؤ!
عمران خان صعوبتیں ہنسی خوشی جھیل رہا ہے اسلئے کہ اس کا اپنے اللہ پر ایمان سلامت ہے، قوی ہے اسی لئے تو سنڈے ٹائمز سے اپنے انٹرویو میں اس نے اس امید کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کی قیادت ایک بار پھر اس کے ایمان دار اور دیانتدار ہاتھوں میں ہوگی، انشاء اللہ!
جرنیلوں کا یزیدی ٹولہ اور اس کے چھٹ بھیئےسیاسی گماشتے اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ان کا اقتدار اور پاکستانی قوم پر ان کا غاصبانہ تسلط ہمیشہ برقرار رہے گا۔ ہر یزید کیلئے ایک حسین پیدا ہوتا ہے اور پاکستانی یزید کیلئے عمران خان ہے!
یزید عاصم منیر اور اس کے قد کے بونے سیاسی گماشتوں کی تصویر کشی کیلئے یہ چار مصرعہ کافی ہیں؎
بس آدھا سچ ہی بولنا بہروپیوں کا دین
سو ان کے قول و فعل پہ آتا نہیں یقین
دکھلانا سبز باغ پُرانا ہے ان کا کھیل
جلتا ہو شہر تب یہ بجاتے ہیں سکھ کی بین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں