قیامت کا رنگ
ایک منظر ہے یہ قیامت کا
گونجتی ہے صدائے اسرافیل
ہے قیامت ہر ایک رنگ میں نئی
رنگ دکھاتا ہے ایسے اسرائیل!
موجودہ حکومت عمران خان کو قید رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے یہاں تک کہ حکومت کے ترجمان جناب عطا تارڑ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ’’حکومت عمران خان پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ کر چکی ہے،نہ صرف ان پر بلکہ سابق صدر عارف علوی، سپیکر قاسم سوری پر بغاوت کی شق لگائے گی۔ ان سمیت بہت سے اصحاب کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کئے جائیں گے‘‘۔ اس ارادے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا ہو گا اور تمام قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے خیال اور تجربے کی روشنی میں عدالت حکومت کی یہ درخواست کبھی قبول نہیں کرے گی۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی ہے لیکن کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ اور سیاسی جماعتیں تھوڑا سا نام بدل کر پھر زندہ ہو گئیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے وجود میں نہ آنے کی ایک بین وجہ حکومت وقت کا یہ پروپیگنڈا تھا کہ چونکہ کمیونسٹ پارٹی روس کی اتباع کرتی ہے اور روس میں ایک ’’لادینی‘‘ حکومت قائم ہے اس لئے پاکستان میں اس جماعت کی تشکیل کسی بھی نام سے ممکن نہیں ہے۔ روس اور کمیونزم کے متعلق لا دینیت کا اس قدر وسیع پیمانے پر ذکر کیا گیا کہ لفظ کمیونسٹ لادینیت کا اشاریہ بن کر رہ گیا۔اس ذیل میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا کہ ایک پولیس والے نے ایک شخص کو گرفتار کیا تو گرفتار ہونے والے نے گرفتاری کی وجہ دریافت کی۔ پولیس والے صاحب نے فرمایا کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم کمیونسٹ ہو ملزم نے کہا کہ بھائی میں کیمونسٹ نہیں بلکہ اینٹی کمیونسٹ ہوںپولیس والے صاحب نے فخر سے فرمایا کہ تم کمیونسٹ ہو یا اینٹی کمیونسٹ ہو تو کمیونسٹ اور اس بے گناہ شخص کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ بات سیاسی جماعتوں کی بندش کی ہورہی تھی جن جماعتوں کی عوام میں جڑیں گہری ہوں وہ بین کئے جانے کے باوجود ایک نئے نام سے زندہ ہو جاتی ہیں۔
ہم روح زماں ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ!
(مرحوم رضی اختر شوق)
تحریک انصاف کو میدان سے ہٹانے اور اس پر مکمل پابندی عائد کرنے سے پہلے حکومت کو عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑے گا اور ماضی قریب کے عدالت کے فیصلے بتاتے ہیں کہ حکومت اپنی اس کوشش میں ناکام رہے گی۔ ویسے بھی آج کل حکومت اور عدالتیں آمنے سامنے ہیں۔ نہ عدالت کو حکومت کے اعمال پسند ہیں نہ حکومت کو عدالت کے فیصلے۔ قرائن کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنے اس اقدام میں کامیاب نہیں ہو پائے گی اور اگر کامیاب ہو بھی گئی تو تحریک انصاف پھر کسی اور نام سے منصہ شہود پر آجائے گی۔ عمران خان اب حکومت کے لئے ’’ہوا‘‘ بن چکے ہیں ۔ حکومت ان پر اور ان کے متعدد ساتھیوں پر نت نئے مقدمات قائم کررہی ہے۔ عتاب زدہ افراد جوں ہی کسی مقدمے میں بری ہوتے ہیں حکومت انہیں پھر کسی اور مقدمے میں پھانس کر بند کر دیتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسی طرح کی ایک اور دلچسپ اور یادگار صورت سامنے آئی۔ عدت کے مقدمے میں عمران خان اور ان کی بیگم کو بریت نصیب ہوئی اور اس سے قبل کہ بشریٰ بیگم جیل سے باہر آجائیں حکومت کے فرستادہ جیل پہنچ گئے۔ بشریٰ بیگم کو جیل کے احاطے سے باہر لا کر خود ہی دوبارہ جیل میں پہنچا دیا گیا کیونکہ قانون یہ کہتا ہے کہ کسی بھی ملزم( مجرم) کو عدالت کے بریت کے حکم کے بعد باہر لانا لازمی ہے اس کے بعد ہی اسے دوبارہ بند کیا جا سکتا ہے۔ انقلاب ہیں زمانے کے۔
ہمیں ادارک ہے اور یہ لکھتے ہوئے افسوس بھی ہے کہ عمران خان نے بھی اپنی حکومت کے دوران بہت سے افراد کو جیل بھجوایا ہر چند کہ انہیں کئی کئی ماہ جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن اگر موجودہ حکومت بھی اس طرح کا سلوک جاری رکھے گی تو معاملات جوں کے توں جاری رہیں گے اور حکومت آسانی سے حکومت نہیں کر پائے گی ہمارا کہنا ہے کہ اب معاملات اپنی آخری حدوں تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت کا یہ معاندانہ قدم حکومت اور حزب اقتدار کے درمیان خلیج بڑھاتا جارہا ہے اور معاملات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس اقتدار نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو حکومت کا کوئی رکن کبھی بھی سینہ ٹھوک کر یہ نہیں کہتا کہ ہمارے پاس مکمل اختیار ہے اور ہم مذاکرات میں جو وعدے کریں گے انہیں مکمل طور پر پورا بھی کریں گے۔ موجودہ حکومت اب فسطائیت پر اتر آئی ہے مشکل یہ ہے کہ وہ قید و بند کا کھیل کھیل سکتی ہے لیکن سوچ پر پہرے نہیں بٹھا سکتی راقم الحروف نے ایک بار لکھا تھا۔
بندش و قیدِ مسلسل کی گرفتاری کی
اب جھلک اور دکھا دیجیے تو اچھا ہو گا
سوچنے والے بہرحال یہاں سوچیں گے
سوچ پہ پہرے بٹھا دیجیے تو اچھا ہوگا!
حکومت کو سوچنا چاہیے کہ تحریک انصاف سے اس کا نشان چھیننے کے بعد اسے انتخابی جلسے جلوس سے محروم رکھنے کے بعد بھی عوام نے تحریک انصاف کو تاریخی کامیابی سے نوازا۔ در ایں حالات ہماری حکومت سے یہی درخواست ہے کہ حالات کو بد سے بدتر ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے حکومت سیاستدانوں سے نہیں بلکہ قوم کے دانشوروں سے درخواست کرے کہ وہ عمران خان پر زور دیں کہ وہ ملک کو گرداب سے نکالنے کے لئے حکومت سے مذاکرات کریں۔ سیاستدانوں پر سے عمران خان کا اعتماد اٹھ چکا ہے ملک کو دلدل سے نکالنے کے لئے شاید ہماری یہ تجویز کام کر جائے اور ہمارے عوام مہنگائی کے طوفان سے نجات پا جائیں۔